وہ دن نہ رہے وہ راتیں نہ رہیں وہ ہم بھی نہ رہے
احسن اب کی بار یوں ہوا کے دہلیز پے اپنی غم بھی نہ رہے
کس در سے پائیں اب روز ہجر سے نجات
اس نگری میں احسن اپنے تو ہمدم بھی نہ رہے
کیا ہوتا گر ختم حیات کے دن کچھ کم رہہ جاتے
ھائے احسن بدنصیبی یہ کے دن کم بھی نہ رہے
سبھی رونقیں چھین گیا وہ شخص میری آنکھوں سے
کے بے بسی کا یہ عالم احسن آنکھ نم بھی نہ رہے
ازالا دیا کسی کی وفا کا یوں بھی ہم نے
اپنے آپ پے احسن اپنی ذات کے کرم بھی نہ رہے
مانا کے بہشت کا حقدار نہیں ہوں احسن
مگر بندہ دیگری نہیں جو جہنم بھی نہ رہے