(ساغر صدیقی کی زمین میں، ایک طرحی مشاعرے کے لیے۔ واوین میں مصرعے ساغر کے ہیں۔)
وہ پلائیں تو کیا تماشا ہو
شیخ آئیں تو کیا تماشا ہو
صحنِ مسجد میں بیٹھ کر واعظ
دل مِلائیں تو کیا تماشا ہو
جن کی گزری ہو عمر سجدوں میں
سر اٹھائیں تو کیا تماشا ہو
تیرے وعدے کا حشْر ہو برپا
"ہم نہ جائیں تو کیا تماشا ہو"
تیرے مقتول تیری چاہت میں
"لوٹ آئیں تو کیا تماشا ہو"
جن کو سمجھے ہیں بے زُباں ہم تم
لب ہلائیں تو کیا تماشا ہو