پاس آ کے دور جاتا ہے
یعنی ضبط میرا آزماتا ہے
مکافات ء عمل بھی لازم ہے
آنکھ کوئی جو رولاتا ہے
اس سے بچھڑا بھی نہیں جاتا
وہ خود سے کہاں ملاتا ہے
تم نے دیکھا ہے میرے اندر کا انساں
روٹھ کے خود سے تمہیں مناتا ہے
تعلق رکھتا جو نہیں کوئی
یاد میں کیوں پھر ستاتا ہے
کون رکھتا ہے ظرف بکھرنے کا
کون تقاضے وفا کے نبھاتا ہے
مقابل محبت کے اناء بھی ہوتی ہے
وقت یوں بھی کبھی آزماتا ہے
بچھڑ جاتے ہیں جنہیں بچھڑنا ہو
وجہ کوئی کب بتاتا ہے
کبھی ہم نے بھی بخشی تھی جلا
لو آج میری تو بجھاتا ہے
ہم جو بکھرے احباب کی عنایت
چھوڑ بات کیوں بڑھاتا ہے
وہ تکلیف پہ تڑپ جاتا تھا عنبر
تکلیف دے کے جو آج مسکراتا ہے