کاش کہ میں بھی مرد ہوتی
معاشرے کا ایک فرد ہوتی
جینے کا مجھے بھی حق ہوتا
چیرہ نہ یوں پھر فق ہوتا
کاش کہ جیون مجھے بھی ملتا
چاہت کا کوئی گل تو کھلتا
کاس کہ پوچھتے مجھ سے چاہت
کسی پل تو ملتی پھر راحت
ہر فیصلہ نہ تھونپا جاتا مجھ پر
عزت کونہ سونپا جاتا مجھ پر
کاش کہ نہ میں مثل چیز ہوتی
کاش کسی کی نہ کنیز ہوتی
نیچلا درجہ اونچے مناصب
سچ کا جھوٹ کے ساتھ تناسب
میرے خوابوں کی نہیں تعبیر ملتی
اگرچہ دنیا ہے زلفوں کی اسیر ملتی
نہیں ملتا جو میں چاہتی ہوں جہاں میں
میرے مولا اس دنیا میں ہوں کہاں میں
کاش کہ دنیا نہ بے درد ہوتی
کاش کہ میں بھی مرد ہوتی