اک سیاہ شب میری تنہائی کو ڈستی ہے صنم
کرکے تیری یاد روشن شمع جلتی ہے صنم
جب ستائے یاد تیری نیند نہ آئے مجھے
تیری غزلوں کے سہارے رات کٹتی ہے صنم
لازمی پردہ ہے تجھ پر حسن کے مالک یہاں
دیکھ کر رخسار دنیا رخ بدلتی ہے صنم
دم اگر نکلے جو میرا سامنے تو ہی رہے
اب دیکھا اک بار صورت سانس بجھتی ہے صنم