کہاں تلک مرا دل درد کی دہائی دے
مرے خدا مجھے رستہ کوئی سجھائی دے
سمجھ رہا ہے جو جیسا ، اسے سمجھنے دو
کوئی کسی کو کہاں تک بھلا صفائی دے
مجھے تو صرف تمہاری رضا سے مطلب ہے
جو چاہتے ہیں خدائی انھیں خدائی دے
مرے خدا مری آ نکھیں لہوُ اگلتی ہیں
اسیرِ غم ہوں مجھے کرب سے رہائی دے
صدا سنے گا وہ اوروں کی کس طرح آخر ؟
وہ جس کو اپنی صدا تک بھی نہ سنائی دے
چھپا ہوا ہے مجھی میں کہیں وہ کہتا ہے
اگر یہ سچ ہے تو پھر سامنے دکھائی دے
وہ شخص جس کو وفا عمر بھر ملی مجھ سے
وفا کے بدلے میں کیوں مجھ کو بیوفائی دے
نہیں جدائی سے بڑھ کر کوئی بھی غم عذراؔ
خدا کسی کو مقدر میں نہ جدائی دے