بچوں کی کردار سازی

بچوں کی کردار سازی۔ والدین اکثر اپنے بچوں کے ضدی پن سے نالاں اور شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ بچے ان کی بات نہیں مانتے او ر بس اپنی بات کو ہی منوا کر دم لیتے ہیں۔ ان میں معاشرے کے ہر طبقے کے والدین شامل ہیں۔ ہم اس کا مشاہدہ کٔی دفعہ مارکیٹ وغیرہ میں بھی کر سکتے ہیں۔بچہ رو تے ہوئے کسی کھلونے/کھانے کی چیز کی فرمائش کر رہا ہوتا ہے اور والدین کے منع کرنے پر اسکے رونے اور چلانے میں زیادہ شدت آ جاتی ہے۔ آ خر نتیجہ بچے کی جیت ہوتی ہے اور وہ اپنی پسندیدہ چیز لینے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اسی طرح آج کے دور میں بچوں کا موبائل کے استعمال کرنے کی ضد اور والدین کی بےبسی ہمارے سامنے ہے.

بچے کی شخصیت اور رویوں کوبنانے میں دو عوامل کارفرما ہوتے ہیں؛

وارثت اور ماحول
انسان میں کئ عادتیں اور زہنی بیماریاں وارثتی طور پر منتقل ہوتی ہیں ۔ لیکن آج ہم ماحول ہی کی بات کریں گے کہ ماحول کسطرح سے بچے کی کردار سازی پر اثرانداز ہوتا ہے اس میں والدین ،بہن بھائی ،گھر کے دوسرے افراد اورارد گرد کے افراد شامل ہیں انہی افراد کے رویے بچے کی کردار سازی پر براہ راست اثرانداز ہورہے ہوتے ہیں ۔

ہر معاشرے کی بچوں کے پرورش کی کچھ روایت بھی ہوتی ہیں جو کہ وقت کے ساتھ بدلتی تو ہیں لیکن کچھ اقدار کی پاسداری کی جاتی ہے تاکہ معاشرہ اپنا تشخص برقرار رکھ سکے۔ لیکن اگر یہ کہا جائے کہپاکستانی معاشرے میں روایتں قریبأ ختم ہوتی جارہی ہیں تو بےجا نہ ہو گا ۔

بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے مگر بچے کے کردارکو ماحول کس طرح سے ڈھال رہا ہوتا ہےاور ہم ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو توجہ بھی نہیں دیتے ہیں ۔اس کو چھوٹی سی مثال کے زریعے سے وضاحت کرتے ہیں ۔ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ ہم بچے کی پہلی مرتبہ کی پکار کو نظر انداز کر دیتے ہیں چاہے وہ شیرخوار ہی کیوں نہ ہو جب تک بچہ چیخ کر نہیں پکارے گا ھم اس کی جانب متوجہ نہیں ہوں گے اور بچے کے رونے کی شدت میں اضافہ ہماری توجہ کا سبب بنتی ہے ۔ اگر ہم اس کا تجزیہ کریں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ بچہ اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے چیخنے کا رویہ سیکھ گیا ہے ۔یعنی بچےکے چیخنے کے رویے کو تقویت (اسکی ضرورت پوری ہونا) ملی ہے۔ یہ بچہ آیندہ بھی اپنی ضرورت کو بتانے کے لیے چلاۓ گا۔
بچوں کے ضدی اور جگھڑالو ہونے کی ایک وجہ والدین کا مستقل رویہ نہ ہونا ہے جیسے عام روٹین میں ہم بچوں کی اکثر غلط باتوں/رویوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں لیکن اگر وہ یہی حرکت کسی کے سامنے کرے تو وہ ہمارے لیے قابل برداشت نہیں ہوتی ہے ۔ گھر میں بچے اکثر دوسروں کا مزاق اور نقل أتاررہے ہوتے ہیں اور ہم انکو منع کرنے کی بجاۓ لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن اگر وہ یہی حرکت کسی کے سامنے کرتا ہے تو بچے کو ڈانٹ کے ساتھ بدتمیزی کا لیبل بھی لگ جاتا ہے۔ یہ بات بچے کو بہت کنفیو ژ کردیتی ہے کہ ایک بات کبھی ٹھیک ہوتی اور کبھی خراب ہوتی ہے اور پھر یہ بچہ بھی اپنے والدین کی طرح جھوٹ اور دوغلا پن سیکھ جاتا ہے۔ اگر یہ بات والدین سے کی جائے کہ یہ رویہ بچے نے آپ سے سیکھا ہے تو وہ اس کے انکاری نظر آئیں گے۔

والدین اور گھر کے دوسرے افراد بعض اوقات اقدار اور belief system کو اپنے مطابق بنا کر پیش کرتے ہیں۔ جیسے والدین کئی دفعہ بچوں کے سامنے جھوٹ بولتے دکھائی دیتے ہیں لیکن دوسری طرف بچوں کو جھوٹ بولنے سے روکا جاتا ہے اگر بچہ والدین کوانکا جھوٹ بولنا یاد کراۓ تو انکو کہا جاتا ہے وہ تو ہم نے مصلحتاً بولا تھا اور اسکو باور کرایا جاتا ہے کہ ہم اپنی مرضی سے جھوٹ بول سکتے ہیں۔

والدین کا آپس میں رویہ بچے کی کردار سازی میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ والد کا رویہ والدہ کی طرف یعنی کیا والد والدہ کو عزت کے ساتھ پیش آتے ہیں، پیار اور توجہ کا اظہار کرتے ہیں اور گھر کے کاموں میں ساتھ دیتے ہیں یا والد اپنے آپ کو حاکم کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ اسی طرح والدہ کا رویہ والد کی موجودگی میں اور غیر موجودگی میں کیسا ہے کیونکہ اکثر مشاہدہ میں آتا ہے کہ والد کی موجودگی میں تو والد کے ڈر سے تووالدہ زیادہ بولتی نہیں لیکن غیر موجودگی میں والد کے خلاف بچوں کے سامنے ایسی باتیں کر جاتی ہیں جو کہ کسی طور پر بھی مناسب نہیں ہوتی ہیں۔ بچے انہی باتوں/مشاہدوں سے اپنے کردار کی بنیاد بنا رہے ہوتے ہیں ۔

ہم والدین اپنے رویوں کا بغور مشاہدہ کریں کہ ہمارے بچے ہم سے کیا سیکھ رہے ہیں جیسے غصے میں ہمارا رویہ دوسرے افراد سے کیسا ہوتا ہے کیا ہم اپنے أپ کو کنٹرول میں رکھتے ہوئے دوسرے کا نقط نظر سمجھتے ہوئے حا لا ت کو ڈیل کرتے ہیں یا ہم اپنے غصے کا پورا اظہار کر کے دم لیتے ہیں ۔ ہم بھی اپنی ضد کو کسی طرح پورا کر رہے ہو تے ہیں جیسے ہم نے ٹی وی پروگرام دیکھنا ہے تو کوئی اور کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ ہماری بات ماننا سب کے لیے ضروری ہے۔ اسی طرح ہم دوسرں کی بات کو کتنی اہمیت اور عزت دیتے ہیں جیسے اپنے سے بڑوں کی بات آرام کو سننا اور تسلی بخش جواب دینا۔

اگر غور کیا جاۓ تو ہم باآسانی اس کوجان سکتے ہیں کہ بچے کی عادات بننے میں ماحول اہم کردار ادا کرتا ہے اور اس مااحول میں والدین اور گھر میں رہنے والے دوسرے افراد کا کردار قلیدی ہوتاہے۔ بچہ کسی بھی سچویشن میں اپنا بہترین رویہ پیش کرتا ہے جو کہ وہ اس خاص سچویشن کے لیے اس نے سیکھا ہوتا ہے ۔ یعنی بچے اپنے والدین یا گھرکے دوسرے افراد کے کردار کو نقل کرتے ہیں جو کہ اس نے اپنے والدین اور دوسرے افراد کو مختلف اوقات میں جو عمل کرتے ہوئے دیکھا ہوا ہوتا ہے کیونکہ بچے کے پاس کوئی خاص سچیوشین/ صورتحال سے نپٹنے کیلئے اپنے کوئی تجربات نہیں ہوتے بلکہ وہ اپنے والدین/گھر کے دوسرے افراد کے کردار کی نقل کر رہا ہوتا ہے ۔

نیلسن مینڈیلا کے مطابق معاشرے کی روح کا اس سے بڑھ کر اندازہ نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ کرتا ہے۔ کیونکہ بچے ہی مستقبل کے معاشرے کے رویے متعین کرتے ہیں ۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث کے مطابق ہر بچہ فطرت (فطری مزاج) کی حالت میں پیدا ہوتا ہے۔ والدین اپنے بچوں کے مذہبی عقائد کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، چاہے وہ یہودی ہو، عیسائی ہو یا جادوگر۔ بالکل اسی طرح جیسے ایک جانور مکمل اولاد کو جنم دیتا ہے۔ کیا آپ کو اس کی ماں سے مشابہت میں کوئی کمی نظر آتی ہے؟ (متفقون علیہ)

بچوں کی تربیت سازی ایک نہایت نازک اور بہت اہم فریضہ ہے جس پر ہم کوئ خاص توجہ نہیں دیتے لیکن بچوں کے رویوں سے نالاں نظر أتے ہیں۔ آج کا سوال کیا یہ نہں کہ بچوں کے کوسنے کی بجاۓ ہم اپنے رویوں کا جایزہ لیں۔

Mahrukh Nazir
About the Author: Mahrukh Nazir Read More Articles by Mahrukh Nazir: 2 Articles with 607 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.