19ویں صدی میں ایجاد کیا گیا ’مورس کوڈ‘ آج بھی روسی یوکرین جنگ میں کیوں استعمال کر رہے ہیں؟

جدید زمانے کی جنگ تو مصنوعی ذہانت سے لے کر ڈرونز اور ہائپر سونک میزائل تک تمام طرح کی ٹیکنالوجی سے بھری ہوئی ہے لیکن ایسے میں ایک صدی سے زیادہ پرانی مورس کوڈ جیسی ٹیکنالوجی بھی اپنی اہمیت دکھا رہی ہے۔
ٹینک روسی
EPA
روسی ٹینک

جنگ میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال نیا نہیں ہے اور جدید زمانے کی جنگ تو مصنوعی ذہانت سے لے کر ڈرونز اور ہائپر سونک میزائلوں تک تمام طرح کی ٹیکنالوجی سے بھری ہوئی ہے لیکن ایسے میں ایک صدی سے زیادہ پرانی مورس کوڈ جیسی ٹیکنالوجی بھی اپنی اہمیت دکھا رہی ہے اور اس کا استعمال جاری ہے۔

ڈیڑھ سو سال قبل سٹیکاٹو ٹونز کی لہریں جسے اس وقت کے ریلوے کارکن فوری طور پر پہچان لیتے تھے اب بھی روسی فوج یوکرین کی جنگ میں استعمال کر رہی ہے۔

آج بھی بہت سے لوگ مورس کوڈ کی خصوصی آواز کی شناخت کر سکتے ہیں جس میں ایمرجنسی کے سگنل کے طور پر معروف پیٹرن تین مختصر، تین طویل اور پھر تین مختصر گھنٹیاں بجتی تھیں اور یہی ان ایس او ایس یعنی بچاؤ کے لیے استعمال ہونے والا ایمرجنسی سگنل تھا۔

آج بھی مورس کوڈ کے پیغامات روسی بمبار طیاروں سے ان کے کنٹرول روم یا بالٹک فلیٹ میں موجود بحری جہازوں سے ان کے زمینی ہیڈکوارٹر تک بھیجے جاتے ہیں۔

ریڈیو کا شوقیہ استعمال کرنے والوں کی جانب شارٹ ویو بینڈ اس طرح بیپس سے بھرے ہوتے ہیں جو عام لوگوں میں ’ڈاٹس‘ (.) اور ’ڈیش‘ (-) سے جانے جاتے ہیں۔

یہاں تک کہ جاسوس بھی مورس کوڈ میں پیغام دینے والے خفیہ سٹیشنوں کو سننے کے لیے شارٹ ویو بینڈز کو سنتے ہیں۔

مورس کوڈ اور ٹیلیگراف
Getty Images
مورس کوڈ اور ٹیلیگراف نے دوسری جنگ عظیم میں نمایاں کارکردگی دکھائی

19ویں صدی کی ایجاد

تو 19ویں صدی کے آغاز میں ایجاد ہونے والی اس ٹیکنالوجی کا آج بھی کیوں استعمال ہو رہا ہے؟

سب سے پہلے تو یہ بتا دیں کہ مورس کوڈ کا تصور کسی انجینیئر یا تکنیکی ماہر نے نہیں پیش کیا تھا بلکہ ایک ایسے شخص نے پیش کیا تھا جو خود ایک مصور تھے۔ اسے سیموئل مورس نے ابتدائی طور پر ڈیزائن کیا تھا جسے آج ہم ٹیلی پرنٹر کہتے ہیں۔ یہ ایک ایسا آلہ ہے جو متن وصول کرتا ہے اور اسے کاغذ پر پرنٹ کرتا ہے۔

مورس نے اس مشین کی ایجاد کے لیے الفریڈ وائل کی مدد لی جو میکانکس میں دلچسپی رکھنے والے مشینوں کے ماہر تھے۔ انھوں نے ہی کوڈ کی نمائندگی کرنے کے لیے نقطے (ڈاٹس) اور ڈیش بنائے اور معلومات کو منتقل کرنے کے لیے آواز کا استعمال کرنے کا خیال دیا۔

پہلے پہل ان کے لیے آواز کا مقصد صرف ایک کنکشن کی جانچ کرنا تھا لیکن پھر انھیں احساس ہوا کہ پرنٹنگ کا خیال عملی نہیں لیکن جب انھوں نے اپنے تجربے میں آواز کا اضافہ کیا تو وہ ایک ایسے تصور سے ٹکرائے جو ان کے تصور سے کہیں زیادہ شاندار اور مفید تھا۔

مورس کوڈ کی نمایاں خصوصیت یہ ہیں کہ آواز کی شکل میں یہ ایک سُر اور تال بناتا ہے۔ لہٰذا اس میں موسیقی کے جیسے مشترک پوائنٹس ہیں اور پھر یہ دیکھا گیا کہ موسیقی میں صلاحیت رکھنے والے لوگ مورس کوڈ کو زیادہ تیزی سے سیکھ سکتے ہیں یا نہیں۔

https://twitter.com/shortwave78/status/1779937804320960904

’کانوں سے پڑھنے‘ کی تکنیک

لے اور تال کے فطری انسانی احساس کو متحرک کرکے مورس کوڈ پیٹرن ہماری شناخت کے احساس کو بھی متحرک کرتے ہیں۔ یہ ایک ہنر ہے جو ہمارے دماغ میں گہرائی سے پیوستہ ہے اور اس میں پیغامات کو سمجھنے کی بڑی صلاحیت ہے چاہے وہ نامکمل ہی کیوں نہ ہوں۔

ایک تجربہ کار مورس کوڈ آپریٹر موصول ہونے والے پیغامات میں مداخلت، خراب ریسپشن، شور، یا سامان کی خرابی کی وجہ سے پیغام میں در آنے والے خلا کو پر کر سکتا ہے۔

اگر اعصابی لحاظ سے دیکھا جائے تو مورس ایک بہت ہی عجیب و غریب مقام پر آباد ہے جسے 'کانوں سے پڑھنے' سے تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ یہاں پیغام رسانی لکھنے سے زیادہ بولنے کے عمل سے ملتی جلتی ہے۔

مورس کوڈ کا دوسرا قابل ذکر پہلو اس کی سادہ تکنیک ہے۔ بنیادی تکنیکی علم رکھنے والا کوئی بھی شخص معیاری اجزاء کا استعمال کرکے اپنا ٹرانسمیٹر بنا سکتا ہے۔

مورس ٹرانسمیٹر سے جو سگنل پیدا ہوتا ہے وہ صرف 100سے 150 ہرٹز لیتا ہے یعنی ایک بہت ہی تنگ بینڈوڈتھ کا استعمال کرتا ہے جبکہ معیاری آواز کے مواصلات کے لیے 2500 سے 3000 ہرٹز کا استعمال ہوتا ہے۔

اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ریسیورز بہت تنگ فلٹرز استعمال کر سکتے ہیں اور اس طرح مداخلت کی مختلف شکلوں سے پیدا ہونے والے زیادہ تر شور کو ختم کر سکتے ہیں۔

اتنا مؤثر ہونے کی وجہ سے مورس کو فاصلے طے کرنے کے لیے کم از کم طاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔

ٹیلی پرنٹر
BBC

انتہائی کم توانائی کا استعمال

ریڈیو کے شوقینوں نے سنہ 1956 میں یہ تجربہ کیا کہ میساچوسٹس سے ڈنمارک تک پیغام کی ترسیل کے لیے 78 ملی واٹ سے کم طاقت کافی ہو سکتی ہے۔

یہ ایک ایل ای ڈی بلب کے استعمال کے دسویں حصے سے بھی کم ہے۔ جبکہ ایک معیاری کافی بنانے میں اس سے ہزار گنا زیادہ توانائی استعمال ہوتی ہے۔

تکنیکی سادگی اور کارکردگی کا یہ امتزاج دوسری عالمی جنگ کے دوران کارآمد ثابت ہوا جب جرمنی کی مزاحمت کرنے والوں اور اتحادی کمانڈوز نے جرمنی کے زیر قبضہ علاقے کے اندر سے لندن کے ساتھ رابطہ برقرار رکھنے کے لیے اپنے پورٹیبل مورس ٹرانس ریسیورز کا استعمال کیا۔

یہ ایک بہت پرخطر کام تھا کیونکہ جرمن مسلسل ہوائی لہروں کو سن رہے تھے۔ مورس کوڈ اگرچہ غیر تربیت یافتہ کانوں کے لیے ناقابل فہم ہے لیکن یہ اپنے آپ میں سکیورٹی فراہم نہیں کرتا۔

آج بغیر تربیت والے بھی سافٹ ویئر کے استعمال سے مورس کوڈ کے ذریعے بھیجے گئے پیغامات کو سمجھ سکتے ہیں۔ تاہم، کسی بھی پیغام کو بھیجنے سے پہلے اسے کوڈڈ یا خفیہ بنا کر محفوظ بنایا جا سکتا ہے، جیسا کہ ویل نے سنہ 1845 میں تجویز پیش کی تھی۔

درحقیقت خفیہ کاری کی سب سے محفوظ شکلوں میں سے ایک ’سنگل یوز پیڈ‘ یعنی ایک ہی بار استعمال ہونے والا پیڈ ہے جس میں پینسل اور کاغذ کے علاوہ کچھ اور نہیں چاہیے۔ بنیادی طور پر سنگل یوز پیڈ حروف کی ایک بے ترتیب تار ہے، کم از کم اس وقت تک جب تک کہ پیغام کو خفیہ رکھا جائے۔

بھیجنے والا اپنا پیڈ انکرپٹ کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے جبکہ وصول کرنے والا اسی پیڈ کی ایک کاپی پیغام کو ڈی کوڈ کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے (صرف دو کاپیاں ہونی چاہئیں اور ہر ایک کو استعمال کے فوراً بعد تباہ کر دینا چاہیے)۔

جب تک کسی نوٹ بک کو دوبارہ استعمال نہیں کیا جاتا ہے نظریاتی طور پر وہ اٹوٹ ہی رہتی ہے، حتیٰ کہ جدید ترین ٹیکنالوجی کے باوجود۔

اگرچہ آج زیادہ مؤثر ڈیجیٹل کمیونیکیشن ٹیکنالوجیز موجود ہیں لیکن کوئی بھی چیز اس سادگی اور کارکردگی کے بے مثال امتزاج کا مقابلہ نہیں کر سکتی اور اسی خصوصیت نے مورس کوڈ کو 150 سال سے زیادہ عرصے تک زندہ رکھا ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.