واسکو ڈے گاما: پہلا یورپی جس نے سمندری راستے سے برصغیر میں قدم رکھا

image

یہ جولائی کی ایک گرم صبح تھی۔ پرتگال کے شہر لزبن کے ساحل پر معمول سے زیادہ چہل پہل تھی۔

سلطنت کے حکمراں کے علاوہ شہر کے رؤسا سونے کے ذخائر اور مصالحہ جات کے لیے مسلمانوں کے مرہون منت نہیں رہنا چاہتے تھے مگر زمینی راستے سے انڈیا پہنچنا ممکن نہیں تھا کیوں کہ مسلمانوں کے زیرنگیں علاقوں سے گزر کر ہی انڈیا پہنچا جا سکتا تھا۔ 

مسلمانوں کے یورپ کے مسیحی حکمرانوں سے بہت اچھے تعلقات نہیں تھے۔ اس لیے یورپی سمندری راستے سے انڈیا پہنچنا چاہتے تھے۔ امریکا کی دریافت کی خبروں نے یورپی حکمرانوں میں ایک نیا جوش و ولولہ پیدا کیا تھا۔

لزبن کے ساحل پر کھڑے چار جہاز ایکسپلورر اور جہاز راں واسکو ڈے گاما کی قیادت میں روانگی کے لیے تیار تھے۔ یہ ایک مشکل مہم تھی کیوں کہ اس سے قبل یورپ سے سمندر کے راستے انڈیا پہنچنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔

یورپی اگرچہ قبل از مسیح کے زمانے سے انڈیا کے ساتھ تجارت کرتے رہے تھے جبکہ سکندر اعظم کی قیادت میں پنجاب میں وہ تاریخی معرکہ لڑا گیا تھا جس میں راجہ پورس ہار کر بھی جیت گیا تھا۔

یہ 8 جولائی 1497 کا ذکر ہے جب واسکو ڈے گاما اپنی اس مہم پر روانہ ہوئے۔ اس سفر میں ان کے چھوٹے بھائی پاؤلو بھی ان کے ہمراہ تھے جو سینٹ رافیل نامی جہاز کے نگراں تھے جبکہ واسکو ڈے گاما سینٹ گیبریئل نامی جہاز پر سوار تھے۔

مشہور عرب جہاز راں احمد ابن ماجد ’اسد البحار‘ کے نام سے جانے جاتے تھے (فائل فوٹو: ویکیپیڈیا)

واسکو ڈے گاما نے جہاز کا رُخ جنوب کی جانب کیا تو ہواؤں نے بھی ان کا ساتھ دیا اور وہ افریقہ کے مغربی ساحل کی جانب بڑھ گئے اور ’رأس امید‘ (Cape of Good Hope) کا چکر کاٹ کر بحرہند میں داخل ہو گئے۔

مہم جو اور سیاح مارکو پولو اگرچہ شاہراہ ریشم کے ذریعے انڈیا آئے تھے۔ وہ مگر بحر ہند میں سفر کر چکے تھے۔

بحر ہند کے پانیوں میں پہنچنا واسکو ڈے گاما کی ایک اہم کامیابی تھی لیکن ان کے لیے امتحان تو اس وقت شروع ہوا جب ان کے ساتھ اس سفر پر جا رہے ان کے ساتھی ’سکروی‘ نامی پیماری کا شکار ہو گئے، یہ بیماری اسکاربک ایسڈ یا وٹامن سی کی کمی کے باعث لاحق ہوتی ہے۔

اس وقت واسکو ڈے گاما نے موزمبیق میں ٹھہرنے اور سستانے کا فیصلہ کیا مگر ان کا یہ فیصلہ درست ثابت نہ ہوا کیوں کہ موزمبیق کے سلطان یورپی مہمانوں کی جانب سے دیے جانے والے تحائف سے مطمئن نہیں ہو سکے تھے جس کے باعث دونوں فریقوں میں کشیدگی پیدا ہو گئی۔

برطانوی ویب سائٹ ’لائیو سائنس‘ کے مطابق ’واسکو ڈے گاما کے جہاز ممباسا اور مالیندی میں لنگرانداز ہوئے جہاں ایک عرب گائیڈ نے اس مہم میں ان کی مدد کرنے پر رضامندی ظاہر کی، یہ گائیڈ ممکنہ طور پر معروف عرب جہاز راں احمد ابن ماجد تھے۔‘

کچھ تاریخی ذرائع اگرچہ اس دعوے کی تصدیق نہیں کرتے مگر پرتگالی ایکسپلورر اور عرب جہاز راں کا ایک ہی زمانہ تھا۔ احمد ابن ماجد ’اسد البحار‘ کے نام سے جانے جاتے تھے۔ انہوں نے شاعری اور نثر کی تقریباً 40 کتابیں لکھی تھیں جن میں ان کی جہاز رانی کے فن پر مقبول ترین کتاب بھی شامل ہے۔

واسکو ڈے گاما کے لیے کینیا کے ان دو ساحلوں پر سستانے کے بعد سفر آسان ہو گیا۔ ان کے جہازوں نے دوبارہ سفر کا آغاز کیا۔ وہ 23 روز تک مسلسل سفر کرتے رہے اور  بالآخر آج ہی کے دن سال 1498 میں کئی مہینوں پر محیط طویل اور مشکل  سفر کرکے انڈیا کے ساحلی شہر کالی کٹ (موجودہ کوڑیکوڈ) پہنچنے میں کامیاب رہے۔ یہ شہر بھارتی ریاست کیرالہ کے مالابار ساحل پر واقع ہے جہاں مسلمان پہلے ہی پہنچ چکے تھے۔

20 مئی کو برصغیر میں پہلی مرتبہ ایک یورپی باشندے نے سمندری راستے سے قدم رکھا تھا (فائل فوٹو: ورلڈ ہسٹری انسائیکلوپیڈیا)

دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ یورپی یہ اُمید کر رہے تھے کہ مقامی لوگ مسیحی ہوں گے مگر ان کا یہ اندازہ غلط ثابت ہوا کیوں کہ وہ ہندو تھے تاہم کالی کٹ کے حکمراں ان کے ساتھ تجارت کرنے پر تیار ہو گئے۔ دوسری جانب مسلمان تاجروں کو واسکو ڈے گاما کی آمد ایک آنکھ نہ بھائی جس کی وجہ کاروباری رقابت تھی۔

20 مئی 1498کا دن انڈیا کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کیوں کہ یہ وہ دن تھا جب برصغیر میں پہلی مرتبہ کسی یورپی نے سمندری راستے سے قدم رکھا تھا جو آنے والے دنوں میں اس خطے کے برطانوی نوآبادیات کا حصہ بننے میں مددگار ثابت ہوا۔

اکتوبر 1492 میں جمہوریہ جینوا (موجودہ اٹلی) کے ایکسپلورر کرسٹوفر کولمبس نے امریکا دریافت کیا تھا۔ وہ آج ہی کے دن سال 1506 میں چل بسے۔ یوں یہ دن اس حوالے سے بھی اقوام عالم کی تاریخ میں ایک اہم حیثیت رکھتا ہے۔

بات واسکو ڈے گاما کی ہو رہی تھی۔ انہوں نے تین ماہ تک کالی کٹ میں قیام کیا اور جب واپسی کے لیے روانہ ہونے لگے تو ان کو مون سون کے خدشات کے بارے میں آگاہ کیا گیا مگر وہ مزید رکنے پر تیار نہ ہوئے۔

انہوں نے دوبارہ سفر شروع کیا ہی تھا جب ان کو شدید سمندری طوفان کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کو جس سفر میں تین ہفتے سے کچھ زیادہ لگے تھے، اس پر اب ان کو تین ماہ سے زیادہ کا وقت لگا۔ اس سفر کے دوران ان کے عملے کے بہت سے ارکان ’سکروی‘ کے باعث جان سے گئے جس کے باعث انہوں نے جہاز سینٹ رافیل کو نذر آتش کرنے کا حکم دیا کیوں کہ اس کو چلانے کے لیے عملہ موجود نہ تھا۔

’لائیو سائنس‘ لکھتا ہے کہ ’افریقہ کے مغربی ساحل سے جہاز ایک دوسرے سے الگ ہو گئے اور ایک ساتھ لزبن نہیں پہنچے۔‘

اس سفر کے دوران واسکو ڈے گاما کے چھوٹے بھائی رافیل وفات پا گئے۔ یہ واسکو ڈے گاما کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا۔ وہ جب اپنے بھائی کی تدفین سے واپس پرتگال لوٹے تو ان کے طائفے میں شامل دیگر جہاز ایک ماہ قبل ہی واپس پہنچ چکے تھے۔

انڈیا سے واپسی کے سفر پر واسکو ڈے گاما کے طائفے کو ایک سال سے زیادہ کا وقت لگا (فائل فوٹو: پینٹریسٹ)

’لائیو سائنس‘ پر شائع ہونے والے مضمون کے مطابق ’انڈیا سے واپسی کے سفر پر واسکو ڈے گاما کے طائفے کو ایک سال سے زیادہ کا وقت لگا۔ وہ طائفے کے 170 ارکان کے ساتھ انڈیا جانے کے لیے روانہ ہوئے تھے مگر سال 1499 میں ان کی واپسی صرف 54 ارکان کے ساتھ ہوئی۔ وہ واپس پہنچے تو ان کا استقبال ایک ہیرو کے طور پر کیا گیا اور ان کو ایڈمرل کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔‘

مصالحہ جات کی تجارت پرتگال کے لیے بہت اہمیت رکھتی تھی جس کے باعث شاہ مینوئل نے انڈیا کے لیے ایک اور طائفہ روانہ کیا مگر اس بار مسلمانوں کی جانب سے سخت مزاحمت کی گئی جنہوں نے پرتگالیوں کی کالی کٹ میں آمد کو قبول نہیں کیا اور مسلمانوں کے ساتھ جنگوں میں 70 پرتگیزی مارے گئے۔

شاہ مینوئل انڈیا کے حوالے سے بہت پرجوش تھے۔ یہ ان برسوں کی بات ہے جب یورپ مختلف خطوں میں اپنے قدم جمانے کی کوشش کر رہا تھا۔ سال 1502 میں واسکو ڈے گاما کو ایک بار پھر انڈیا کے لیے سفر پر روانہ کیا گیا تاکہ وہ خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا سکیں۔ وہ لزبن سے 20 مسلح جہازوں کے طائفے کے ساتھ روانہ ہوئے۔

انہوں نے اس سفر کے دوران کالی کٹ پہنچنے تک ظلم کی ایک نئی تاریخ رقم کی اور کالی کٹ میں بھی مقامی حکمراں کو سرنڈر کرنے پر مجبور کر دیا جس کے بعد جنوب میں کوچن کی جانب روانہ ہوئے اور مقامی حکمراں کے ساتھ اتحاد کرنے میں کامیاب رہے اور یوں پرتگال مصالحہ جات کی تجارت پر اپنا تسلط قائم کرنے میں کامیاب رہا۔

چناں چہ یہ سوال پیدا ہونا فطری ہے کہ واسکو ڈے گاما ایک ہیرو تھے یا ولن؟ تاریخ ان کو ان دونوں حوالوں سے یاد رکھتی ہے۔ اس بحث میں جائے بغیر یہ اہم ہے کہ واسکو ڈے گاما کے باعث ہی انڈیا پر یورپیوں اور بالخصوص آنے والے برسوں میں برطانوی قبضے کی راہ ہموار ہوئی جس کے باعث واسکو ڈے گاما کو ایک بحری قذاق کے طور پر پیش کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا جو تاریخی حوالوں سے بہرحال ثابت نہیں ہوتا۔

واسکو ڈے گاما دوسرے سفر سے واپس پرتگال لوٹے تو وہ انڈیا کے امور پر شاہ مینوئل کے مشیر بن گئے۔ انہوں نے اس دوران زیادہ وقت اپنے خاندان کے ساتھ گزارا۔ ان کے چھ بیٹے اور ایک بیٹی ہوئی۔

واسکو ڈے گاما کے باعث ہی انڈیا پر یورپیوں اور بالخصوص آنے والے برسوں میں برطانوی قبضے کی راہ ہموار ہوئی (فائل فوٹو: برٹینیکا)

شاہ مینوئل کے بعد بادشاہ جان سوئم نے واسکو ڈے گاما سے ایک بار پھر انڈیا جانے کے لیے کہا کیوں کہ وہ انڈیا میں پرتگالی حکام کی کرپشن کے حوالے سے موصول ہو رہی شکایات پر پریشان تھے۔ سال 1524 میں جب وہ انڈیا جانے کے لیے دوبارہ سمندری سفر پر روانہ ہوئے تو ان کو وائسرائے کا خطاب دیا جا چکا تھا۔

ان کو کوچن پہنچے زیادہ دن نہیں ہوئے تھے جب وہ بیمار ہو گئے اور اسی برس 24 دسمبر کو وفات پا گئے۔ ان کی عمر اس وقت 55 سے 65 برس کے درمیان تھی۔

اس حقیقت سے مفر ممکن نہیں کہ انہوں نے دنیا کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل عبور کیا تھا جو گلوبلائزیشن کی جانب ہو رہی پیش رفتوں کی ابتدا تھی اور پرتگال ان کی وجہ سے ہی ایک بڑی نوآبادیاتی قوت بن کر ابھرا جس کے باعث پرتگال میں واسکو ڈے گاما کو ایک ہیرو کی حیثیت حاصل ہے اور دوسرے بہت سے ہیروز کی طرح ان کی شخصیت پر بھی خون کے کچھ داغ ہیں جنہیں دھونا آسان نہیں۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.