ہم سفر کا ملال تحریر محمد وسیم بلوچ

کئی موقع پرستوں کی کہانی جو فائدے کےلیے جذبات اور احساسات کو روند دیتے ہیں۔

ہم سفر کا ملال

لمبا سیاہ کوٹ پہنے سر پر اسی رنگ کا بڑا سا ہیٹ رکھے سگریٹ سلگائے گنگناتا ہوا وہ لاپرواہ سا لڑکا ایک نامعلوم منزل کی جانب رواں تھا وہ نہیں جانتا تھا اس کی منزل کیا ہے لیکن وہ مطمئن تھا اسے کوئی فکر کوئی غم لاحق نہیں تھا وہ اپنی بے نشاں منزل اور بے مقصد زندگی سے خوش تھا اس کی زندگی کا کوئی مقصد یا اصول نہیں تھا وہ ایک متلون المزاج شخص تھا جسے اپنے سوا کسی کی پرواہ نہیں تھی اچانک ایک کھنکتی ہوئی سریلی سی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی تو اس نے ناگواری سے پلٹ کر دیکھا ایک خوبصورت کلی کی طرح کھلتی ہنستی مسکراتی شریر لڑکی جس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی کشش اور چال میں لاپرواہی تھی اسی کی طرف بڑھ رہی تھی اس نے عجیب سے نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔

آپ کہاں جا رہے ہیں کیا میں کچھ دیر تک آپ کی ہمسفر بن سکتی ہوں ؟ دراصل آپ جس رستے پر جا رہے ہیں میری منزل بھی اسی رستے پڑتی ہے۔
اس شوخ مزاج اور چلبلی سی لڑکی کی آواز نے اس کی خفگی میں مزید اضافہ کیا تھا اس کو سخت ناپسند تھا کہ کوئی اس کا ہمسفر بن وہ اکیلے بے مقصد رہنے اور سفر کرنے کا عادی تھا۔

میں وہ مسافر ہوں جس کی کوئی منزل نہیں ہوتی لہذا آپ اپنے لیے کوئی اور ہمسفر دیکھ لیں۔
وہ سگریٹ کا دھواں چھوڑتا ہوا آگے بڑھنے لگا اس کے قدموں میں تیزی آگئی تھی وہ اجنبی لڑکی اس کے لہجے میں چھپی ناگواری کو محسوس کرکے مسکرائی۔

دیکھنے میں تو کافی ہینڈ سم لگتے ہیں پر بلا کے کھڑوس ہیں کوئی سمجھدار انسان بھلا اتنے خوبصورت ہمسفر کو کیسے ٹھکرا سکتا ہے ؟
وہ لڑکی بھی اس کے ساتھ اچھلتی کودتی دونوں ہاتھ پیچھے باندھے مسکراتی ہوئی گویا ہوئی تو ایک بار پھر اس سیاہ کوٹ والے نے خفگی سے اس نادان لڑکی کو دیکھا جو زبردستی اس کی ہمسفر بننے کی کوشش کر رہی تھی۔

نادان لڑکی تمہیں سمجھ نہیں آتی کہ میری کوئی منزل نہیں ہے تو پھر کیوں میرا اور اپنا وقت ضائع کر رہی ہو۔
وہ ایک بار پھر خفگی بھرے لہجے میں تیز تیز چلتا ہوا گویا ہوا۔

ہائے آپ غصے میں بھی کتنے پیارے لگتے ہیں امید ہے ہمارا سفر خوشگوار گزرے گا۔
وہ اس کی خفگی کو مکمل طور پر نظرانداز کرتے ہوئے ہلکا سا شرمائی اور پھر ایک زور دار قہقہ لگایا اس سیاہ کوٹ والے نوجوان تحیرزدہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔

ہمارا سفر ؟
اس نے رک کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بائیں ہاتھ کی انگلیوں سے اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے دریافت کیا۔

یوں آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہ دیکھیں ورنہ آپ اپنی منزل چھوڑ کر ہمارے ساتھ چل پڑیں گے۔
وہ ابرو اٹھا کر اس کی طرف دیکھ کر قاتلانہ انداز میں مسکرائی تو اس نے لاپرواہی سے قہقہ لگایا اور پھر تیز تیز قدم اٹھاتے آگے بڑھنے لگا تو وہ بھی اس کے پیچھے ہی دوڑی۔

اتنا لمبا کوٹ کیوں پہنا ہے کسی پرانی فلم کے جاسوس لگ رہے اتنے پیارے ہیں کچھ اچھا پہنیں، بلیو جینز اور وائٹ شرٹ تم پر جچے گی۔
وہ اس کے ساتھ چلتی ہوئے بیباکی سے گویا ہوئی۔

تمہیں اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے میں کیا پہنتا ہوں یا کیا نہیں پہنتا اور برائے کرم میرا پیچھا مت کرو۔
وہ اس کو تنبیہہ کرتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔

اچھا پلیز ایک بار ہیٹ اتاریں دیکھیں کتنا برا لگ رہا ہے۔
اس نے جھپٹ کر اس کا ہیٹ اتار لیا۔

دیکھو تم حد سے بڑھ رہی ہو میرا ہیٹ واپس کرو۔
وہ اس کو وارن کرتے ہوئے تلخ لہجے میں بولا۔

اچھا کیا کر لیں گے آپ ؟
وہ بغیر کسی خوف کے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گویا ہوئی تو اس کو ایک دم سے اپنا آپ پھسلتا ہوا محسوس ہوا وہ اس کی بات کا جواب دئیے بغیر رخ پھیر کر دوبارہ چل پڑا۔

شکل اچھی ہے تو مسکرانے میں کیا حرج ہے ؟
وہ ایک بار پھر اس کے قدم سے قدم ملاتے اس کا ہیٹ اچھالتی اس کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی اور وہ خاموشی سے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے تھا۔

ٹھیک ہے تم کچھ دیر تک میری ہمسفر بن کر میرے ساتھ چل سکتی ہو لیکن پلیز اپنی زبان بند رکھو تمہاری آواز میری سماعتوں پر ناگوار گزرتی ہے۔
آخر کار تھک کر اس نے اس چلبلی لڑکی کو ساتھ چلنے کی اجازت دے دی۔

کہیں ہماری آواز سے محبت تو نہیں ہوگئی آپ کو ؟
وہ اس کے ساتھ چلتے ہوئے اس کو چھیڑنے سے باز نہیں آ رہی تھی۔

محبت ؟
اس نے ایک قہقہ لگایا اور چل پڑا۔

کیوں کیا ہوا محبت کوئی بری چیز نہیں ہے۔
اس نے سیاہ کوٹ والے لڑکے کے طنزیہ قہقہے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے پہلی بار سنجیدگی سے جواب دیا۔

اس دنیا میں محبت کا کوئی وجود نہیں بس کچھ ضروریات ہیں جو انسان کو انسان سے جوڑے رکھتی ہیں۔
اس نے بھی اس کی طرف دیکھتے بغیر جواب دیا۔

آپ بھول رہے ہیں یہ کائنات کا وجود بھی محبت کی بدولت ہے اگر کائنات سے اس کا وجود ختم ہوگیا تو دنیا ختم ہو جائے گی۔
اس نے جواب میں دلیل دی۔

محبت بس کتابوں میں ہوتی ہے لڑکی اس کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں۔
اس نے چلتے ہوئے سگریٹ کو مسلا اور نیا سگریٹ نکال کر سلگانے لگا۔

محبت پر ایمان لا کر تو دیکھو تمہیں ملال نہیں ہوگا۔
اس کے جملے پر وہ سگریٹ سلگاتے ہوئے رکا مسکرایا اور پھر سگریٹ سلگانے لگا۔

آپ سگریٹ نہیں پییں گے۔
اس نے فوری اس کا ہاتھ پکڑ لیا نوجوان نے حیرت سے اس نادان لڑکی کی طرف دیکھا جو مسلسل اسے حیران کر رہی تھی۔

کیوں ؟
اس نے کندھے اچکاتے ہوئے سوال کیا۔

کیونکہ یہ انسان کو اندر سے جلا دیتی ہے اور میں اس قدر خوبصورت انسان کو جلتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی۔
ایک بار پھر اس کی آنکھیں اجنبی سے چار ہوئی تو اس نے فوری نظروں کا زاویہ بدل لیا۔

اس سے آپ کو کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے
اس نے لہجے میں تلخی سموتے ہوئے جواب دیا۔

فرق پڑتا ہے کیونکہ آپ میرے ہمسفر ہیں۔
اس کا لب و لہجہ اس کے اندر تک سنساہٹ پھیلا گیا تھا اس نے اس ساحری آنکھوں والی لڑکی سے بحث سے بچنے کےلیے سگریٹ پھینک دیا اور پھر چل پڑا۔

جو ڈبی جیب میں رکھی ہے وہ بھی دیں۔
اس نے ساتھ چلتے ہوئے اس کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا تو اس نے خاموشی سے پیک نکال کر اسے پکڑا دیا وہ فاتحانہ انداز میں مسکرائی اس سے لے کر دور پھینک دیا۔ اب اسے بھی جانے کیوں اس کا ساتھ بھلا لگنے لگا تھا اب اسے اس کی باتیں پہلے سے کم بری لگنے لگی تھی لیکن وہ خاموشی سے تیز تیز قدم اٹھاتا آگے بڑھتا جا رہا تھا اور وہ اس کے ساتھ قدم سے قدم ملاتی چلتی جا رہی تھی کچھ لمحوں کے توقف کے بعد اس سیاہ کوٹ والے کو اس کے قدموں کی چاپ سنائی دینا بند ہوگئی اور اس کی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرانا ختم ہوگئی تو اس نوجوان کا دل تیزی سے دھڑکا۔

کیا اس کی منزل آگئی ؟ کیا وہ چلی گئی ؟
اس نے تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے سوچا اور پھر کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالے پلٹ کر دیکھا واقعی وہ جا چکی تھی اس کا ساتھ یہی تک تھا اچانک سے اسے ادھورے پن کے احساس ہونے لگا کچھ دیر یونہی کھڑے رہنے کے بعد وہ سر جھٹک کر آگے بڑھنے لگا۔

کیا ہوا مجھے تلاش کر رہے تھے ؟
اچانک سے اس کی زندگی سے بھرپور آواز بالکل اس کے قریب سنائی دی تو اس نے خوشگوار حیرت سے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا اور ہلکا سا مسکرایا۔

میں تمہیں کیوں تلاش کروں گا ؟
وہ اس سے آگے نکلتے ہوئے اس کی طرف دیکھا بغیر گویا ہوا تاکہ اس کو دیکھ کر چہرے پر پھوٹنے والی خوشی کو اس سے چھپا سکے۔

آپ کی آنکھیں بتا رہی ہیں۔
وہ ہلکا سا مسکرائی۔

اچھا آنکھیں کیا بتا رہیں ہیں آپ کو ؟
اس نے دلچسپی سے سوال کیا۔

یہی کہ ہم آپ کو اچھے لگتے ہیں ہمارا ہونا آپ کی کمیوں کو پورا کرتا ہے آپ کا ادھورا پن ہماری موجودگی سے ختم ہو سکتا ہے۔
اس کی طرف دیکھتے ہوئے بڑے اعتماد سے گویا ہوئی اور وہ حیرت سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا وہ کھل کر اعتراف کرنا چاہتا تھا کہ ہاں تمہاری موجودگی میری محرومیوں کو ختم کرتی ہے لیکن وہ بس اس کی آنکھ میں جھانکتے ہوئے سارے الفاظ بھول گیا تھا آخر کار وہ اس کی ساحری آنکھوں کا شکار ہوگیا تھا وہ بھول گیا تھا کہ وہ ایک لاوارث مسافر ہے جس کی کوئی منزل نہیں جس کا کوئی انتظار نہیں کر رہا وہ اپنے سارے حق اس کے سامنے ہار گیا تھا اس کی مسکراہٹ نے اعتراف کر لیا تھا کہ وہ اس کی محبت پر ایمان لے آیا ہے اب ان کا سفر خوشگوار ہوگیا تھا کیونکہ اب اس سفر میں محبت بھی ان کے ہمراہ تھی اور جہاں محبت ڈیرہ جما لیتی ہے وہاں پھیکے پن کی جگہ رنگینیاں لے لیتی ہیں۔ اب وہ جاسوس کی مانند کھڑوس سا دکھنے والا اور لمبا سیاہ کوٹ پہننے والا شخص مکمل طور پر بدل گیا تھا اب وہ سیاہ لمبا کوٹ اور ہیٹ نہیں بلکہ اس کی پسند کی بلیو جیز اور وائٹ شرٹ پہننے لگا کیونکہ محبت نے اس کی زندگی کی تمام سیاہیوں کو یکسر ختم کر دیا تھا۔

اب بتاو محبت کے اس سفر میں میرے ساتھ چلو گے ؟
وہ مسکراتی ہوئی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گویا ہوئی۔

ہمیشہ۔
وہ پورے وثوق سے گویا ہوا۔

لیکن تم تو ایک نامعلوم منزل کے مسافر ہو جس کی کوئی منزل نہیں۔
وہ ایک ادا سے مسکراتی گویا ہوئی۔

لیکن اب اس مسافر کو تمہاری آنکھوں کے دریچوں میں ٹھکانہ مل گیا ہے اب اسے اپنی منزل مل گئی ہے۔
وہ مسکراتے ہوئے گویا۔

اسی طرح مسکراتے رہا کرو کیونکہ اگر ہم مسکرانا بھول جائیں تو زندگی تاریک ہو جاتی ہے جس طرح خوشیاں وقت ہوتی ہیں اسی طرح غم بھی وقتی ہوتے ہیں وقت گزر جاتا ہے لیکن ایک چیز ہمیشہ قائم رہنی چاہیے اور وہ ہے ہماری مسکراہٹ۔
وہ اس کی میٹھی سی مسکان چہرے پر سجائے گویا ہوئی تو طمانیت کا احساس اس کے اندر تک اتر گیا تھا وہ اس کے جملے میں چھپے مفہوم کو شاید سمجھ نہ سکا جانے کتنی دیر وہ وعدوں سے محبت کو مضبوط بناتے ہوئے آگے ہی آگے بڑھتے جا رہے تھے کہ اچانک حالات کا رخ بدل گیا وہ ہوگیا جو اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا۔

اچھا اب میں چلتی ہوں اپنا خیال رکھنا۔
اس نے سنجیدگی نوجوان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تو اس نے حیرت بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔

تم کہاں چلی ہماری منزل تو اب ایک ہی ہے۔
اس کو اپنا دل بیٹھتا ہوا محسوس ہوا۔

ارے بھئی میری منزل آگئی ہے۔
اس نے مسکراتے ہوئے کہا تو اس پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا ایک آواز ان کی سماعتوں سے ٹکرائی۔

ثنا
ان دونوں نے بیک وقت پلٹ کر دیکھا تو تقریبا اسی کا ہم عمر ایک خوش شکل نوجوان ہاتھ ہلاتا ہوا اسی طرح آ رہا تھا اس کو دیکھتے ہی ثنا کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔

بلاول تم آگئے میں تمہارا ہی انتظار کر رہی تھی۔
وہ اس کو دیکھتے ہی گویا ہوئی وہ بت بنا کھڑا ان دونوں کو دیکھ رہا تھا۔

اگر یہ اس کا انتظار کر رہی تھی تو پھر یہ میرے ساتھ کیوں تھی ؟ میری ہمسفر ہونے کا دعوی کیوں کیا ؟
کئی سوال اس کے ذہن میں گھوم رہے تھے۔

یہ کون ہے ؟
بلاول نے ثنا کی طرف دیکھتے ہوئے دریافت کیا۔

میں ایک مسافر ہوں جس کی کوئی منزل نہیں ہے۔
اس نوجوان نے مسکراتے ہوئے ہاتھ اس کی طرف بڑھایا جسے اس نے ثنا کی طرف دیکھتے ہوئے تھام لیا۔

تمہارے ساتھ سفر اچھا گزرا اور تم نے میرا بہت خیال رکھا تم ایک اچھے ہمسفر ہو لیکن ہمارا ساتھ یہی تک تھا اپنا خیال رکھنا۔
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتی نرمی سے مسکرائی اور پلٹ کر بلاول کا ہاتھ پکڑتے ہوئے تیزی سے آگے بڑھ گئی اسے ایک بہتر ہمسفر مل گیا تھا لیکن ایک بار پھر وہ وہی کھڑا تھا جہاں اسے اپنی منزل کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا لیکن اب اس کے پاس پہلے والا اطمنان اور سکون نہیں تھا طبیعت میں وہ لاپرواہی نہیں رہی تھی وہ سفر کرتے ہوئے محبت کا شکار ہوگیا تھا جس نے ایک بار پھر اسے اسی چوراہے پر لا کھڑا کیا تھا جہاں سے اس نے یہ سفر شروع کیا تھا بلیو جینز اور سفید شرٹ سے اسے الجھن ہونے لگی تھی اس نے گھبر کر شرٹ کے بٹن کھول دئیے۔ جب زندگی میں سیاہی پھیل جائے تو پھر سفید رنگ بھلا نہیں لگتا کائنات کے سارے رنگ ایک دم سے پھیکے پڑ گئے اسے اپنا سر گھومتا ہوا محسوس ہو رہا تھا یا پھر پوری کائنات ہی گھومنے تھی وہ دونوں ہاتھوں سے سر تھامے زمین پر بیٹھتا چلا گیا فضا میں گھٹن سی محسوس ہونے لگی اسے سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی۔

ہمسفر، محبت، ملال۔
وہ دونوں ہاتھوں سے سر تھام منہ ہی منہ میں بڑبڑایا اب پتہ نہیں یہ ہمسفر سے بچھڑنے کا ملال تھا یا محبت پر ایمان لانے کا وہ اگلی سانس نہ لے سکا۔

ختم شد۔
______________________________________________
امید ہے میری اس مختصر تحریر کے اندر چھپا ہوا پیغام زیادہ تر لوگوں سمجھ نہیں آیا ہوگا لیکن میں پورے وثوق سے کہتے ہوں جن لوگوں نے اس پیغام کو سمجھ لیا وہ میری اس تخلیق کی تائید کریں گے کیونکہ یہ مختصر کہانی کئی زندگیوں کی کہانی ہے کئی موقع پرستوں اور کئی معصوموں کی کہانی ہے اس کو سمجھنے کےلیے آپ کو تحریر کو مکمل توجہ سے پڑھنا ہوگا

Muhammad Waseem Baloch
About the Author: Muhammad Waseem Baloch Read More Articles by Muhammad Waseem Baloch: 7 Articles with 4614 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.