بالی وڈ اور انڈین انتخابات: ’حقیقت اور فسانے کا ملاپ‘

اس نئے رجحان نے بالی وڈ کے مستقبل کے بارے میں بھی خدشات کو جنم دیا ہے کیونکہ یہ انڈیا کے چند ثقافتی مقامات میں سے ایک ہے جس کی اپیل مذہبی اور سیاسی تقسیم کو ختم کرتی ہے، اور اسے میل جول پیدا کرنے والی ایک منفرد قوت بناتی ہے۔
بالی وڈ
BBC
حالیہ تین فلمیں 'دی کیرالہ سٹوری'، 'ویر ساورکر' اور 'آرٹیکل 370' انتہائی جلتے ہوئے موضوعات پر مبنی ہیں

’پورا کشمیر انڈیا کا حصہ تھا، ہے اور رہے گا۔‘

بالی وڈ اداکار کرن کرمارکر نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی خودمختاری کو منسوخ کرنے کے حکومت کے سنہ 2019 کے فیصلے پر مبنی ایک حالیہ ہٹ فلم میں مذکورہ بات کہی ہے۔

کرمارکر کلف لگے سفید کرتے پاجامے میں ملبوس ایک تنو مند آدمی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ وہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی انڈین آئین کی شق ’آرٹیکل 370‘ نامی فلم میں انڈین وزیر داخلہ امیت شاہ کا پرتو نظر آتے ہیں۔

واضح رہے کہ امت شاہ نے سنہ 2019 میں اس ہمالیائی خطے کی اس خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا تھا۔ اس خطے پر تقسیم ہند کے بعد سے ہی انڈیا اور پاکستان دونوں اپنا دعویٰ کر رہے ہیں۔

یہ منظر پارلیمنٹ میں امیت شاہ کی تقریر کی ایک حقیقی تصویر سے ماخوذ ہے جب ان کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت نے اس خصوصی حیثیت دینے والے قانون کو ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

جب رواں سال فروری میں ’آرٹیکل 370‘ نامی فلم ریلیز ہوئی تو کچھ ناقدین نے اسے ’واضح‘ پروپیگنڈہ قرار دیا کیونکہ ان کے مطابق اس میں حکومت کے ’بہت سے قابل اعتراض اقدامات‘ کو جائز قرار دیا گيا ہے۔

لیکن اس فلم کی وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ سمیت بی جے پی کے اعلیٰ رہنماؤں نے توثیق و پزیرائی کی۔

تقریباً 20 کروڑ روپے کے بجٹ میں بنائی گئی فلم نے بالآخر دنیا بھر میں ایک ارب روپے سے زیادہ کا بزنس کیا۔

وزیراعظم مودی کے پہلی بار سنہ 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے ہندی فلم انڈسٹری نے حکومت کی پالیسیوں کی توثیق کرتے ہوئے کئی فلمیں پیش کی ہیں۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ پچھلے چار سالوں میں بہت سے لوگوں نے واضح طور پر پروپیگنڈا کیا ہے۔ سنہ 2019 میں جب پارلیمانی انتخابات بالکل نزدیک تھے تو وزیراعظم مودی کی ایک بائیوپک ریلیز ہوئی تھی۔

پانچ سال بعد جب ملک پھر سے ایک اور انتخابات کی دہلیز پر ہے بی جے پی کے ہندو قوم پرست نظریے پر مرکوز کئی فلمیں یا تو ریلیز کی گئی ہیں یا پھر ریلیز ہونے والی ہیں۔

ان میں سے دو فلمیں ’ایکسیڈنٹ اور کنسپیریسی: گودھرا‘ اور ’دی سابرمتی رپورٹ‘ سنہ 2002 میں گجرات میں پھوٹنے والے مسلم کش فسادات پر مبنی ہیں۔

اس کے علاوہ ایک فلم ’ویر ساورکر‘ پر مبنی ہے جو 20 ویں صدی کے متنازع ہندو قوم پرست رہنما کی وراثت کا جشن منانے والی بائیوپک ہے۔ اس میں ایک مکالمہ جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اگر آزادی کے رہنما مہاتما گاندھی نہ ہوتے تو ہندوستان بہت پہلے برطانوی راج سے آزاد ہو چکا ہوتا۔

فلمی ناقدین کا کہنا ہے کہ جس تعداد میں اس طرح کی فلمیں ریلیز ہو رہی ہیں وہ اس بات کا مضبوط اشارہ ہے کہ وہ حکمران جماعت کے نظریے سے واضح طور پر ہم آہنگ ہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ یہ سب باکس آفس پر کامیاب نہیں ہوئی ہیں لیکن اہم واقعات کے گرڈ سراسر من گھڑت کہانیاں عوام کے تاثر کو بنانے میں اپنا کردار ضرور ادا کرتی ہیں۔

سکرول ڈاٹ ان کے لیے لکھنے والی فلم نقاد نندنی رام ناتھ کا کہنا ہے کہ ’سینما کو نظریات کے لیے جس پیمانے پر ہتھیار بنایا گیا ہے وہ اس سے پہلے نہیں دیکھا گیا تھا۔ یہ فلمیں اس بات کو چیلنج کرنا چاہتی ہیں جو ہم تاریخی شخصیات یا اہم تاریخی واقعات کے بارے میں جانتے ہیں۔ یہ ایک نئی متبادل تاریخ بنانے کے لیے منظر عام پر آئیں ہیں۔‘

اس نئے رجحان نے بالی وڈ کے مستقبل کے بارے میں بھی خدشات کو جنم دیا ہے کیونکہ یہ انڈیا کے چند ثقافتی مقامات میں سے ایک ہے جس کی اپیل مذہبی اور سیاسی تقسیم کو ختم کرتی ہے، اور اسے میل جول پیدا کرنے والی ایک منفرد قوت بناتی ہے۔

لیکن ان فلموں کو بنانے والے فلمساز اس دعوے کو مسترد کرتے ہیں۔ دی کیرالہ سٹوری کے ڈائریکٹر سدیپٹو سین کہتے ہیں: ’میری فلمیں سیاسی نہیں ہیں، وہ انسانی دلچسپی کی ہیں۔ سنہ 2023 میں ریلیز ہونے والی اس فلم میں ہندو اور مسیحی خواتین کی ’حقیقی کہانی‘ بیان کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے کہ انھیں کس طرح بہلا پھسلا کر اسلام قبول کرایا جاتا ہے اور انھیں دولت اسلامیہ (آئی ایس) گروپ میں شامل کیا جاتا ہے، یعنی جہادی بنایا جاتا ہے۔

سودپتو سین
Getty Images
سودپتو سین نے اپنی فلم کا بچاؤ کیا ہے

سین کا کہنا ہے کہ ان کے خیالات کسی سیاسی جماعت کی عکاسی نہیں کرتے اور وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی فلم نے جو ’سچائی دکھائی‘ ہے اس بات نے بہت سے لوگوں کو ناراض کیا ہے۔ لیکن جب فلم ریلیز ہوئی تو سپریم کورٹ نے فلم بنانے والوں کو یہ حکم دیا کہ وہ اس کے ساتھ ایک اعلانیہ شامل کریں کہ یہ ایک فرضی کہانی ہے اور اس کے پاس 32,000 خواتین کی تبدیلی مذہب کے دعوے کی حمایت کرنے کے لیے ’مستند ڈیٹا‘ نہیں ہیں۔

بلاشبہ ایسا پلی بار نہیں ہے جب بالی وڈ نے قوم پرستی کا سہارا لیا ہو اور اسے اس کے خواہشمند سامعین کو بیچا ہو۔ اس صنعت میں حب الوطنی کے جذبے سرشار اور بعض اوقات جارحانہ وطن پرستی ملتی ہے۔ یہ فلمیں ان ہیروز کی کہانیوں کو ڈرامائی انداز میں پیش کرتی ہیں جو شرپسند دہشت گردوں اور بدعنوان سیاست دانوں سے لے کر ظالم استعماریوں جیسے مختلف النوع قسم کے ولن سے لڑتے ہیں۔

انڈین شہری فوجی فتوحات پر مبنی انتہائی ڈرامائي فلمیں دیکھنا بھی پسند کرتے ہیں جن میں سے اکثر میں پاکستان کو ’دشمن‘ کے طور پر دکھایا گیا ہے لیکن یہ حقیقت سے دور ہوتی ہیں۔

دلی یونیورسٹی میں تاریخ پڑھانے والی روچیکا شرما کہتی ہیں: ’بالی وڈ میں ہمیشہ حقائق درست نہیں ہوتے، در حقیقت کبھی بھی درست نہیں ہوتے۔ انڈسٹری نے ہمیشہ ایک ہر طرح سے درست لیجنڈ تیار کرنے کے لیے کہانی میں بہت ساری آزادی لے رکھی ہے۔‘

لیکن وہ مزید کہتی ہیں کہ فلم ساز اب تاریخ کے اپنے متوازی ورژن لے کر آ رہے ہیں جن کی بنیاد حقائق میں نہیں ہیں اور یہ ’تاریخی صنف کو تباہ کرنے‘ کے مترادف ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’بائنریز (دو رخی تقسیم) کی جان بوجھ کر پیدا کی جا رہی ہے اور اس کی عکاسی خطرناک حد تک فرقہ وارانہ ہو گئی ہے۔‘

وہ خاص طور پر 12ویں صدی کے ایک ہندو بادشاہ کے بارے میں سنہ 2022 میں بننے والی فلم ’سمراٹ پرتھوی راج‘ کی تنقید کرتی ہیں جو کہ افغانستان کے ایک علاقے کے حکمران محمد غوری کے خلاف ایک جنگ میں مارا گیا تھا۔

مز شرما کہتی ہیں کہ فلم میں انھیں بار بار ایک مسلم حملہ آور کے طور پر پیش کیا جانا ’مضحکہ خیز اور مکمل طور پر غیر تاریخی‘ ہے کیونکہ سنسکرت کے ابتدائی متن میں اسے ’سخت ذات پرست‘ کے طور پر بیان کیا گیا ہے نہ کہ مذہب پرست کے طور پر۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ ’ہندوستان کی تاریخ کی ہر صدی ہمیں گیم آف تھرونز جیسا رزمیہ دینے کے قابل ہے۔ پھر بھی ہم اس ہندو مسلم تقسیم میں پھنسے رہنا چاہتے ہیں۔‘

فلم ’پرتھوی راج‘ نے اچھی کمائی نہیں کی لیکن باکس آفس کے ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ مذہبی طور پر پولرائز والے موضوعات پر بنی فلمیں اکثر کامیاب ہوتی ہیں۔

فلم انڈسٹری کے رجحانات پر گہری نظر رکھنے والے اورمیکس میڈیا کے سربراہ شیلیش کپور کہتے ہیں: ’مذہب کی سیاست سنیما میں وسیع پیمانے پر سیاست کی سب سے طاقتور شکل بن گئی ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اس کا عروج اس وقت آیا جب ’دی کشمیر فائلز‘ اور ’دی کیرالہ سٹوری‘ جیسی چھوٹے بجٹ کی فلموں نے تمام توقعات کو پیچھے چھوڑ دیا اور بڑی کامیاب فلمیں ثابت ہوئيں۔

کشمیر فائلز میں سنہ 1990 کی دہائی میں خطے میں مسلح شورش کے دوران کشمیری ہندوؤں کی نقل مکانی کی ’حقیقی کہانی‘ سنانے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔

’آرٹیکل 370‘ کی طرح فلم کو وزرا کے ذریعہ سراہا گیا اور کچھ بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں اسے ٹیکس فری قرار دیا گیا یہاں تک کہ ناقدین نے کہا کہ اس نے متعصبانہ نظریہ کو آگے بڑھانے کے لیے سیاسی حقائق کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔ انھوں نے نشاندہی کی کہ حکومتی اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ عسکریت پسندوں نے تقریباً 200 ہندو پنڈتوں کو قتل کیا لیکن فلم میں یہ تعداد 4000 بتائی گئی ہے۔

تنازعات کے باوجود مسٹر کپور کا کہنا ہے کہ یہ فلمیں بہت سارے نئے ناظرین کو سینما گھروں تک لانے میں کامیاب ہوئیں۔ ’یہ اضافی سامعین کی بنیاد ان فلموں کے باکس آفس کی صلاحیت میں وسعت پیدا کرتی ہے۔‘

دی کشمیر فائلز
Getty Images
دی کشمیر فائلز میں ہندو پنڈتوں پر ظلم دکھایا گيا ہے

ناقدین کا کہنا ہے کہ اس کے برعکس ایسی فلموں کی تعداد کم ہو رہی ہے جو اقتدار پر سوال اٹھاتی ہیں۔ سماجی تبصرے والی فلموں کے لیے مشہور ہدایت کار دیباکر بنرجی نے رواں سال کے شروع میں ڈیڈ لائن کو بتایا کہ نیٹ فلکس نے ان کی فلم تیس کو ریلیز کرنے کے اپنے منصوبے کو یہ کہتے ہوئے ترک کر دیا ہے کہ اسی طرح کی ایمیزون سیریز ’تانڈو‘کے خلاف ردعمل آیا تھا اور اس کے ساتھ بھی ایسا ہو سکتا ہے۔ واضح رہے کہ بی جے پی نے تانڈو پر ’جان بوجھ کر ہندو دیوتاؤں کا مذاق اڑانے‘ کا الزام لگایا تھا۔

نیٹ فلکس نے تیس کے بارے میں ہمارے سوال کا جواب نہیں دیا لیکن بی بی سی کو ایک بیان میں کہا کہ ’ہمارے پاس انڈین فلموں اور ٹی وی شوز کی ناقابل یقین حد تک وسیع رینج ہے، یہ سبھی تخلیقی اظہار کے لیے ہماری دیرینہ حمایت کی عکاس ہیں۔‘

مز رام ناتھ کہتی ہیں کہ سنیما کےکچھ نئے موضوعات کام کرتے ہیں کیونکہ یہ ’بے چین کرنے والی کچھ حقیقتوں‘ سے پردہ اٹھانے کا دعویٰ کرتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’سنسنی خیز فلموں کی طرح تیار کی گئی یہ فلمیں مبینہ تاریخی غلطیوں کو بے نقاب کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں جنھیں سیکولر فلم سازوں نے نظر انداز کیا ہے۔‘

لیکن دوسرے اتنے معمولی درجے کے ہیں کہ وہ محض اپنے سیاسی جھکاؤ کی بنیاد پر کام کر سکتے ہیں۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ ’اس طرح کی فلموں کو کامیاب ہونے کے لیے کچھ عناصر کی ضرورت ہوتی ہے، جیسے سازش، جوش اور پروڈکشن کی چالاکی۔‘

مسٹر کپور اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہابھی تو فلم ساز مقبول سیاسی جذبات کا فائدہ اٹھا رہے ہیں لیکن اس کی بھی ایک حد ہوتی ہے کہ یہ فارمولا کتنا کام کر سکتا ہے۔

جبکہ دوسرے ناقدین اس قسم کے رجحانات کے پائیدار اثرات کے بارے میں فکر مند ہیں۔

مز شرما کہتی ہیں: ’چاہے آپ کتنا بھی کہیں کہ ’یہ صرف ایک فلم ہے‘ اس کا اثر لوگوں کی سوچ پر پڑتا ہے۔ اور یہی سنیما کی طاقت ہے۔ اور اگر ایک شخص بھی فلم میں جو کچھ کہ دکھایا گيا ہے اسے کسی نہ کسی سطح پر سچ مانتا ہے تو یہ تشویشناک ہے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.