تنازعات میں گِھرا مقدس شہر ایودھیا جو ’ہندو ویٹیکن‘ بننے جا رہا ہے: ’ہندو بیدار ہو گئے ہیں، آزادی کا احساس اب واضح ہو رہا ہے‘

اگلے ہفتے وزیر اعظم نریندر مودی انڈیا کے سب سے متنازع مذہبی مقامات میں سے ایک پر 16 ویں صدی میں تعمیر کردہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی عمارت کا افتتاح کر کے دہائیوں پر محیط ہندو قوم پرستی کے وعدے کو پورا کریں گے۔ اربوں ڈالر کی لاگت سے بننے والے اس مقام کو ہندو قوم پرست رہنماؤں کی جانب سے ’ہندو ویٹیکن‘ کہا جا رہا ہے کہ جس کی تعمیر کے لیے اس شہر کے بڑے حصوں کو منہدم کیا گیا ہے۔
ایودھیا
AFP

اعصاب کو جما دینے والی ایک سرد صبح یوگیندر گرو اُس عارضی مندر کا دورہ کرنے کے بعد شہر کے ہجوم میں کھو گئے جہاں ہندوؤں کا ماننا ہے کہ بھگوان رام کی پیدائش ہوئی تھی۔

انڈیا کے شمالی شہر ایودھیا میں آج کل دکھائی دینے والا تعمیراتی کام اِس جگہ کے تاریخی پس منظر کے بارے میں بتاتا ہے۔ اس تعمیراتی کام میں یاتریوں کے استقبال کے لیے ایک وسیع سینٹر، محراب اور ریتیلے پتھروں سے بنائے گئے دروازے شامل ہیں جو یہاں آنے والوں کو ایک وسیع راہداری کے ذریعے مرکزی مقام تک لے جاتے ہیں۔

بھگوان رام کی پیدائش سے منسوب اس مندر کی تعمیر پر 217 ملین ڈالر کی لاگت آئی ہے اور ابھی تعمیرات کا کام جاری ہے۔ اربوں ڈالر کی لاگت سے بننے والے اس مقام کو ہندو قوم پرست رہنماؤں کی جانب سے ’ہندو ویٹیکن‘ کہا جا رہا ہے کہ جس کی تعمیر کے لیے اس شہر کے بڑے حصوں کو منہدم کیا گیا ہے۔

انڈیا کی وسطی ریاست مدھیہ پردیش میں واقع اپنے گاؤں سے یہاں تک پہنچنے کے لیے یوگیندر گرو نے 14 گھنٹوں کا تھکا دینے والا بس کا سفر کیا تھا۔ اور وہ اکیلے نہیں تھے، ان کے ہمراہ ان کے خاندان کے دو درجن سے زائد افراد بھی یہاں آئے تھے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مجھے خوشی ہے کہ آخر کار ہمیں ایک نیا مندر مل رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہندو بیدار ہو گئے ہیں، آزادی کا احساس اب مزید واضح ہونے لگا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ پہلے ہمیں دبایا گیا تھا۔‘

یاد رہے کہ کہ اگلے ہفتے وزیر اعظم نریندر مودی انڈیا کے سب سے متنازع مذہبی مقامات میں سے ایک پر 16 ویں صدی کی مسجد (بابری مسجد) کی جگہ مندر کا افتتاح کر کے دہائیوں پر محیط ہندو قوم پرستی کے وعدے کو پورا کریں گے۔ سنہ 1992 میں ہندو ہجوم نے بابری مسجد کو یہ کہتے ہوئے منہدم کر دیا تھا کہ اسے مسلم حملہ آوروں نے رام مندر کے کھنڈرات پر تعمیر کیا تھا۔ بابری مسجد کے انہدام کے بعد انڈیا میں شروع ہونے والے ہندو مسلم فسادات میں لگ بھگ 2000 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان اس جگہ کی ملکیت کا خونی تنازع سنہ 2019 میں اُس وقت ختم ہوا جب انڈیا کی سپریم کورٹ نے اس جگہ کی ملکیت کا فیصلہ ہندوؤں کے حق میں کیا، تاہم فیصلے میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ مسجد کا انہدام قانون کی سخت خلاف ورزی تھا۔ فیصلے میں مسلمانوں کو نئی مسجد تعمیر کرنے کی غرض سے متبادل جگہ بھی فراہم کی گئی تھی۔

انڈیا میں آئندہ عام انتخابات رواں برس اپریل میں ہوں گے۔ اور ان انتخابات سے چند ماہ قبل نریندر مودی ایودھیا میں مندر (رام مندر) کا افتتاح کریں گے۔ مندر کی افتتاحی تقریب 22 جنوری کو ہو گی۔

سینیئر انڈین وزیر راج ناتھ سنگھ کا ماننا ہے کہ مندر انڈیا کے ثقافتی احیا اور قومی وقار کو بحال کرنے کا آغاز ثابت ہو گا۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ رام مندر کے افتتاح کے وقت کا تعین مذہبی اہمیت کی بجائے سیاسی حکمت عملی کی بنیاد پر زیادہ کیا گیا ہے کیونکہ اس تقریب سے انتخابات سے عین قبل ہندو قوم پرستی کے جذبات کو تحریک ملے گی۔ ناقدین کا یہ استدلال بھی ہے کہ آخرکار یہی وہ مندر ہے جس کی تعمیر کی تحریک انڈیا کی سیاست میں بی جے پی کو ایک نمایاں مقام تک پہنچانے میں ایک اہم عنصر تھی۔

یہاں قائم عارضی رام مندر کے 86 سالہ پجاری ستیندر داس کہتے ہیں کہ ’خیمے (عارضی مندر) میں زندگی گزارنے کے بعد بھگوان رام کو اب ایک مستقل ٹھکانہ مل گیا ہے۔ یہ ہم سبھی کے لیے صبر آزما وقت ضرور تھا مگر اُس کے بعد راحت اور سکون ملنے جا رہا ہے۔‘

نئے مندر کی تعمیر انتہائی دلفریب اور شاندار ہے۔ 70 ایکڑ کے رام مندر کمپلیکس میں مندر کا مرکزی حصہ 7.2 ایکٹر پر محیط ہے۔یہ تین منزلہ مندر گلابی ریت کے پتھروں سے تعمیر کردہ ہے جس میں سیاہ گرینائٹ کے استعمال نے اسے چار چاند لگا دیے ہیں۔ اس نئی عمارت میں بلند و بالا ستون ہیں اور یہاں 70,000 مربع فٹ سفید قیمتی سنگ مرمر بھی استعمال ہوا ہے۔ سنگ مرمر سے بنے ایک چبوترے کی چوٹی پر رام کی 51 انچ (4.25 فٹ) کی مورتی رکھی جائے گی۔

ابھی 22 جنوری کو وزیرِ اعظم مودی صرف اس مندر کے گراؤنڈ فلور کا افتتاح کریں گے اور توقع ہے اس سال کے آخر تک یہ مندر روزانہ ڈیڑھ لاکھ زائرین کو اپنی جانب مدعو کرے گا۔

یہ سب کچھ کرنے کے لیے مودی حکومت گنگا کی معاون ندی سریو کے کنارے واقع ایک پُرسکونشہر ایودھیا کو ’عالمی معیار کا شہر‘ بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے جہاں مذہبی سیاحت کو فروغ دیا جائے گا۔

مودی حکومت کے اعلان کے مطابق اس شہر کو عالمی معیار کا شہر بنانے کے لیے 3.85 ارب ڈالر خرچ کیے جائیں گے۔ شہر میں اس تبدیلی اور توسیع کے منصوبے میں سڑکیں، ایک چمکتا دمکتا نیا ہوائی اڈہ، ایک بڑا ریلوے سٹیشن اور ایک کثیر المنزلہ کار پارکنگ شامل ہیں۔

مندر کی طرف جانے والے 13 کلومیٹر (8 میل) رام پاتھ سمیت چار اہم سڑکوں کو کشادہ کرنے کے لیے 3000 سے زیادہ گھروں، دکانوں اور ’مذہبی حیثیت رکھنے والے مقامات‘ کو یا تو مکمل یا جزوی طور پر مسمار کر دیا گیا ہے۔

اب اس علاقے میں ہلکا پیلا رنگ تمام عمارتوں کو ایک جیسا روپ دے گا۔ ریڈیسن اور تاج ہوٹل جیسے بڑے تجارتی ادارے ایودھیا میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کی کوشش میں مگن ہیں اور ان کے ہوٹلوں کی نئی عمارتیں تعمیر ہو رہی ہیں۔

اس کے علاوہ 50 نئے ہوٹلوں اور ہوم سٹے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے، جبکہ بہت سارے گیسٹ ہاؤسز کی تزین و آرائش کی جا رہی ہے یعنی اُن کو بھی اپنے معیار کو بلند کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ اور حیرت کی بات بالکل نہیں کہ ایودھیا میں زمین کی قیمتیں پہلے ہی تین گنا بڑھ چکی ہیں۔

’ایودھیا: سٹی آف فیتھ، سٹی آف ڈسکارڈز‘ کے مصنف ولاے سنگھ کہتے ہیں کہ ’آپ اس جگہ کو پہچان نہیں سکتے، اب یہ شہر، یہ مقام، یہ گلیاں، اور یہ سڑکیں سب بہت بدل چکا ہے۔‘

نئے مندر کے ارد گرد اضافی پرکشش مقامات کی تعمیر کا بھی منصوبہ ہے، جس میں رام کی زندگی کی عکاسی کرنے والے 162 ایسے فن پارے نصب کرنا بھی شامل ہیں جو ان کی زندگی کا احاطہ کرتے ہیں۔ ایودھیا کے سینیئر منتظم گورو دیال کہتے ہیں کہ ’ہم ایودھیا کو دنیا کا سب سے خوبصورت شہر بنانا چاہتے ہیں۔‘

ایودھیا میں زندگی کے ہر پہلو میں عقیدے اور مذہب کا غلبہ ہے۔ یہاں مندر ایک بے ترتیب آسمان میں نمایاں نظر آتے ہیں جبکہ ہندو سادھو سڑکوں پر چلتے پھرتے ہیں۔ دنیا بھر سے ہزاروں زائرین سال میں کم از کم دو بار اس شہر میں اکھٹے ہوتے ہیں۔ ہر جگہ موجود بندروں کو اب بھی کھلی چھوٹ حاصل ہے۔ بازاروں میں مذہبی علامتیں اور چیزیں فروخت کرنے والوں کی بھرمار ہے۔ پھول، چندن، عقیدت کی کتابیں، دیوتاؤں کے اوتار اور مورتیاں۔

ولاے سنگھ نے اسے ’یاتریوں پر منحصر معیشت‘ کے طور پر بیان کیا ہے۔ شمال مشرقی انڈیا کے شہر شیلانگ سے تعلق رکھنے والی لائف سائنسز کی طالبہ دیشا چکرورتی نے شہر کے اپنے پہلے دورے پر بی بی سی سے بات کی اور کہا کہ ’ آئیے ایمانداری سے بات کریں، یہ جگہ خستہ حال ہے۔ لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہاں کے لوگ عقیدت مند ہیں۔ (یہاں موجود) بہت سے لوگوں نے ایک بت پر اپنا اجتماعی ایمان برقرار رکھا ہے۔‘

چھوٹے بڑے سینکڑوں مندروں اور 45 کے لگ بھگ مساجد والے اس شہر میں اب تبدیلی کی ہوا چل رہی ہے، پرانے نظر آنے والے مندر اب نیا روپ دھار رہے ہیں۔ رات ہوتے ہی لیزر کی مدد سے آسمان پر روشنیاں بکھیری جاتی ہیں۔ یہ جگہ یوٹیوبرز اور انسٹاگرام ریل بنانے والوں سے بھری ہوئی ہے جن میں سے ہر ایک اس جگہ کو ’ٹرینڈ‘ بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔

نئے رام مندر کے افتتاح کے بعد عقیدے، روایات اور تجسس کو اپنے دامن میں بھرے عقیدت مند اور سیاحوں کے ایودھیا پہنچنے کی توقع ہے۔ مگر آج اس شہر کے امن میں بھی عدم اطمینان کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ زائرین کے لیے سڑک کو کشادہ کرنے کے منصوبے کے تحت سینکڑوں گھروں اور دکانوں کو گرایا گیا ہے۔

مقامی دکانداروں کی ایک ایسوسی ایشن کے سربراہ آنند کمار گپتا نے کہا کہ انہدام کی ان ’کارروائیوں کے دوران تقریباً 1600 افراد بے گھر ہو چکے‘ ہیں اور ان کے پاس اب رہنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ان کی دکانوں کو پہنچنے والے نقصان کی مد فی دکان اوسطاً ایک لاکھ روپے ادا کیے گئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’شہر میں ہونے والی اس توڑ پھور نے ہمیں پریشان کر دیا ہے۔‘

یاتریوں کے راستے کو وسیع کیے جانے پر شہر کے تقریبا تین درجن گھروں کو جزوی طور پر مسمار کر دیا گیا ہے۔ گلیاں لیکیج اور سیوریج کے پائپ ٹوٹ جانے کی وجہ سے پانی سے بھری ہوئی ہیں۔ بانس کے لڑکھڑاتے ہوئے پل کیچڑ سے بھری کھائیوں پر غیر یقینی طور پر پھیلے ہوئے ہیں جو دروازوں کے باہر زمین کو داغدار کرتے ہیں۔ مکمل طور پر تباہ شدہ گھروں کے مالکان کو کچھ فاصلے پر متبادل پلاٹ دیے گئے ہیں۔

مقامی رہائشی وشال پانڈے نے کہا کہ ان کے آبائی چھ کمروں کے گھر کا آدھا حصہ سڑک کو چوڑا کرنے کے لیے مسمار کر دیا گیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ متاثرہ حصے کے لیے تقریبا سات لاکھ روپے کے معاوضے کے باوجود، ان کے آٹھ پُشتوں سے چلی آنے والی رہائش گاہ کو پہنچنے والا نقصان ناقابل تلافی ہے۔

وشال پانڈے نے بتایا کہ ’مقامی لوگوں میں غصہ پایا جاتا ہے۔‘ تاہم اُن کا کہنا تھا کہ ’ہم اس بات سے بھی خوش ہیں کہ رام کو آخر کار ایک مستقل گھر مل رہا ہے۔ وہ اتنے لمبے عرصے تک خیمے میں رہے۔ اب ہماری باری ہے (تکلیف اٹھانے کی)۔‘

انھوں نے کہا کہ ’جہاں تباہی ہوتی ہے وہاں ترقی ہوتی ہے۔ دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔‘

کانتی دیوی، جنھوں نے ایودھیا میں جاری ترقیاتی کاموں کی وجہ سے اپنا آدھا گھر کھو دیا ہے، بہت پریشان ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ہم بالکل بھی خوش نہیں ہیں، یہاں تک کہ افسر بھی آتے ہیں اور ہمیں بتاتے ہیں کہ ہم آپ کو بہت تکلیف دے رہے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے کہ مندر بنا دیا گیا ہے، لیکن اس سے ہمیں کس طرح مدد ملے گی؟ ہم نے جو کچھ بھی تعمیر کیا، اس کو انھوں نے شہر میں مزید زائرین لانے کے لیے مسمار کر دیا ہے۔‘

حکام کا کہنا ہے کہ مسمار شدہ گھروں اور دکانوں کے رہائشیوں کو سرکاری سکیموں کے تحت رقم اور نئے مکانات کے لیے معاوضہ دیا گیا ہے۔ گورو دیال کہتے ہیں کہ ’تمام معاوضہ دے دیا گیا ہے۔ خاندانی تنازعات سے متعلق قانونی چارہ جوئی کی وجہ سے کچھ معاملات میں تاخیر ہوئی ہے، مگر اب کرنے کے لیے کچھ نہیں بچا ہے۔‘

ایودھیا میں باہر سے آنے والے لوگوں نے اس علاقے کی تقدیر بدل دی ہے جہاں ہندو اور مسلمان طویل عرصے سے مخلوط محلوں میں رہ رہے ہیں۔

ایک سماجی کارکُن خلیق احمد خان کا ماننا ہے کہ ’ایودھیا میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان گرمجوشی کے تعلقات ہیں، جن کی جڑیں صدیوں پرانے باہمی انحصار پر مبنی ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ ’رام کے تئیں ہندو عقیدت مسلمانوں کی حمایت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، خاص طور پر مندر کی معیشت میں، جہاں ان کی تجارت ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ دونوں برادریاں ناقابل تقسیم ہیں۔‘

ایک مقامی کالج کے پروفیسر رگھوونش منی نے بھی اسی طرح کے جذبات کا اظہار کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’فرقہ وارانہ فسادات باہر سے شروع ہوئے تھے۔ مقامی لوگوں کا اس میں کچھ لینا دینا زیادہ نہیں تھا۔‘

کچھ مقامی لوگوں کے بھی اسی طرح کے جذبات ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہنئے مندر کا مقصد ایودھیا کو دنیا کے لیے کھولنا ہے۔

وشال پانڈے کہتے ہیں کہ اب ایسا ہو پائے گا کہ نہیں یہ صرف آنے والا وقت ہی بتائے گا۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts