لوگوں کو میری معذوری میرے والدین کی کسی غلطی کا نتیجہ لگتی ہے، وہ جب اس طرح کے تبصرے کرتے ہیں تو بجائے افسردہ ہونے کے میں دل سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ انہیں ہدایت عطا کرے۔
یہ الفاظ اسلام آباد کے رہائشی 25 سالہ عمر جاوید کے ہیں، جن کا آبائی علاقہ مردان ہے۔
راولپنڈی کے ہولی فیملی ہسپتال میں جب پانچ مئی 1995 کو عمر جاوید اس دنیا میں آئے تو نرسوں نے ان کے والد جاوید اختر، جو کہ ایک سرکاری محکمے میں بطور ڈرائیور کام کرتے ہیں، کو خبر دی کہ ان کا بیٹا پیدا ہوا ہے لیکن ان کے دونوں ہاتھ نہیں ہیں تو ان کے والد کے منہ سے الفاظ نکلے کہ یہ میرا لخت جگر ہے۔
لیکن جب عمر کی والدہ نے انہیں پہلی بار گود میں لیا تو وہ زار و قطار رو پڑیں اور انہیں اپنے بچے کے مستقبل کی فکر لاحق ہوگئی۔
تاہم وہی عمر اس وقت علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے بی اے کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور کسی کی محتاجی کے بغیر ہی اپنے تمام کام کر رہے ہیں۔
عمر دونوں ہاتھوں سے محروم ہیں، وہ اپنے پاؤں سے ہی کھاتے پیتے ہیں، پاؤں سے ہی قلم پکڑ کر کئی گھنٹے لکھتے ہیں، رنگ برنگی پینسلوں سے پینٹنگز بناتے ہیں اور کمپیوٹر پر اپنے پاؤں ہی کی مدد سے کسی ماہر کمپیوٹر آپریٹر کی طرح کام کرتے ہیں۔
عمر کے مطابق معذور افراد کو کوٹے کے مطابق نوکریاں فراہم نہیں کی جا رہی ہیں، جس کے باعث انہیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔