پاکستان میں اندھا قانون اپنے عروج پر ہے اگر کسی بڑے شخص کی تشریف آوری ہو تو خوشامد میں لاکھوں روپے اُڑا دیے جاتے ہیں اور اگر کوئی عام انسان صرف اپنا حق مانگ لے تو اس کو جیل کی ہوا بھی کھانی پڑ جاتی ہے۔ ایک مشہور ڈرامہ عہدِ وفا کی 22 ویں قسط کا ایک کلپ سوشل میڈیا پر اب بہت زیادہ شیئر کیا جا رہا ہے۔ آپ بھی ملاحظہ فرمائیں:
ویڈیو میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جب ایک اسسٹنٹ کمشنر کی نئی نئی بھرتی ہوئی اور وہ پہلے دن اپنے کام پر آیا تو اس کے خادم اور دیگر عملے نے مل جُل کر اس کا شاندار استقبال کرنے کی کوشش کی جس کے لیے اہلِ علاقہ سے بھی مدد لی گئی یعنی ڈھول والے کو مفت میں ڈھول بجانے کے لیے بلوایا گیا، ڈھیروں گُلاب کی پتیوں کو ان کے قدموں میں نچھاور کیا گیا جس پر نئے تعینات کمشنر صاحب بھڑک پڑے۔
انہوں نے لوگوں سے سوال کیا کہ ایسا کیوں کیا؟ کیوں اتنا خرچہ کیا گیا جس پر لوگوں نے کہا کہ آپ کے استقبال میں کیا گیا، پھر کمشنر نے جب ان لوگوں سے اپنا نام پوچھا تو مایوس ہوئے کیونکہ ان کا نام بھی کسی کو معلوم نہیں تھا۔ اس کے بعد کچھ ایسے معنیٰ خیز جملے ادا کیے کہ اگر آج کے دور میں کوئی واقعی ان باتوں کو سنجیدہ لے لے تو وہ ملک کی اصل معنوں میں خدمت کرنے کے قابل ہو جائے گا۔
" انہوں نے کہا کہ میں کوئی حج کرکے نہیں آیا یا کوئی بڑا مشن فتح کرکے اور نہ ہی میں کوئی مہمان ہوں بلکہ میں ایک ملازم ہوں جو گورنمنٹ آف پاکستان کی جانب سے اپنے کام کی تنخواہ لیتا ہوں اور یہ سب بے معنیٰ ہے۔
کیا کوئی اور یہ کرسکتا ہے؟ ملک بھر میں ہم نے ایسا دیکھا ہے کہ جس کو سرکاری عہدہ یا بڑا عہدہ مل جائے وہ اپنی نوکری سے زیادہ کرسی کو انجوائے کرنے لگتا ہے اور دن بھر ان سے وہ فوائد بھی حاصل کرنے لگ جاتا ہے جو غیر ضروری ہیں۔