نیتن یاہو کی شطرنج اور ایران: کیا ایرانی حملہ اسرائیلی وزیرِ اعظم کو نئی سیاسی زندگی دینے کا باعث بنے گا؟

صدر بائیڈن کو غیر یقینی صدارتی الیکشن درپیش ہے۔ خلیجی ریاستوں کو اپنے اقتصادی، علاقائی اور سٹریٹیجک مستقبل کی فکر لاحق ہے۔ ایسے میں کیا مغرب دونوں آنکھیں بند کر کے نیتن یاہو کی ہر خواہش پوری کرنے کا متحمل ہو سکتا ہے؟
israel
Getty Images

کہا جاتا ہے کہ بلی کو قدرت نے سات زندگیاں ودیعت کی ہیں۔ وہ تنگ سے تنگ جگہ سے بھی آہستہ آہستہ نکلنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ اونچی عمارت سے چھلانگ لگانا پڑے تو پکے فرش پر بھی آرام سے پنجوں کے بل لینڈ کر جاتی ہے۔ شعلوں میں گھر جائے تو کھال جلنے کے باوجود اکثر بچ جاتی ہے۔ جال میں پھنس جائے تو پنجوں سے کتر کے آزاد ہونے کا ملکہ رکھتی ہے۔ شکار کا سراغ مل جائے تو گھنٹوں تاک میں بیٹھی رہتی ہے اور ناپ تول کے جھپٹتی ہے۔

اس تناظر میں اگر بنیامین نیتن یاہو کی شخصیت دیکھی جائے تو لگتا ہے انھیں بھی سات سیاسی زندگیاں دان ہوئی ہیں۔ وہ اسرائیل کے طویل ترین مدت تک وزیرِ اعظم رہنے کا ریکارڈ پہلے ہی قائم کر چکے ہیں۔ سنہ 2017 میں کرپشن کے سنگین الزامات نے انھیں جس طرح جکڑا تو مخالفین نے جیل کی سلاخوں کے پس منظر میں ان کی سیاسی وصیت لکھ ڈالی۔ مگر وہ 2022 میں چھٹی بار بھی انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کو ساتھ ملا کے وزارتِ عظمی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

اس کے بعد انھوں نے کرسی مضبوط کرنے اور کچھ اہم عدالتی اختیارات پارلیمنٹ کو منتقل کرنے کی کوشش کی۔ مگر حزبِ اختلاف اور سول سوسائٹی نے سخت مزاحمت کی۔ لگتا تھا کہ نیتن یاہو دباؤ کی تاب نہ لا سکیں گے اور پھر سات اکتوبر کو بلی کے بھاگوں ایک اور چھینکا ٹوٹ گیا اور حماس نے جنوبی اسرائیل پر یلغار کر دی اور نیتن یاہو بحرانی دور کی قومی حکومت کے وزیرِ اعظمکے طور پر سیاسی دلدل سے ابھر آئے۔

ان کے کچھ حاسد کہتے ہیں کہ غزہ کی جنگ اس لیے بھی طول پکڑ رہی ہے کیونکہ جنگ بندی کی صورت میں نیتن یاہوپر دوبارہ استعفیٰ کے لیے دباؤ بڑھ جائے گا اور استعفیٰ کی صورت میں پرانے الزامات اور مقدمات ان کی راہ بے چینی سے تک رہے ہیں۔

نیتن یاہو کیمپ کا نظریہ ہے کہجب ملک حالتِ جنگ میں ہو تو انتخابات چے معنی دارد۔ ویسے بھی رائے عامہ کے مختلف جائزوں کے مطابق اس وقت اوسطاً ستر فیصد سے زائد اسرائیلی باشندے یرغمالیوں کے بے یقین مستقبل کے باوجود غزہ کی مہم کو ’منطقی انجام‘ تک پہنچانے کے حق میں ہیں۔

iran
Getty Images

نیتن یاہو پرانے کھلاڑی ہیں۔ وہ 1980 کے عشرے سے اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ کا فعال حصہ ہیں۔ اقوامِ متحدہ میں اسرائیلی مندوب، وزیرِ خزانہ، وزیرِ خارجہ، وزیر دفاع اور قائدِ حزبِ اختلاف کے عہدوں کے تجربات سے مالا مال ہیں۔ لہٰذا انھیں اندرونی و بیرونی بساط پر کھیلنے کا بخوبی تجربہ ہے۔ وہ بین الاقوامی رائے عامہ کو منقسم رکھنے اور اسرائیل پر سے منفی عالمی توجہ ہٹانے کے ماہر ہیں۔

مثلاً اس سال 26 جنوری کو جب عالمی عدالتِ انصاف نے جنوبی افریقہ کی پٹیشن پر غزہ میں انسانی امداد کی بحالی اور سویلین آبادی کو محفوظ رکھنے کے لیے اسرائیل کو مؤثر فوری اقدامات کرنے اور طاقت کے استعمال کو حد میں رکھنے کا پابند کرنے کی کوشش کی تو فیصلے کے کچھ دیر بعد اسرائیلی وزارتِ خارجہ نے ممکنہ عالمی ردِعمل کی پیش بندی کے طور پر یہ رپورٹ جاری کر دی کہ اقوامِ متحدہ کے امدادی ادارے برائے فلسطین (انرا) کے کم از کم بارہ ارکان سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر ہونے والے حملوں میں براہِ راست ملوث ہیں۔

میڈیا اور مغربی حکومتوں کی توجہ چند ہی گھنٹے میں عالمی عدالتِ انصاف کی رولنگ سے ہٹ کر اسرائیلی الزامات پر مرکوز ہو گئی اور متعدد ممالک بشمول یورپی یونین نے انرا کی امداد عارضی طور پر معطل کر دی۔

دباؤ اتنا بڑھا کہ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو بھی فوری طور پر ان اہلکاروں کی معطلی اور چھان بین کے احکامات جاری کرنے پڑے۔ آج لگ بھگ ڈھائی ماہ بعد بھی ان الزامات کے حق میں ٹھوس ثبوت سامنے نہیں آ سکے۔ چنانچہ کئی ممالک نے انرا کی معطل امداد بحال کر دی ہے۔

دوسرا توجہ ہٹاؤ واقعہ یکم اپریل کو پیش آیا جب غزہ میں فلسطینیوں کو غذا فراہم کرنے والے سات بین الاقوامی رضاکار ایک فضائی کاروائی میں ہلاک ہو گئے۔ اسرائیل کے قریبی اتحادی ممالک نے بھی اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے چھان بین کا مطالبہ کر دیا۔

israel
Getty Images

واردات کے چند گھنٹے بعد اسرائیلی فضائیہ نے دمشق میں ایرانی سفارت خانے کو نشانہ بنایا اس حملے میں ایرانی پاسداران کی القدس فورس کے دو اعلیٰ عہدیداروں سمیت آٹھ ہلاکتیں ہوئیں۔ یوں غزہ میں سات بین الاقوامی امدادی رضاکاروں کی موت سے وقتی طور پر توجہ ہٹانے کی کوشش کی گئی۔

جب سے غزہ آپریشن شروع ہوا ہے۔ اسرائیل کی شمالی سرحد پر ایران نواز حزب اللہ سے جھڑپیں اور دور جنوب میں یمن کی حوثی انتظامیہ کی جانب سے آبنائے عدن کی ناکہ بندی غزہ کی مہم کے ثانوی نتیجے کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ مگر غزہ پر مسلسل عالمی دھیان اور جنگ بندی کے لیے بڑھتے دباؤ کو بقول شخصے ’ڈیفلیکٹ‘ کرنے کا ایک مجرب طریقہ یہ بھی ہے کہ بحران کا دائرہ بڑھانے کی کوشش ہو تاکہ زیادہ ممالک ملوث ہوں تو بوجھ بٹ جائے۔

دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر حملہ بھی مشرقِ وسطیٰ پر نظر رکھنے والے کچھ مبصرین کے مطابق ایک ٹریپ تھا۔ بین الاقوامی سفارتی کنونشنز کے مطابق کسی بھی ملک کا سفارتخانہ اس ملک کا خود مختار علاقہ تصور ہوتا ہے۔ لہٰذا عام طور پر سفارت خانوں کو دورانِ جنگ بھی نشانہ بنانے سے پرہیز کیا جاتا ہے۔

(ماضی قریب میں ایک مثال ملتی ہے جب سربیا کے خلاف نیٹو کی فوجی مہم کے دوران سات مئی 1999 کو بلغراد میں امریکی فضائیہ نے چینی سفارتخانے کو نشانہ بنایا۔ اس واقعہ میں تین چینی صحافی ہلاک ہوئے۔ مگر نیٹو کی جانب سے اسے نشانے کی غلطی قرار دیا گیا اور صدر بل کلنٹن نے اس واقعہ پر معذرت بھی کی)۔

تاہم دمشق میں یکم اپریل کو ایرانی سفارت خانے پر حملے کو نہ صرف اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے حق بجانب قرار دیا گیا بلکہ امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور فرانس نے بھی کھل کے مذمت کرنے کے بجائے یہ مبہم مؤقف اختیار کیا کہ وہ اس واقعہ کی چھان پھٹک مکمل ہونے کا انتظار کریں گے۔

شام میں ایرانی فوجی تنصیبات اور اہلکار سات اکتوبر کے بعد سے بالخصوص متعدد بار اسرائیلی حملوں کا ہدف بنے ہیں۔ مگر سفارتی دفتر پر حملے کے بعد ایران کو یہ سوچنا تھا کہ اس کی بدستور خاموشی کو اندرون و بیرونِ ملک ریاست کی کمزوری پر محمول کیا جا سکتا ہے اور مشرقِ وسطی میں جو چند اتحادی ہیں ان کا ایرانی سیاسی و عسکری حمایت پر سے اعتماد متزلزل ہو سکتا ہے۔

damascus
Getty Images
دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر حملہ بھی مشرقِ وسطیٰ پر نظر رکھنے والے کچھ مبصرین کے مطابق ایک ٹریپ تھا۔

اگر وہ عسکری اور براہِ راست جواب دیتا ہے تو پھر اسرائیل کی یہ خواہش پوری ہو سکتی ہے کہ ایران کو گھیر کے مارا جائے اور اس ’کارِ خیر‘ میں امریکہ سمیت دیگر علاقائی و بین القوامی اتحادی بھی شامل ہوں۔

ایران نے جواب دینے کا راستہ چنا۔ حالانکہ اس فوجی جواب میں کوئی ایسا اچانک پن (سرپرائز) نہیں تھا جو کسی بھی مؤثر عسکری آپریشن کا بنیادی محور ہوتا ہے۔ لگ بھگ ڈھائی ہزار کلو میٹر جغرافیائی فاصلے کی مجبوری میں ہر کسی کو معلوم تھا کہ ایران کی جو بھی کارروائی ہو گی وہ اندرونِ ملک قومی وقار اور بیرونِ ملکاتحادیوں کا اعتماد بحال کرنے کے لیے ایک علامتی کارروائی ہو گی۔

البتہ ایرانی جواب سے اسرائیل کو یہ فوری فائدہ ضرور ہوا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے سلسلے میں اتحادیوں سمیت جو بین الاقوامی دباؤ رفتہ رفتہ بڑھ رہا تھا۔ اس سے وقتی طور پر مکتی مل گئی۔ اگر ایرانی علامتی کارروائی کا کوئی ٹھوس اسرائیلی یا اتحادی جواب الجواب ہوا تو پھر میڈیا اور باقی دنیا کا سارا فوکس غزہ سے ہٹ کے ایک بڑے ممکنہ بحران پر مرکوز ہو جائے گا۔ یوں اسرائیل کو غزہ اور غربِ اردن میں اپنے حتمی مقاصد کے تیز تر حصول کے لیے مزید وقت مل جائے گا۔

ایسے وقت میں جب ایک جانب دنیا کو روس یوکرین مناقشے کی صورت میں اقتصادی جھٹکے لگ رہے ہیں اور دوسری جانب غزہ کا انسانی المیہ درپیش ہے اور اس کے سبب نہر سویز اور آبنائے عدن کی تجارتی بندش ایک اضافی معاشی بوجھ ثابت ہو رہی ہے۔

صدر بائیڈن کو غیر یقینی صدارتی الیکشن درپیش ہے۔ خلیجی ریاستوں کو اپنے اقتصادی، علاقائی اور سٹریٹیجک مستقبل کی فکر لاحق ہے۔ کیا مغرب دونوں آنکھیں بند کر کے نیتن یاہو کی ہر خواہش پوری کرنے کا متحمل ہو سکتا ہے؟

چند دنوں میں یہ بلی بھی تھیلے سے باہر آ جائے گی۔ وہ بلی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے قدرت نے سات زندگیاں دی ہیں۔ مگر آٹھویں کی کوئی ضمانت نہیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.