کیا ’بے وقت اور ضرورت سے زیادہ بارشیں‘ پاکستان کو درپیش موسمیاتی چیلنجز کی عکاس ہیں؟

عالمی کاربن اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ اس لیے موسمیاتی بحران کے لیے پاکستان قصوروار نہیں لیکن یہ موسمیاتی تبدیلی کے بدترین اثرات کا شکار ہو رہا ہے۔ کسی بھی ملک کو اس تکلیف سے نہیں گزرنا چاہیے جو پاکستان کو برداشت کرنا پڑ رہی ہے۔
موسم
BBC

لوئر دیر کے علاقے لقمان بانڈہ میں گلدازیب خان اپنے مکان کا ملبہ صاف کر رہے ہیں۔ مٹی میں اٹے ان کے چہرے پر یاسیت ہے لیکن ان کے ہاتھ پھرتی سے کام کر رہے ہیں۔ دو روز پہلے گلدازیب کے مکان پر تودا گرا تھا جس میں ان کے خاندان کے چار لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’ہماری بی بی چائے اور ناشنہ بنا رہیں تھیں۔ میں فجر کی نماز کے بعد آرام کر رہا تھا کہ مجھے چھت پر کچھ پتھروں کے گرنے کی آواز سنائی دی۔ میں اپنے بیٹوں کے ساتھ باہر نکلا یہ دیکھنے کے لیے کہ کیا ہو رہا ہے۔

’ہم ابھی باہر آئے ہی تھے کہ اوپر سے پہاڑ کا ایک تودہ پھسل کر ہمارے مکان پر گر گیا۔ جس سے چھت کا شہتیر ٹوٹ گیا اور ہماری 17 سال اور نو سال کی دو بیٹیاں، 21 سالہ بہو اور نو مہینے کا نواسہ ملبے کے نیچے دب گئے۔‘

دشوار پہاڑی راستہ ہونے اور جگہ جگہ لینڈ سلائیڈنگ کے باعث ریسکیو کی ٹیموں کو لقمان بانڈہ پہنچنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ مقامی لوگوں اور ریسکیو ٹیموں کی کوشش سے چار گھنٹے بعد جب ملبے کو ہٹایا گیا تو اس میں دبنے والے تمام افراد کی لاشیں ہی نکلیں۔

’بے وقت اور ضرورت سے زیادہ بارشیں‘

بی بی سی
BBC

نواب بادشاہ لقمان بانڈہ کے مقامی صحافی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے اپنی 42 سالہ زندگی میں اس علاقے میں اتنی بارش نہیں دیکھی جتنی کہ اپریل کے مہینے میں ہوئی ہے۔

ان کے مطابق لوئر دیر میں کئی دن کی مسلسل بارشوں سے زیر زمین پانی کی سطح کافی بلند ہو چکی ہے جس کی وجہ سے لینڈ سلائیڈنگ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’دریائے پنجکوڑہ اتنا بپھر چکا تھا کہ سیلاب کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔ پانی کی سطح کئی فٹ تک اوپر آ گئی تھی۔ یہ تو قدرت نے رحم کیا کہ ایک دو روز کے لیے بارش تھمی ورنہ تو بہت تباہی ہو سکتی تھی۔

ہمارے علاقے میں صورتحال یہ ہے کہ زمین سے کئی نئے چشمے پھوٹ پڑے ہیں اور پہلے سے موجود چشموں میں پانی کا بہاؤ بہت زیادہ ہو گیا ہے۔ ابھی بھی اوپر کئی گاؤں ایسے ہیں جہاں لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے راستے بند ہیں اور لوگ مدد کے منتظر ہیں۔‘

صوبہ خیبر پختونخوا کے قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارےکے فوکل پرسن انور شہزاد بھی نواب بادشاہ کی بات کی تصدیق کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’پہلے اس موسم میں اگر کبھی بارشیں ہوتی بھی تھیں تو چند گھنٹے کے بعد تھم جاتی تھیں۔ پچھلے تین سال کا ڈیٹا دیکھیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بارشوں کا نظام بدل رہا ہیں۔ اب بے وقت بارشیں ہو رہی ہیں اور ضرورت سے زیادہ ہو رہی ہیں۔

’اس کے ساتھ ساتھ ہم بھی اپنے ڈیزاسٹر رسپانس بہتر بنانے کی کوشیش کر رہے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جیسے ہمارے صوبے میں 2022 میں 2010 سے زیادہ بڑا سیلاب آیا تھا لیکن اس میں نقصان کم ہوا تھا۔ اس بار بھی ہماری یہی کوشش ہے کہ جہاں تک ممکن ہو سکے پیشگی اطلاع دے کر نقصان ہونے سے پہلے احتیاطی تدابیر کر لی جائیں اور جہاں نقصان ہو وہاں بہتر رسپانس سے اسے کم سے کم کیا جا سکے۔‘

لیکن بدلتے ہوئے موسم کے چیلنجز سے نمٹنا ایک مسلسل جدوجہد ہے کیونکہ ہر سال ہی پاکستان کو ایک نئے طرح کی موسمیاتی صورتحال کا سامنا ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق پاکستان کے کچھ علاقوں میں پچھلے چند ہفتوں میں معمول سے دگنی اور کہیں کہیں تو دگنی سے بھی زیادہ بارشیں ہوئی ہیں۔

خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں اپریل کی غیر معمولی بارشوں سے درجنوں مکانوں کی دیواریں اور چھتیں گرنے سے کئی خاندانوں کو جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے اور کئی لوگ سیلابی ریلوں میں بہہ گئے۔ جبکہ پنجاب میں آسمانی بجلی گرنے سے 21 کسانوں کی جان گئی۔

موسم
BBC

کاربن اخراج میں حصہ کم تباہی زیادہ

ماہرین کے مطابق دنیا کے بڑے صنعتی ملکوں کے غیر معمولی کاربن اخراج کی وجہ سے زمین کا درجہ حرارت تیزی سے بڑھنے لگا ہے جو یہاں بدلتے ہوئے موسموں اور ماحول سے جڑی قدرتی آفات کا سبب بن رہا ہے۔ یہ کاربن تیل کوئلے اور قدرتی گیس کے ایندھن جلانے ان سے گاڑیاں اور جہاز چلانے اور صنعتوں میں ان کے وسیع پیمانے پر استعمال سے خارج ہوتا ہے۔

دنیا بھر سے جتنا کاربن خارج ہو رہا ہے اس میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن پاکستان کا شمار اس کاربن کے اخراج کے نتیجے میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے دس ملکوں میں ہوتا ہے۔

یہاں 2022 میں ہونے والے موسمیاتی حادثوں کا جائزہ لیا جائے تو پہلے پاکستان مارچ کے مہینے میں گرمی کی ایک خوفناک لہر کا شکار ہوا۔ اسے دنیا کی تاریخ میں کسی بھی ملک کا گرم ترین مارچ قرار دیا گیا۔ جبکہ مئی کے مہینے میں جیکب آباد کا درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا اور یہ دنیا کا گرم ترین شہر بن گیا۔

ماحولیاتی تبدیلی کے لیے کام کرنے والے ادارے ورلڈ ویدر ایڑی بیوشن نے اس وقت اپنی ایک رپورٹ میں یہ دعوی کیا تھا کہ انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے ہونے والی موسمیاتی تبدیلی گرمی کی اس لہر کی ایک وجہ بنی تھی۔

اور ابھی پاکستان اس موسمیاتی آفت سے نمٹ ہی رہا تھا کہ اگست میں چند دنوں میں اتنی بارشیں برسیں کہ ایک تہائی ملک ڈوب گیا۔

حکومتی تخمینے کے مطابق تین کروڑ سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے اور جبکہ 1700 لوگوں کی جان گئی۔ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان میں 2022 کے سیلاب میں تقریباً پندرہ ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔ جبکہ یہاں تعمیر نو کے لیے سولہ ارب ڈالر سے زائد کے اخراجات کا تخیمنہ لگایا گیا تھا۔

جنیوا میں جنوری 2023 میں ہونے والی پاکستان فلڈ ریکوری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتویو گوتریس نے اس بات کا اقرار کیا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی میں پاکستان کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔

عالمی کاربن اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ اس لیے موسمیاتی بحران کے لیے پاکستان قصوروار نہیں لیکن یہ موسمیاتی تبدیلی کے بدترین اثرات کا شکار ہو رہا ہے۔ کسی بھی ملک کو اس تکلیف سے نہیں گزرنا چاہیے جو پاکستان کو برداشت کرنا پڑ رہی ہے۔

اس کانفرنس میں کلائمٹ چینج یا موسمیاتی تبدیلی سےنمٹنے اور اس سے ہونے والے نقصان کے ازالے کے لیے پاکستان کو نو ارب کی مالی مدد دینے کے وعدے لیے گئے جو ابھی تک بھی مکمل طور پر پورے نہیں ہوسکے اور نہ ہی 2022 میں متاثر ہونے والی کمیونٹیز کی پوری طرح بحالی ہو سکی ہے۔

کیا ایک اور موسمیاتی بحران پاکستان پر منڈلا رہا ہے؟

موسم
Getty Images

ایسے میں حالیہ بارشوں نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کی ماہر عائشہ خان کہتی ہیں کہ بے موسمی اور غیر معمولی بارشیں ہی پریشانی کا باعث نہیں بن رہی بلکہ اس سال شمالی علاقوں میں معمول سے کم ہونے والی برفباری سے بھی مقامی آبادیوں میں کافی تشویش ہے۔

عائشہ کہتی ہیں کہ ’پاکستان میں کھیتی باڑی اور فصلوں کا سائیکل یہاں پر پانی کی دستیابی کے قدرتی سائیکل سے جڑا ہے۔ جیسے گلگت بلتستان میں برف نومبر سے مارچ تک پڑتی ہے اور پہاڑوں پر اس کی ایک موٹی تہہ جم جاتی ہے جو گرمیوں کے مہینوں میں دھیرے دھیرے پگھلتی ہے اور پہاڑوں سے آنے والے اس پانی سے مقامی کسان اپنی کھیتی باڑی کرتے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’لیکن اس سال برف فروری میں پڑنا شروع ہوئی ہے اور اس کی ایک پتلی سی تہہ ہے جو تھوڑی سی گرمی سے ہی پگھل جائے گی اور جب کسانوں کو پانی کی ضرورت ہو گی اس وقت ان کے لیے پانی دستیاب نہیں ہو سکے گا اور ان علاقوں میں اناج کی قلت کا مسئلہ پیدا ہو جائے گا۔‘

جانی نقصان کے ساتھ ساتھ پاکستان کی پہلے سے ہی کمزور معیشت پر ان قدرتی آفات کے سنگین نتائج مرتب ہو رہے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’پورے جنوبی ایشیا اور خاص طور پر پاکستان میں درجہ حرارت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس تیزی سے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے ہمارے موسموں کا نظام درہم برہم ہو رہا ہے۔ چونکہ ہم ایک زرعی ملک ہیں اور پانی کا ہماری زرعی معیشت سے گہرا تعلق ہے تو ان موسمیاتی حادثوں سے نہ صرف جانی اور انفراسٹرکچر کا نقصان ہو رہا ہے بلکہ ان سے سب سے زیادہ ہماری زراعت متاثر ہو رہی ہے۔ اس نقصان کا تخمینہ لگانا آسان نہیں ہے۔‘

عائشہ خان کے مطابق ’پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں آنے والی قدرتی آفات اور حادثوں سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں ہے اور جو مدد پاکستان کو دنیا سے چاہیے وہ اسے نہیں مل سکی۔

’ہم پر قرضوں کا اتنا بوجھ ہے یہاں غربت پہلے ہی اتنی زیادہ ہے کہ ہماری معیشت میں موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے چیلنجز سے نمٹنے کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ اگر بے وقت بارشوں کا سلسلہ تھما نہیں تو ہزاروں اور لوگ غربت میں دھکیلے جائیں گے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.