’ضرورت پڑی تو اپنے ناخنوں سے لڑیں گے‘: اسلحہ ترسیل روکنے کی امریکی وارننگ پر نتن یاہو کا بیان اور امن معاہدے کی معدوم ہوتی امید

اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ نے اسرائیل کو ہتھیاروں کی ترسیل بند کر دی تو اُن کا ملک ’تنہا لڑے گا اور اگر ضرورت پڑی تو اپنی انگلیوں کے ناخنوں کی مدد سے لڑیں گے۔‘ اسرائیلی سے آنے والے حالیہ بیانات نے حماس اور اسرائیل میں ممکنہ امن معاہدے کی امیدوں کو مبہم کر دیا ہے۔
تصویر
EPA

اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ نے اسرائیل کو ہتھیاروں کی ترسیل بند کر دی تو اسرائیل ’تنہا لڑے‘ گا۔

اُن کا یہ بیان امریکہ کی جانب سے اس انتباہ کے بعد سامنے آیا ہے کہ اگر اسرائیلی وزیر اعظم نے رفح پر باقاعدہ حملے کا حکم دیا تو امریکہ اسرائیل کو ہتھیاروں کی ترسیل روک سکتا ہے۔

اس امریکی انتباہ کے پس منظر میں نتن یاہو کا کہنا تھا کہ ’اگر ہمیں ضرورت پڑی تو ہم اکیلےلڑیں گے۔ میں کہتا ہوں کہ اگر ضرورت پڑی تو ہم اپنے ناخنوں کی مدد سے لڑیں گے۔‘

اس سے قبل امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ اگر اسرائیل کی جانب سے رفح پر حملہ کیا گیا تو امریکہ توپ خانے سمیت کچھ دیگر ہتھیاروں کی اسرائیل کو ترسیل روک دے گا۔

امریکہ نے شہریوں کی ہلاکت کے خدشے کے پیش نظر پہلے ہی اسرائیل کو بموں کی ترسیل روک دی ہے۔

جمعرات کے روز نتن یاہو نے سنہ 1948 کی عرب، اسرائیل جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے اتحادی امریکی کی حالیہ وارننگ کو مسترد کر دیا۔

نتن یاہو کا کہنا تھا کہ 76 سال پہلے جنگ آزادی میں بھی اسرائیل کا مقابلہ اپنے سے کہیں بڑی طاقتوں سے تھا۔ ’ہمارے پاس ہتھیار نہیں تھے، اسرائیل پر ہتھیاروں کی پابندی تھی لیکن ہم نے جذبے، بہادری اور اتحاد کے ساتھ۔ فتح حاصل کی تھی۔‘

اُن کا کہنا تھا کہ اگر امریکہ نے ہتھیاروں کی ترسیل روک دی تب بھی اسرائیل کے پاس وسائل موجود ہیں۔ ’بھرپور جذبے اور خدا کی مدد سے، ہم فتحیاب ہوں گے۔‘

دوسری جانب اسرائیلی وزیر دفاع یواو گیلنٹ کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے ’بہترین دوستوں‘ کو سمجھنا چاہیے کہ اسرائیل کسی دباؤ میں نہیں آئے گا۔ انھوں نے کہا کہ ’ہم ثابت قدم رہیں گے اور اپنے مقاصد حاصل کریں گے۔‘

یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ پیر سے شروع ہونے والی مسلسل بمباری اور اسرائیلی ٹینکوں کی پیش قدمی کے بعد سے رفح سے 80,000 سے زائد افراد نقل مکانی کر چکے ہیں۔

اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ شہر میں اب بھی دس لاکھ سے زائد پناہ گزین موجود ہیں جبکہ بروقت امداد نہ پہنچ پانے کے باعث شہر میں خوراک اور ایندھن تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔

اسرائیلی فوج نے کارروائی کے آغاز سے پہلے مصر کے ساتھ رفح کراسنگ کا کنٹرول جاصل کر نے کے بعد اسے بند کر دیا تھا۔ دوسری جانب، اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس کے عملے اور امدادی سامان سے لدے ٹرکوں کے لیے دوبارہ کھولی گئی کریم شالوم کراسنگ تک پہنچنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ شہر میں باقی رہ جانے والے حماس کے عناصر کے خلاف ’ٹارگٹڈ کارروائیاں‘ کر رہے ہیں۔ تاہم، اسرائیلی حکومت نے رفح پر بڑے پیمانے پر حملے کے امکان کو مسترد نہیں کیا ہے جس کے بعد امریکی صدر نے خبردار کیا تھا کہ وہ اسرائیل کو ایسا کرنے کے لیے گولہ بارود فراہم نہیں کریں گے۔

یاد رہے کہ امریکہ اسرائیل کو سب سے زیادہ ہتھیار اور گولہ بارود مہیا کرنے والا ملک ہے۔ امریکہ ہر سال اسرائیل کو 3.8 ارب ڈالر کی فوجی امداد فراہم کرتا ہے تاکہ اسرائیل کو اس کے پڑوسی ممالک پر برتری دلائی جا سکے۔ اس کے علاوہ گذشتہ ماہ امریکی کانگریس نے اسرائیل کو مزید 14 ارب ڈالر کی فوجی مدد فراہم کرنے کا بل منظور کیا ہے۔

بدھ کے روز صدر بائیڈن نے امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو بتایا تھا کہ فلسطینی شہریوں کو مارنے کے لیے امریکی بم استعمال کیے گئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر وہ (اسرائیل) رفح میں داخل ہوتے ہیں، تو میں انھیں وہ ہتھیار فراہم نہیں کروں گا جو ماضی میں بھی رفح میں استعمال کیے گئے تھے۔‘

وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے کہا ہے کہ صدر بائیڈن کو یقین نہیں ہے کہ اسرائیل رفح میں زبردستی گھس کر حماس کو شکست دینے کے اپنے مقصد کو حاصل کر پائے گا۔

جان کربی نے کہا کہ ’حماس کی مستقل شکست یقینی طور پر اسرائیل کا ہدف ہے، اور ہم اس مقصد میں ان کے ساتھ ہیں۔‘

’یہ کہنا کہ ہم کسی طرح اسرائیل سے دور جا رہے ہیں، یا ہم حماس کو شکست دینے میں ان کی مدد کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔‘

Israeli tanks and other armoured vehicles gathered near the Gaza border fence on Thursday
EPA
جمعرات کے روز اسرائیلی ٹینک اور دیگر بکتر بند گاڑیاں غزہ کی سرحدی باڑ کے قریب جمع ہیں

امن معاہدے کی امید

حالیہ بیانات کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ گذشتہ ہفتے حماس اور اسرائیل کے درمیان ممکنہ امن معاہدے کی امیدیں اب معدوم ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اسرائیل اور حماس کے وفود جمعرات کو مصر کے شہر قاہرہ میں امن معاہدے کے حوالے سے ہونے والی بالواسطہ بات چیت چھوڑ کر واپس لوٹ چکے ہیں۔

یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے حماس نے جنگ بندی کے لیے شرائط کا احاطہ کرتے اُس اہم مسودے پر اتفاق کر لیا ہے جو اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نتن یاہو کے مطابق ’اسرائیل کے (اس ضمن میں) مطالبات کا عکاس نہیں ہے۔‘ اسرائیلی وزیراعظم کے اس بیان کے بعد جنگ بندی کی شرائط پر مزید گفتگو کے لیے ایک اسرائیلی وفد مصر پہنچا تھا۔

سات ماہ سے جاری غزہ جنگ کے بعد، اسرائیل کا اصرار ہے کہ رفح شہر پر قبضے اور حماس کی آخری بٹالین کا خاتمہ کیے بغیر اس جنگ میں فتح ممکن نہیں ہے۔

حماس کی جانب سے سات اکتوبر کو اسرائیل پر ہونے والے حملے میں 1،200 افراد کی ہلاکت اور 250 سے زائد شہریوں کو یرغمال بنائے جانے کے بعد اسرائیلی حملوں میں اب تک 34,900 سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں سے اکثریت بچوں کی ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.