جِس یار کو یار منانا ہی نہ آئے جِس یار کو یار منانا ہی نہ آئے
اس یار سے یار کیسے روٹھ جائے
UA
Acha Chalo Baat Kar Lein Acha Chalo Baat Kar Lein Bahaar Ki
Chand Ki Chandni Ki Un Kay Piyaar Ki
Hansi Ki Muskaan Ki Un Kay Melaap Ki
Nakhun Kay Khabhun Ki Un Ki Tabeer Ki
Barsaat Badal Ki Us Par Chamaktee Bijli Ki
Tofaan Ki Badd U Baraan Ki Un Kay Melaan Ki
Chorioun Ki Payel Ki Un Kay Roomaan Ki
Laila Ki Heer Ki Un Kay Piyaar Ki
Majhnu Ki Ranjhay Ki Un Kay Emaan Ki
Mehndhee Ki Haldee Ki Baraat Ki
Qahkahun Ki Khushion Ki Armaan Ki
Rangh Barangh Laibaas Ki Chahra E Gulnaar Ki
Khan Soch Ki Aur Us Ki Parwaaz Ki
Kahani Hay Ankh Ki Aur Humaray Khabh Ki
hukhan
میری بے حِسی کو مُجھ تک میری بے حِسی کو مُجھ تک
یہ مقام تمھیں مبارک
مجھے پاؤں تلے روند دینا
یہ احسان تمھیں مُبارک
میرے جسم و جاں کی سب تلخیاں
یہ ہمنواہ تمھیں مُبارک
میرا منزلوں سے بھٹکنا
میرا راستوں سے پَلٹنا
یہ پتھر انساں تمھیں مُبارک
میرا عشق میرا جنون بنا
میں گلی گلی مجنوں بنا
یہ ساری تیری ستم گری
اے ستم گر تجھے مبارک
میرا انگاروں پہ رقس طویل
میرے گُنگرو کی چھنکار صنم
یہ تجھ سے ملا انعام نفیس
یہ انعام تمھیں مُبارک
Majassaf Imran
اعتراف میں نے مانا کہ زیاں کار ہوں ،ناداں ہوں
تیرے رستے کے سوا اور نہ رستہ پایا
میں نے اقرار کیا ،ظالم و جاہل ہوں میں
میں نے یہ جان لیا ،مان لیا ،مجر م ہوں میں
آگیا یاد مجھے فصل ِ ازل کا منظر
وہ ملاحت میں بسی ،وصل کی پیاری ہستی
بیل بُوٹے ،وہ عجب حُسن ِ ازل کے جلوے
وہ عطر بیز فضاؤ ں میں چٹکتے غنچے
حُسن وش بزم میں بکھر ے ہوئے موتی جیسے
رنگ وہ رنگ کہ آواز میں ڈھلنے والے !
چاند سور ج تھا ،فلک تھا ،نہ ستارے تھے وہاں
ایسی صورت تھی وہاں ،مثل نہ کوئی اُس کی
چاند سور ج کی ،ستار وں کی ،نہ برگِ گُل کی
ایسی تشبیہ کا بہتان نہ باندھوں اُس پر
ظُلمت ِ خاک میں آیا تو میں سب بھول گیا
یاد مجھ کو نہ رہا نُور کی صورت والا
میں نے پھر عقل کو تدبیر کو سب کچھ سمجھا
میں نے سمجھا کہ فقط میں ہوں ،کوئی اور نہیں
میں نے سمجھا تھا کہ تدبیر سے سب کچھ ہوگا
میں نے احسا س کے رنگ کو معنی بخشے
میں نے تو تخت ِ ہوا پر بھی سواری کرلی
آگ کو رقص کے انداز سکھائے میں نے
میں نے خوشبو کو بھی آواز بنا کر دیکھا
میں نے جی کر دیکھا ،میں نے مر کر دیکھا
میں نے رشتوں کی مروت کے تماشے دیکھے
اک محبت تھی ،سو وہ بھی میں نے کر ہی دیکھی
میں محبت کی فصیلوں کو بھی سر کر آیا
میں نے الفاظ کے سینے سے معانی کھینچے
میں نے منطق کے سمند ر سے جواہر رولے
میں کہاں جاؤ ں مرے دل کو سُکوں پھر بھی نہیں
ایک سُنسان جزیرے پہ کھڑا ہوں اب میں
میری تدبیر بنی میرا حجاب ِ اکبر
اے میرے صبح ِ ازل کے میرے نُور ِ مطلق
میں نے اب جان لیا ہے کہ میر ی جان ہے تُو
تیرے محور سے جدا ہوکے کہاں جاؤ ں گا
میرا ظاہر بھی تُو اور میرا باطن بھی
اب میرا کام کہ میں تجھ کو پکارے جاؤں
اب تیرا کام کہ تُو کام بنادے میرے
دریا تیرا ہے تو کشتی بھی حوالے تیرے
Ahsan Sailani
سوال ہی میں جو سارے جواب رکھتاہے غزل در زمین ِ افتخا ر عارف
(کلامِ احسان سیلانی سے انتخاب )
سوال ہی میں جو سارے جواب رکھتاہے
وہ ایک لفظ میں اُم الکتاب رکھتاہے
خِرام ِ ناز ،تبسم ،نگاہ ،زلفِ سیاہ
ادائیں ایسی وہ لاجواب رکھتاہے
سُموم رقص کناں دیدِ آفتابی پر
نہ دوش دو کہ صحرا سُراب رکھتاہے
بتاکہ تیرے سوا کون ایسے مجرم کا
عمل ہے کوئی نہ نقدِ ثواب رکھتاہے
مرے جواں تُو جہاں بھر میں چاندنی کردے
تُو کیسا چاند ہے ،آنکھوں میں خواب رکھتاہے
بُلا بہشتِ بریں وصل کے شہیدوں کو
زمانہ ہجر کا سوز ِ عذاب رکھتاہے
تُو ایک پھول کے کھونے پہ مت پریشاں ہو
یہ وہ گلستاں ہے ،گُل بے حساب رکھتاہے
گُلوں کی آنکھ میں آنسو بشکل ِ شبنم ہیں
جلال سارا چمن آب آب رکھتاہے
بجا کہ ماہر ِ فن آپ افتخا ر عارف
جنون اور بھی رستے ،جناب رکھتاہے
Ahsan Sailani
میں چھوڑ کے دنیا کو اسے آئی تھی اپنانے میں چھوڑ کے دنیا کو اسے آئی تھی اپنانے
کیوں روٹھا ہے مجھ سے وہ اس بار خدا جانے
میں عمر کی سرحد سے آگے ہوں نکل آئی
اب میرے مقدر میں نہیں ہیں وہ پری خانے
پیتی تو نہیں ہوں میں تجھے پھر بھی یہ بتلا دوں
یہ آج بھی بھاتے ہیں تری آنکھ کے میخانے
شب پچھلے پہر جب میں جلتی ہوں دیا بن کر
آ جاتے ہیں چپکے سے تری یاد کے پروانے
مجھ سے تو دغا کر کے ہر دل سے مٹا ڈالا
مشہور ہیں دنیا میں ترے عشق کے افسانے
اس میری زمیں پہ اب یہی درد کہانی ہے
کچھ قصے ہیں ماضی کے ، کچھ لوگ بھی بیگانے
اک روز تو لوٹیں گے وشمہ تری گلیوں میں
آئیں گے قسم سے ہم ترے پیار کو لے جانے
وشمہ خان وشمہ
لاہور میں آئی تھی تری دید کو لیکن لاہور میں آئی تھی تری دید کو لیکن
تو میرے مقدر کے پشاور میں سے نکلا
میں دیکھتی رہتی تھی کسی اور محلے
خوشبو کا جھروکا تو فلاور میں سے نکلا
وشمہ خان وشمہ
جو آئی ساتھ رقیبوں کے جو آئی ساتھ رقیبوں کے میں ہوگیا بہت کنفیوز
دھڑکنا دل نے چھوڑدیا، دماغ کا بھی اڑگیا فیوز
Sumar Khan
Doori Na Rai Dashte Tanhai Mai Kia Tha Bas Apne Siwa
Bas Khod Mai Kho Gai Itna K Doori Na Rai
rabia mir
لگتا ہے بد دعا لگی ہے تجھے بھی !!! لگتا ہے بد دعا لگی ہے تجھے بھی
مبتلا جو ہو گئے ہو محبت میں
سیدہ سعدیہ عنبر جیلانی
شعر کہتی ہوں تسلسل سے جنابِ عالی لے چلا عشق مجھے لفظ کی رعنائی میں
چاند آنگن سے گیا صبح کی انگڑائی میں
کھیل سکتی ہوں محبت کی میں بازی لیکن
اُس کی شہرت ہے مرے پیار کی رسوائی میں
شعر کہتی ہوں تسلسل سے جنابِ عالی
کون کہتا ہے کہ گم رہتی ہوں سودائی میں
اہتمام ایسا کیا تونے کہ دیوانوں کا
دل فسردہ ہے تری انجمن آرائی میں
کتنا بہتر تھا جو خود میں ہی فنا ہم رہتے
ہم تو ڈوبے ہیں محبت کی شناسائی میں
لاکھ الزام لگالے وہ مجھے فکر نہیں
میں نے چھپ جانا ہے اب رات کی تنہائی میں
وشمہ دنیا کے رواجوں سے مجھے کیا لینا
میں تو زندہ ہوں تری آنکھ کی گہرائی میں
وشمہ خان وشمہ
وہ خاص لوگ دعا و سلام سے بھی گئے وہ خاص لوگ دعا و سلام سے بھی گئے
جو نامہ بر تھے کتاب_ دوام سے بھی گئے
ہم ان کے سامنے اٹھے کہ نظر_خاص پڑے
بس اتنی بات تھی اورنظر_عام سےبھی گئے
جو چھوڑی ان کی غلامی تو ہم پہ بھید کھلا
آزاد بھی نہیں لطف_ غلام سے بھی گئے
وہ بت پرست جو اللہ کو دیکھنے نکلے
خدا بھی مل نہ سکا رام رام سے بھی گئے
کل ان کی بزم میں کیسے انا پرست تھے جو
رکوع کر نہ سک اور قیام سے بھی گئے
جنھوں نےمان کے زاہد کی پھینکی مئےاظہر
وہ رند ساقی_ کوثر کے جام سے بھی گئے
Syed Azhar Ali
جی بھرنا ایسے اثرات وہ کر گیا ہے
مرادنیا سے جی بھر گیا ہے
جو نہیں کرتا میں اب بھروسہ
اصل میں میرا دل ڈر گیا ہے
جو دیکھا تھا دنیا کے بارے
میرا سپنا ہر اک مر گیا ہے
بدلتا ہی رہا یہ مقدر
کبھی ڈوبا کبھی تر گیا ہے
قبر پہ میری بولے گی دنیا
اب چشتی اصل گھر گیا ہے
Iqbal chishti
اتنا خاموش نہ رہا کر مجھ سے زندگی چھین لیتا ہے یہ سکوت میری
اتنا خاموش نہ رہا کر مجھ سے
سیدہ سعدیہ عنبر جیلانی
Itna Khamosh Naa Raha Kar Mujh Say Zindagi Cheen Leta Hai Yeh Sakoot Meri
Itna Khamosh Naa Raha Kar Mujh Say
 
Syeda sadia amber jilani
Asa Hee Hun Mein Han Sach Hay
Thoraa Sa Arriyal Hu Mein..Thora Saa Sariyal Hun Mein
Har Ek Kay Agay Bich Jaye Ju
 Nahi Asa Nahi Mein
Keh Dun Maghroor Hun Mein
Har Kici Kay Samnay
Hatheli Par Dil Na Rakh Paon Mein
.Han Gharoor Hay Mard Hun Mein
Kasay Ye Bhool Jaon Mein
Bila Waja Kici Ko Manaa Hee Na Paon Mein
Chal Saku Tu Zror Chalo
Saharaa Tu Sahi
Magar Besakhee Kici Ki
Na Ban Paon Mein
Wafaa Ki Tu Kabi Kami Na Huee
Magar Khud Ko Khud Ki
Nazar Mein Na Geraa Paon Mein
Chal Saku Tu Sath Chalo
Guzareshein Dil Ki Na Bata Paon Mein
Jaan Saku Tu Jaan Lo
Mardanghee Ka Apni Soudaa Na Kar Paon Mein
Nazar Meri Asmaan Par Magar
Paon Zameen Say Kabi Na Utha Paown Mein
Maghroor Arriyal Sarriyal
Asa Hee Hun Mein
 
hukhan
افسوس کہ مجھے اندازِ محبت نبھانا نہ آیا افسوس کہ مجھے اندازِ محبت نبھانا نہ آیا
ہم تو یونہی روٹھے تھے تجھے منانا نا آیا
کیا کرو گے سارے شہر کو روشن کر کے
خود تیرے گھر میں اندھیرا ہے دیا جلانا نا آیا
جرم محبت میں برسا رہا تھا سارا شہر پتھر
ارے تیرے ہاتھ میں بھی تھا پتھر مگر برسانا نہ آیا
میری چیخوں سے تڑپ اٹھتے ہیں ساگر شہر کے باسی
مگر اس بے وفا کو دل پہ مرہم لگانا نہ آیا
ghulam mustafa sagar
Afsoos Ke Tjhe Andaz Mohabat Afsoos Ke Tjhe Andaz Mohabat Nibhana Na Aaya
Hum Tu Yoonhi Rathe Thy Tjhy Mnana Na Aaya
Kia Kro Gay Sare Shaher Ko Roshan Kr Ky
Khod Tere Ghr Mein Andhera H Dia Jala Na Aaya
Jurm Mohabat Mein Barsa Raha Tha Sara Shaher Pather
Arey Tere Hath Mein Bhi Tha Pther Magar Barsana Na Aaya
Meri Cheekhon Se Tarap Uthte H Sagar Shaher K Basi
Magar Us Be Wafa Ko Dil Par Marham Lagana Na Aaya
 
ghulam mustafa sagar
مجھ کو انعامِ محبت میں یہی درد ملا پیار اس بار مجھے سرد بہت سرد ملا
مجھ کو انعامِ محبت میں یہی درد ملا
جس میں شامل ہے مرا خون وفائیں میری
پھول گلشن میں وہی ایک مجھے زرد ملا
زندگی تیری حقیقت کو میں سمجھوں کیسے
اک مری ذات کو کیوں کوئی نہیں مرد ملا
میں تو اب ڈھونڈنے نکلی تھی وفائیں تجھ میں
تیری باتوں سے مگر درد ملا، درد ملا
پھر شکایت ہے کوئی آج تو وشمہ کہہ دو
پھر نہ کہنا، تجھے کہنے کو نہیں فرد ملا
وشمہ خان وشمہ
یہ جو شاعری میں ، تم کمال رکھتے ہو یہ جو شاعری میں ، تم کمال رکھتے ہو
بھیگی پلکوں پہ درد کے اعمبار رکھتے ہو
یہ روشن خیالی جو تجھ سے ہے خفاخفا
لگتا ہے اک مدت سے لامکاں زوال رکھتے ہو
وقت تم پہ نہیں رہے گا یکساں علیجاہ کبھی
تم تو پھر اک شخص کا دل میں ارمان رکھتے ہو
تیرا عشق ناچے گا انگاروں پہ اک دن نَنگے پاؤں
تم مستی میں کیا خوب ملال رکھتے ہو
تم جو پیتے ہو جام میحانے میں نام اٰس کا لے لے کر
سُنا ہے ! خوش کھو کر بھی اُس کا خیال رکھتے ہو
ہے تیرا ٹوٹ کے رہ جانا میری موت کا سبب نفیس
تم سرِ فہرست اس شہر میں حُسن و جمال رکھتے ہو
Majassaf Imran