خیبر پختونخوا میں تمباکو کاشت کاروں کے ٹوبیکو کمپنیز پر تحفظات

image

خیبر پختونخوا میں کاشت کاروں کو ٹوبیکو کمپنیوں نے تمباکو گریڈنگ اور ریٹ میں دونوں ہاتھوں سے لوٹنا شروع کردیا جس پر کاشت کاروں نے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔

پختونخوا کاشت کار جرگہ کے صوبائی آرگنائزر محمد علی ڈاگئی نے بتایا کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے گریڈنگ کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے، تمباکو کی فصل تیار ہوتے ہی طوفانی بارشیں، ژالہ باری کی وجہ سے فصلیں تباہ ہوگئیں جس کی وجہ سے پیداوار میں بھی کمی آئی ہے، ٹوبیکو بورڈ قانو ن کے مطابق اکتوبر میں تمباکو ڈیمانڈ اور ریٹ دے گا مگر اس سال خریداری سے 15 دن قبل ریٹ اور ڈیمانڈ کا اعلان کیا گیا۔

محمد علی کے مطابق اب ٹوبیکو کمپنیاں اپنا کوٹہ پورا کرنے کی بجائے ایجنٹ کے ذریعے کم ریٹ پر مال اٹھاتی ہیں جس سے کاشت کاروں کو نقصان کا سامنا ہے، اس وقت خریداروں میں سگریٹ کمپنیاں، ایکسپورٹر، تیسرا وہ جو نہ سیگرٹ بناتا ہے اور نہ ایکسپورٹ کرتا ہے جو ان کمپنیوں کا ایجنٹ ہوتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ قانون کے مطابق کمپنیاں ایک ماہ سے زائد وقت ادائیگی نہیں دے سکتی ہیں،ہر سال کمپنیاں اپنی مرضی سے کاشت کاروں کو ادائیگی کرتی ہیں مگر بورڈ ان کمپنیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتا۔ 40 سال سے بورڈ اور کمپنیوں نے کاشت کاروں کا استحصال کیا، کاسا پروڈکشن فارم بورڈ خود بناتے تھے اور بعدازاں ایسے کاشت کاروں سے گوشوارے بھرواتے تھے جن کو پتہ ہی نہیں ہوتا تھا کہ اس فارم میں لکھا کیا ہے۔

محمد علی کے مطابق آئل سیکٹر کے بعد پاکستان کا واحد شعبہ تمباکو ہے جو سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرتا ہے، 250 ارب سے لیکر تین سو ارب روپے ڈیولپمنٹ کی مد میں وصول کیا جاتا ہے، سب سے زیادہ تمباکو کی پیداوار خیبر پختونخوا میں ہوتی ہے مگر کارخانے کشمیر اور چکوال میں لگائے گئے ہیں، صوبے سے باہر کمپنیاں ڈیمانڈ دیتی ہیں مگر وہ اپنی ڈیمانڈ پوری نہیں کرتیں۔ بورڈ اور حکومت کو چاہیے کہ قانون کے مطابق کام نہ کرنے والی کمپنیوں کے خلاف کارروائی کریں۔

کاشت کار سریر کے مطابق کمپنیاں تمباکو کے کاشت کاروں کاا ستحصال کررہی ہیں، حکومتی ریٹ مقرر ہونے کے باوجود خریداری کے وقت مختلف حیلوں بہانوں کے ذریعے مارکیٹ میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے کاشت کاروں کو لوٹا جا رہا ہے، مجبوری کے تحت کاشت کار کمپنیوں کی گریڈنگ میں مسلسل تنگ ہونے کی وجہ سے ایجنٹوں کے ذریعے تمباکو فروخت کرتے ہیں جبکہ انہیں قیمت بھی حکومتی ریٹ سے کم ملتی ہے۔

سریر کے مطابق ایک جریب زمین پر تمباکو اُگانے کی مجموعی لاگت تقریباً 9 لاکھ 20 ہزار روپے ہے جس میں زمین اور کھیتی باڑی پر 3 لاکھ روپے، فائرنگ (خشک کرنے کے عمل) پر 50 ہزار روپے اور دیگر اخراجات (لیبر، کھاد، اسپرے، ٹرانسپورٹ وغیرہ) شامل ہیں۔ کسانوں کے اخراجات پورے ہونے کے لیے تمباکو کی فی کلو گرام قیمت کم از کم 920 روپے ہونی چاہیے۔

پاکستان ٹوبیکو بورڈ کے ترجمان اویس آفریدی کے مطابق تمباکو فصل کے شروع میں گریڈنگ کامسئلہ آتا ہے، تمباکو کاشت میں تین قسم کے پتے ہوتے ہیں شروع اوپر اور نیچے والے پتے کو تمباکو ڈپو پہنچایا جاتا ہے جس میں 10 بنڈل میں ایک یا 2 بنڈل گریڈنگ میں آتا ہے جب درمیانی پتے کا مارکیٹ میں آنا شروع ہوجاتا ہے اس میں گریڈنگ نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔

اویس کے مطابق یہ واحد سیکٹر ہے جس میں کاشت کار کو سب سے زیادہ منافع ملتا ہے مگر سب سے زیادہ شکایات کاشت کاروں کی طرف سے اس سیکٹر میں آتی ہیں، زراعت میں سبزی اور گنے کے کاشت کار نقصان میں ہوتے ہیں مگر وہاں پر اتنی شکایات نہیں ہوتیں۔ حکومت کی جانب سے جاری شدہ ریٹ جس میں بونیر میں 903روپے فی کلو، مانسہرہ میں 952 روپے، مردان، چارسدہ اور صوابی 743 روپے فی کلو مقرر کیا گیا ہے۔

کمپنی ذرائع کے مطابق یہ مسئلہ ہر سال سامنے آتا ہے جس کی اصل وجہ مقامی سیاسی لوگ ہے جو کاشت کاروں کو کمپنیوں کے خلاف احتجاج پر مجبور کرتے ہیں کیونکہ کچھ ایجنٹ ایسے بھی ہیں جو ان سیاسی رہنماؤں کے لیے کام کرتے ہیں اور اپنے ذاتی فائدے کے لیےوہ کاشت کاروں کو بورڈ اور کمپنیوں کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔

سابق اسپیکر اسد قیصر کے مطابق تمباکو کی کل مالیت 480 سے پانچ سو ارب روپے تک ہے، اس وقت خیبر پختونخو میں ایک سو دس کلوگرام ملین کلو تمباکو پیدا ہوتا ہے جس کا 55 فیصد صوابی میں پیدا ہوتا ہے، تمباکو کاشت کاری کے ساتھ 70 ہزار خاندان وابسطہ ہیں، حکومت تمباکو سیکٹر سے تین سو ارب روپے تک ٹیکس وصول کرتی ہے۔ قانون کے مطابق ایک سال کے ریٹ سے اگلے سال کاریٹ زیادہ ہوگا لیکن بدقسمتی سے ٹوبیکو بورڈ نے ریٹ کا اعلان فروری میں کیا جس کی اصل وجہ ٹوبیکو بورڈ کے ڈائریکٹر نہ ہونے کی وجہ سے حکومت نے بورڈ کو کمزور کیا ہے.

انہوں نے کہا کہ قیمت کا بروقت تعین نہ ہونے کی وجہ سے کاشت کاروں کو نقصان کا سامنا ہے، جو کمپنیاں کشمیر منتقل ہوئی ہیں اس سے خیبر پختونخوا کے کاشت کاروں کو چند کمپنیوں کے حوالے کردیا گیا جو اپنی مرضی کے ریٹ دیتی ہیں اور کسانوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہیں۔

پاکستان ٹوبیکو بورڈ نے اس سال خیبر پختونخوا میں تمباکو کا کوٹہ 74.8 ملین کلو گرام مقرر کیا ہے۔ دوسری جانب خراب موسم، ژالہ باری اور تیز ہواؤںکے باوجود اس سال پیداوار کا تخمینہ اب بھی 95 ملین کلو گرام لگایا جا رہا ہے حالانکہ ابتدا میں پیداوار کا اندازہ 125 ملین کلو گرام تھا لیکن قدرتی آفات کے باعث پیداوار کم ہوگئی۔

گزشتہ برسوں میں کوٹہ اور پیداوار کا جائزہ لیں تو 2020 میں کوٹہ 85.5 ملین کلو گرام مقرر تھا اور پیداوار 71.4 ملین کلو گرام ہوئی۔ 2021 میں کوٹہ 83 ملین کلو گرام رہا اور پیداوار 68 ملین کلو گرام رہی۔ 2022 میں کوٹہ 77.3 ملین کلو گرام اور پیداوار 64 ملین کلو گرام ہوئی۔ 2023 میں کوٹہ 77.3 ملین کلو گرام اور پیداوار 85 ملین کلو گرام تک پہنچی۔ 2024 میں بھی کوٹہ 74.8 ملین کلو گرام رہا جبکہ پیداوار 85 ملین کلو گرام رہی۔

اس سال کسانوں کے لیے معاشی مشکلات میں مزید اضافہ اس لیے ہو رہا ہے کہ کمپنیاں پہلے سے ہی تمباکو کے بڑے ذخائر رکھتی ہیں اور خریداری کی طلب کم ہے۔


Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts Follow