کرنسی ڈیلرز نے آئی ایس آئی سے مدد مانگ لی: ’ڈالر کی سمگلنگ شروع ہو جائے تو اداروں کو حرکت میں آنا پڑتا ہے‘

غیر ملکی کرنسی کا کاروبار کرنے والی ایکسچینج کمپنیوں نے ملک کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی سے ڈالر کی سمگلنگ کی روک تھام کے سلسلے میں مدد مانگی ہے۔ ان کمپنیوں کی نمائندہ تنظیم ’ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان‘ کے چیئرمین نے دعویٰ کیا کہ اس سلسلے میں تنظیم کے ایک وفد نے آئی ایس آئی کے ڈی جی سی میجر جنرل فیصل نصیر سے اسلام آباد میں ملاقات کی۔
ڈالر، پاکستان، کرنسی
Getty Images

غیر ملکی کرنسی کا کاروبار کرنے والی ایکسچینج کمپنیوں نے ملک کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی سے ڈالر کی سمگلنگ کی روک تھام کے سلسلے میں مدد مانگی ہے۔

ان کمپنیوں کی نمائندہ تنظیم ’ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان‘ کے چیئرمین نے دعویٰ کیا کہ اس سلسلے میں تنظیم کے ایک وفد نے آئی ایس آئی کے ڈی جی سی میجر جنرل فیصل نصیر سے اسلام آباد میں ملاقات کی۔

چیئرمین ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے آفس سے جاری ہونے والے ایک بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس موقع پر آئی ایس آئی حکام کو ملک میں ڈالر کی صورتحال خاص طور کر حالیہ ہفتوں میں اس کی قیمت میں اضافے کے بارے میں آگاہ کیا گیا اور ڈالر کی ملک سے سمگلنگ کو اس کی قیمت میں اضافے کی بڑی وجہ قرار دیا گیا گیا۔

جون کے اوائل میں ڈالر کی قدر 282 پاکستانی روپے کی سطح سے کم تھی اور پھر اس میں روزانہ کی بنیاد پر چند پیسوں کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا جو 22 جولائی کو 285 روپے کی سطح تک پہنچ گیا تھا۔ ایکسچینج کمپنیوں کے مطابق اسی روز ان کی میجر جنرل فیصل نصیر سے ملاقات ہوئی تھی۔

بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ڈی جی سی نے وفد کی جانب سے پیش کی گئی تجاویز پر کہا کہ وہ ’اس حوالے سے حکومت سے بات کریں گے جبکہ انھوں نے لا انفورسمنٹ ایجنسیوں کو حکم بھی دیا کہ کرنسی سمگلرزکے خلاف فوری کریک ڈاؤن کر کے انھیں گرفتار کیا جائے۔‘

گذشتہ روز اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر 283.45 روپے پر ریکارڈ کی گئی تھی۔

اگرچہ ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن نے اس ملاقات کی تصدیق کی ہے تاہم اس حوالے سے پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا ہے۔ بی بی سی نے اس ضمن میں آئی ایس پی آر سے سوالات پوچھے ہیں جن کا تاحال جواب موصول نہیں ہوا ہے۔

گذشتہ برسوں کے دوران کئی بار ملک میں ڈالر کی طلب اور رسد بحرانی کیفیت کا شکار رہی ہے۔ اس کی قیمت میں اضافے کی ایک وجہ تو غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ برآمدات، ترسیلات زر اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے ذریعے ڈالر کی ملک میں آمد طلب کے مقابلے میں کم ہے۔

انھی وجوہات کے باعث ڈالر کی قیمت میں گذشتہ تین برسوں میں کافی اضافہ دیکھا گیا ہے۔

اس شعبے کے ماہرین اور حکام کے مطابق ڈالر کی قیمت میں اضافے کی ایک اور وجہ اس کی سمگلنگ ہے، خاص طور پر افغانستان کی طرف جسے طالبان کی آمد کے بعد سے عالمی معاشی پابندیوں کا سامنا ہے۔

پاکستان
Getty Images
ماہرین اور حکام کے مطابق ڈالر کی قیمت میں اضافے کی ایک وجہ اس کی سمگلنگ بھی ہے

تو سوال یہ ہے کہ ایکسچینج کمپنیوں کی جانب سے ملک کی خفیہ ایجنسی سے مدد کیوں مانگی گئی ہے اور کیا یہ ملک میں ڈالر کی قیمت کم ہونے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے؟

بی بی سی نے کرنسی ڈیلرز، مالیاتی امور کے ماہرین اور سیاسی تجزیہ کاروں سے بات کر کے ان سوالات کے جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔

ایکسچینچ کمپنیوں کے وفد کی آئی ایس آئی حکام سے ملاقات میں کیا ہوا؟

اس ملاقات کے بعد ایکسچینچ کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر ملک بوستان کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 22 جولائی 2025 کو چیئرمین ایسوسی ایشن نے دیگر ممبران کے ہمراہ ڈی جی سی میجر جنرل فیصل نصیر سے ملاقات کی۔

بیان کے مطابق ’ملاقات کے دوران انھیں بتایا گیا کہ آج کل دوبارہ کرنسی سمگلر مافیا ایران اور افغانستان ڈالر اور دیگر غیرملکی کرنسیاں سمگل کر کے لے جا رہے ہیں۔‘

اس کے مطابق تمام بڑے شہروں میں کرنسی ایکسچینج کے دفاتر کے باہر ’کرنسی سمگلرز کے کارندے کرنسی تبدیل کرانے والے کسٹمرز کو زیادہ ریٹ کا لالچ دے کر ڈالر بلیک مارکیٹ ریٹ پر خریدتے ہیں۔ جس کی وجہ سے کرنسی تبدیل کرانے والے کسٹمرز لیگل ایکسچینج کمپنیوں کے کاؤنٹرز پر نہیں پہنچ پا رہے۔‘

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ 'بلیک مارکیٹ میں ریٹ زیادہ ہونے کی وجہ سے ڈالر کی سپلائی دن بہ دن کم ہو رہی ہے۔‘

انھوں نے یہ شکایت بھی کی کہ ایف بی آر کے نئے اختیارات کے تحت دو لاکھ روپے سے زیادہ نقد کیش پر ٹیکس لگایا جا رہا ہے۔ ’اسی وجہ سے بھی نان فائلر کسٹمرز اپنی شناخت چھپانے کے لیے بڑے پیمانے پر بلیک مارکیٹ سے فارن کرنسی خرید کر ذخیرہ اندوزی کر رہے ہیں۔‘

بیان کے مطابق ’جس طرح سٹیٹ بینک نے ڈالر کی خریداری پر یہ سرکولر جاری کیا ہوا ہے کہ وہ 2000 ڈالر تک کوئی بھی غیرملکی کرنسی کیش رقم پر خرید سکتے ہیں، تو حکومت کو چاہیے کہ وہ اس سرکولر کو مدنظر رکھتے ہوئے عوام پر 2000 ڈالر کی خریداری پر ٹیکس عائد نہ کریں اور چھوٹ دیں۔ اس سے ڈالر کی ڈیمانڈ کم ہو گی اور ڈالر کا ریٹ تیزی سے کم ہو گا۔‘

بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’میجر جنرل فیصل نصیر نے اس تجویز پر کہا کہ وہ اس پر حکومت سے بات کریں گے۔ اس کے علاوہ انھوں نے اُسی وقت لا انفورسمنٹ ایجنسیوں کو حکم دیا کہ کرنسی سمگلرزکے خلاف فوری کریک ڈاؤن کر کے ان کو گرفتار کریں۔‘

خیال رہے کہ ملک میں دو سال قبل بھی غیر ملکی کرنسی کی بلیک مارکیٹ کے خلاف اور قیمتوں میں استحکام لانے کے لیے ایک کریک ڈاؤن کیا گیا تھا۔

کرنسی ڈیلر ملک کی خفیہ ایجنسی سے مدد حاصل کرنے کے خواہشمند کیوں ہیں؟

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ملک بوستان نے کہا کہ ملک میں اِس وقت معاشی اشاریے کافی بہتر ہیں، کرنٹ اکاونٹ سرپلس ہے جبکہ ترسیلات زر ریکارڈ سطح پر پہنچ گئے ہیں، اسی طرح سٹیٹ بینک کے زرمبادلہ ذخائر کافی بہتر ہوئے۔

لیکن انھیں ڈالر کی قیمت میں اضافے پر تشویش ہے جس کی وجہ سے وہ سمگلنگ کو قرار دیتے ہیں۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ملاقات کے دوران آئی ایس آئی حکام نے پوچھا تھا کہ ڈالر ریٹ کیوں اوپر جا رہا ہے، جس پر انھیں بتایا گیا کہ سمگلنگ کی وجہ سے ایسا ہو رہا ہے کیونکہ معاشی اشاریے بہتر ہونے کے باوجود ڈالر 285 روپے تک پہنچ گیا ہے۔

ماضی میں کرنسی سمیت دیگر اشیا کی سمگلنگ پر قابو پانے کے لیے فوج کی مدد کے بارے میں ملک بوستان نے کہا دو سال قبل جب ڈالر کا ریٹ 330 روپے سے اوپر چلا گیا تھا اور مختلف اشیا کی سمگلنگ ہو رہی تھی تو اُس وقت حکومت نے سمگلنگ کے خلاف کریک ڈاؤن کا حکم دیا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ اس معاملے میں فوج بھی آن بورڈ تھی اور اس کے بعد ڈالر کی قیمت کافی کمی ہوئی تھی اور چند ہی دنوں میں یہ 270 روپے تک آ گیا تھا۔

اپریل 2024 میں وزیر اعظم شہباز شریف نے سمگلنگ کے خاتمے کے لیے حکومت کے ساتھ مکمل تعاون پر آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو خراجِ تحسین بھی کیا تھا۔

ملک بوستان سے آئی ایس آئی کی بجائے وزارت خزانہ یا سویلین اداروں سے مدد لینے کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا ان سے بھی وقتاً فوقتاً ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ وزارت خزانہ اور سٹیٹ بینک آف پاکستان سے ملاقاتیں تو معمول کی بات ہے۔

وزیر خزانہ کے مشیر خرم شہزاد سے رابطہ ہونے پر ایکسچینج کمپنیوں کے وفد کی آئی ایس آئی حکام سے ملاقات پر ان کا کہنا ہے کہ وہ اس پر کوئی موقف نہیں دیں گے۔

کیا ملاقات کے بعد ڈالر ریٹ میں کمی واقع ہوئی ہے؟

اس کے بارے میں ملک بوستان نے بتایا کہ اس ملاقات کے بعد گذشتہ دو دنوں میں انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں دو سے تین روپے کی کمی واقع ہوئی ہے۔

ایکسچینچ کمپنیز ایسوسی ایشن اف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ نے بھی ڈالر کی قیمت میں کمی کی تصدیق کی۔

انٹر بینک میں ڈالر ریٹ پر سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر جاری کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق جمعہ کو مارکیٹ میں کاروبار کے اختتام پر ڈالر کی قیمت 283.45 روپے پر بند ہوئی جو منگل کے روز 284.97 روپے کی سطح پر تھی۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت بھی تین روپے کمی کے بعد 286.55 روپے کی سطح پر آ گئی، جو 288.60 روپے کی سطح تک پہنچ گئی تھی۔

پاکستان
Getty Images
ملک بوستان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں اِس وقت معاشی اشاریے کافی بہتر ہیں

ملک بوستان نے کہا اگر ایف آئی اے نے اِسی طرح ان کرنسی سمگلرز اور ہنڈی حوالہ آپریٹرز کے خلاف کریک ڈاؤن جاری رکھا تو آنے والے دنوں میں ڈالر کا ریٹ مزید مستحکم ہو گا کیونکہ اُن کے خیال میں ڈالر کی اصل قیمت 250 روپے ہے۔

انھوں نے کہا کہ اب مرکزی بینک نے انٹر بینک سے ڈالر خریدنے بند کر دیے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ سٹیٹ بینک نے گذشتہ نو ماہ میں انٹربینک مارکیٹ سے 9 ارب ڈالر خرید کر اپنے ریزرو 20 ارب تک بڑھا لیے ہیں جس کے بعد خریداری بند کر دی گئی ہے اور اس وجہ سے بھی ڈالر کی قیمت میں کمی آئے گی۔

کیا انتظامی اقدامات سے ڈالر کی قیمت کو مستحکم رکھا جا سکتا ہے؟

انتظامی اقدامات کے ذریعے ڈالر کی قیمت کو مستحکم رکھنے کے بارے مالیاتی امور ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈالر ریٹ انتظامی اقدامات سے زیادہ طلب و رسد کے اصولوں پر بڑھتا اور گھٹتا ہے۔

بینکاری امور کے ماہر یوسف نذر نے اس سلسلے میں بی بی سی کو بتایا کہ کرنسی کے کاروبار کے محرکات کافی الگ ہوتے ہیں اور انتظامی اقدامات سے انھیں ڈیل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ وقتی طور پر کچھ ہفتوں یا مہینوں کے لیے اسے انتظامی اقداما ت سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے تاہم طویل مدت میں ڈالر ریٹ کا تعین مارکیٹ فورسز ہی کرتی ہیں۔

انھوں نے سوال کیا کہ اگر ایکسچینچ کمپنیوں کو آئی ایس آئی حکام سے مل کر یہ کام کرنا ہے تو پھر ملک کی وزارت خزانہ اور سٹیٹ بینکآف پاکستان کیا کر رہے ہیں؟

انھوں نے کہا کہ ڈالر ریٹ کو کم کرنے کے لیے اس کی طلب میں کمی لائی جائے جو درآمدات کو کم کر کے کی جا سکتی ہے لیکن پاکستان جیسے ملک میں ایک مسئلہ ملکی توانائی کی ضروریات کے لیے تیل اور کھانے پینے کی چیزوں کی درآمد ہے جو ڈالر کی طلب میں کمی نہیں آنے دیتی۔

ملک بوستان نے اس سلسلے میں کہا کہ ڈالر کی رسد و طلب ہی اس کی قیمت طے کرتی ہے تاکہ ایک ریڈ لائن رہے اور جب اسے کراس کیا جاتا ہے تو پھر انتظامی اقدامات کی بھی ضروری ہوتی ہے۔ انھوں نے کہا جب ڈالر کی سمگلنگ ہو تو پھر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حرکت میں آنا پڑتا ہے اور تازہ ترین کریک ڈاؤن میں ڈالر کی قیمت میں کمی دیکھی گئی ہے۔

پاکستان میں کرنسی ڈیلرز کی آئی ایس آئی حکام سے ملاقات کے بارے میں آکسفورڈ یونیورسٹی میں پولیٹیکل اکنامی کے پروفیسر عدیل ملک نے بی بی سی کو بتایا کہ اس کے تین پہلو ہیں۔

ان کے مطابق دنیا میں بھر خفیہ ایجنسیوں میں ایک سیکشن ایسا ہوتا ہے جو معیشت پر بھی نظر رکھتا ہے، تاہم یہ ادارے ایک فاصلے سے ایسے معاملات کو ڈیل کرتے ہیں جو کسی بھی ملک کی قومی سلامتی سے متعلق ہوتے ہیں، تاہم روزمرہ کے معاشی معاملات میں فوج کی مداخلت نہ ادارے کے لیے اچھی ہوتی ہے اور نہ ہی ملک کے مفاد میں ہے۔

انھوں نے کہا جب ایکسچینج ریٹ یا بڑے معاشی ایشوز کو دیکھنا ہوتا ہے تو اس کے لیے ایک سسٹم وضع کرنا ہوتا ہےکہ اگر کہیں مسئلہ ہو تو سسٹم اس پر حرکت میں آ کر اسے خود حل کر سکے۔

تاہم انھوں نے کہا روزمرہ کے معاملات میں فوج کی مداخلت ایک چیلنج ہے اور کرنسی ڈیلرز کی آئی ایس آئی حکام سے ملاقات کا اس طرح عالمی میڈیا میں کور ہونے کے بعد عالمی مالیاتی ادارے سوچیں گے کہ یہاں نظام نہیں ہے اور یہاں خفیہ اداروں سے مل کر کام کرنا پڑتا ہے۔

عدیل ملک کی رائے ہے کہ اس سے اچھا پیغام نہیں جاتا کہ ملک کے فیصلے ’مرکزی بینک، وزارت خزانہ اور سیاسی افراد نہیں کر رہے اور یہ تاثر جاتا ہے کہ فوج ہر فیصلہ کر رہی ہے اور عالمی سطح پر مثبت انداز میں نہیں لیا جاتا۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts Follow