کراچی میں ٹریفک پولیس نے ان شہریوں کے لیے اہم ہدایت جاری کی ہے جو اپنی گاڑیاں فروخت کرنے کے باوجود ای چالان وصول کرنے سے پریشان ہیں۔ یہ مسئلہ اس وقت عام ہو گیا ہے جب ہزاروں گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں اب بھی اوپن لیٹر پر سڑکوں پر دوڑ رہی ہیں، یعنی خریداروں نے انہیں اپنے نام پر منتقل ہی نہیں کیا۔
حالیہ ایک معاملے میں ایک شہری کو اس گاڑی کا ای چالان موصول ہوا جو اس نے کئی سال پہلے فروخت کر دی تھی۔ ڈی ایس پی ایڈمن کاشف ندیم کے مطابق ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کا ریکارڈ تب تک پرانے مالک کے نام پر ہی رہتا ہے جب تک ملکیت کی تبدیلی مکمل نہ ہو۔ یوں خریدار کی جانب سے کی گئی ٹریفک خلاف ورزیوں کے نوٹسز بیچنے والے کے گھر پہنچ جاتے ہیں۔
کاشف ندیم کے مطابق اگر کسی شہری کو فروخت شدہ گاڑی کا چالان آ رہا ہے تو اسے قریبی ٹریفک پولیس سہولت سینٹر جانا چاہیے۔ وہاں گاڑی کی فروخت کی تاریخ بتا کر نام ہٹانے کی درخواست دی جا سکتی ہے۔ افسر گاڑی کا نمبر ’انکوائری موڈ‘ میں ڈال کر سیف سٹی سسٹم میں اندراج کرتا ہے، جس سے چند دنوں کے لیے چالان کا عمل عارضی طور پر رک جاتا ہے۔
اس کے بعد شہری کو محکمہ ایکسائز کے سہولت سینٹر جا کر فروخت کے ثبوت جیسے رسید، حلف نامہ یا ٹرانسفر سلپ خریدار کے شناختی کارڈ کی کاپی اور رجسٹریشن دستاویزات جمع کرانا ہوں گی۔ تصدیق مکمل ہونے کے بعد سابقہ مالک کا نام ریکارڈ سے ہٹا دیا جاتا ہے اور اس کے نام پر چالان آنا بند ہو جاتے ہیں۔
ڈی ایس پی نے واضح کیا کہ اگر بیچنے والا فروخت کا مستند ثبوت فراہم نہ کرے تو عمل مکمل نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس مسئلے کے حل کے لیے ایف بی آر یا تھانے جانے کی کوئی ضرورت نہیں، تمام کارروائی صرف ٹریفک پولیس اور ایکسائز کے مراکز پر ہی مکمل ہو جاتی ہے۔
کاشف ندیم نے خبردار کیا کہ قانون کے مطابق گاڑی خریدنے کے بعد 30 دن کے اندر اسے اپنے نام منتقل کرنا لازمی ہے۔ اس میں تاخیر نہ صرف بھاری جرمانے کا باعث بنتی ہے بلکہ گاڑی کو بلیک لسٹ یا ضبط بھی کیا جا سکتا ہے۔ کئی کیسز میں جرمانے گاڑی کی اصل قیمت سے بھی بڑھ جاتے ہیں۔
ٹریفک پولیس نے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ گاڑی فروخت یا خریدنے کے بعد ملکیت کی بروقت منتقلی کو اپنی قانونی اور اخلاقی ذمہ داری سمجھیں۔ ایسا نہ صرف ممکنہ جرمانوں سے بچاتا ہے بلکہ مستقبل میں کسی بھی قانونی الجھن سے محفوظ بھی رکھتا ہے۔