خاتون کی پلکوں میں 250 جوئیں اور ان کے 85 انڈے جنھیں نکالنے میں دو گھنٹے لگے

طبی دنیا میں ایک نایاب اور منفرد واقعہ سامنے آیا ہے اور یہ واقعہ انڈیا کی مغربی ریاست گجرات کے امریلی ضلع کے ساورکنڈلا کے ایک ہسپتال میں پیش آیا۔
علامتی تصویر
Getty Images

طبی دنیا میں ایک نایاب اور منفرد واقعہ سامنے آیا ہے اور یہ واقعہ انڈیا کی مغربی ریاست گجرات کے امریلی ضلع کے ساورکنڈلا کے ایک ہسپتال میں پیش آیا۔

سورت کی 66 سالہ گیتابین اپنی آنکھوں کے معائنے کے لیے ہسپتال کے آئی ڈیپارٹمنٹ میں آئیں۔ وہ پچھلے ڈیڑھ مہینے سے اپنی پلکوں میں شدید خارش اور درد محسوس کر رہی تھیں۔ ان کی آنکھیں سرخ ہو گئی تھیں اور انھیں نیند نہیں آتی تھی۔

جب گیتابین نے اپنی آنکھیں ماہر چشم ڈاکٹر مِرگانک پٹیل کو دکھائیں تو پتا چلا کہ ان کی پلکوں میں زندہ جوئیں ہیں، اور صرف ایک دو نہیں بلکہ تقریباً 250 جوئیں ہیں۔

چونکہ جوئیں روشنی کے لیے حساس ہوتی ہیں اور طبی علاج میں کچھ حدود بھی تھیں، اس لیے ڈاکٹروں نے انجکشن دیے بغیر جوئیں نکالنے کا عمل شروع کیا۔ یہ عمل تقریباً دو گھنٹے تک جاری رہا۔

طبی اصطلاح میں اس حالت کو ’فیتھریاسِس پالپیبرارم‘ کہا جاتا ہے۔

آئیے جانتے ہیں کہ یہ بیماری کیوں ہوتی ہے، اس کی علامات کیا ہیں، اور اس سے بچاؤ کے لیے کس قسم کے احتیاط کرنے کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر مِرگانک پٹیل ساورکنڈلا میں لالوبھائی شیٹھ آروگیہ مندر ہسپتال کے آنکھوں کے شعبے میں کام کرتے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا: ’گیتابین کا تعلق اصل میں ساورکنڈلا سے ہے، لیکن وہ فی الحال سورت میں رہتی ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ جب گیتابین علاج کے لیے آئیں تو ان کی بنیادی شکایت یہ تھی کہ ڈیڑھ مہینے سے پلکوں میں بہت خارش ہو رہی ہے۔

ڈاکٹر مِرگانک پٹیل نے کہا: ’عام طور پر پلکوں میں خارش کا سبب خشکی یا انفیکشن ہوتا ہے، لیکن پلکوں میں جوئیں ہونا بہت نایاب بات ہے۔ جب ہم نے غور سے دیکھا تو پلکوں پر جوئیں حرکت کر رہی تھیں۔‘

’اسی وقت ہمیں جوؤں کے انڈے بھی نظر آئے۔ یہ ایک مختلف قسم کا پیراسائٹ ہے۔ طبی زبان میں اسے ’فیتھریاسِس پایلپیبرارم‘ کہتے ہیں۔‘

ان کے مطابق ’سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ مریض کو یہ بتاتے ہوئے خوفزدہ نہ کریں کہ ان کی آنکھوں میں جوئیں ہیں۔ اس لیے ہم نے پہلے انھیں تسلی دی اور سمجھایا کہ علاج میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔‘

یہ صورتحال خاندان کے لیے بھی بہت پریشان کن تھی۔ انھوں نے سورت کے کئی ہسپتالوں میں علاج کرایا لیکن کوئی خاص بہتری نہیں آئی۔

مریضہ کے بیٹے امیت مہتا نے بی بی سی کو بتایا: ’میری ماں کی آنکھوں میں بہت خارش تھی اور راتوں کو نیند نہیں آتی تھی۔ ہم نے سورت میں کئی ڈاکٹروں کو دکھایا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ پھر جب ہم ساورکنڈلا گئے تو ڈاکٹر مریگانک نے بتایا کہ ماں کی آنکھوں میں جوئیں ہیں جنھیں نکالنا پڑے گا۔‘

ڈاکٹر مِرگانک نے کہا: ’یہ جوئیں ہمارے جسم کا خون چوستی ہیں۔ چونکہ پلکوں کی جلد بہت نازک ہوتی ہے، اس لیے انھیں وہاں سے خون چوسنا آسان ہوتا ہے۔‘

’یہ جوئیں پلکوں سے مضبوطی سے چمٹی رہتی ہیں، جس سے خارش ہوتی ہے اور نکالنے میں دشواری پیش آتی ہے۔‘

جوئیں نکالنے کا عمل

چونکہ یہ جوئیں روشنی کے لیے حساس ہوتی ہیں، اس لیے وہ روشنی میں حرکت کرنے لگتی ہیں۔ انھیں نکالنے کے لیے ایک خاص آلہ ’میکفرسن‘ استعمال کیا گیا اور ہر جوں کو الگ الگ پکڑ کر احتیاط سے نکالا گیا۔

ڈاکٹر مِرگانک پٹیل نے بتایا: ’ابتدا میں مریضہ کی آنکھوں میں بے حسی پیدا کرنے کے لیے خاص ڈراپس ڈالے گئے تاکہ جوں نکالتے وقت تکلیف نہ ہو۔ یہ پورا عمل تقریباً دو گھنٹے چلا۔‘

’عمل مکمل ہونے کے بعد مریضہ کو فوراً سکون محسوس ہوا اور خارش میں کمی آئی۔ بعد میں ہم نے انھیں مزید مشورہ دیا۔‘

ڈاکٹر مِرگانک نے بتایا کہ انڈیا میں ’ایسے چند ہی کیس پہلے رپورٹ ہوئے ہیں۔ یہ کیس تقریباً پانچ مہینے پہلے سامنے آیا، تو میں نے اس پر ریسرچ آرٹیکلز بھی پڑھے۔ یہ ایک نہایت نایاب حالت ہے۔‘

اس مشکل عمل میں ڈاکٹر مِرگانک پٹیل اور ان کی ٹیم نے عورت کی دونوں پلکوں سے 250 سے زیادہ جوئیں اور 85 سے زائد انڈے نکالے۔ اگلے دن جب وہ دوبارہ معائنے کے لیے آئیں تو ان کی آنکھیں بالکل صاف اور صحت مند تھیں۔

ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر پرکاش کٹاریا نے بی بی سی کو بتایا: ’مجھے طب کے میدان میں 21 سال کا تجربہ ہے، لیکن ایسا کیس میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ یہ کیس بہت مشکل تھا کیونکہ اس میں زیادہ بے حسی درکار تھی۔‘

’مریضہ ڈیڑھ دو ماہ سے پریشان تھی، سو بھی نہیں پاتی تھی۔ اس نے سورت میں دو تین ڈاکٹروں کو دکھایا لیکن کوئی تشخیص نہیں ہو سکی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاملہ کتنا سنگین تھا۔‘

تقریباً پانچ مہینے پہلے ساورکنڈلا میں ہی ایک ایسا کیس سامنے آیا تھا۔ اس وقت ایک لڑکے کی پلکوں میں جوئیں تھیں جو آسانی سے نکل گئیں اور وہ ڈیڑھ گھنٹے میں ٹھیک ہو گیا۔

فیتھریاسِس پالپیبرارم کیا ہے؟

امریکہ کے نیشنل سینٹر فار بایوٹیکنالوجی انفارمیشن کے مطابق، فیتھریاسِس پالپیبرارم ایک نایاب بیماری ہے جس میں پی ایچ تھائرس پیوبس نامی جوئیں پلکوں میں بس جاتی ہیں۔

یہ انفیکشن عام طور پر متاثرہ چیزوں کے رابطے سے پھیلتا ہے۔ اس کی علامات میں شدید خارش، پلکوں کی سرخی، اور نیند کی کمی شامل ہیں۔ چونکہ یہ عام آنکھوں کے انفیکشن جیسا نہیں ہوتا، اس لیے اس کی تشخیص مشکل ہو سکتی ہے۔

این سی بی آئی کی ویب سائٹ کے مطابق فیتھریاسِس پالپیبرارم (جسے فیتھریاسِس سیلیاریس یا سیلیئری فیتھریاسِس بھی کہا جاتا ہے) پلکوں میں ہونے والا ایک پیراسائٹ انفیکشن ہے۔

جوئیں آنکھوں میں کیسے پہنچ سکتی ہیں؟

احمد آباد کے دھروا ہسپتال کے ماہر چشم ڈاکٹر ہرشد آگجا نے بی بی سی کو بتایا: ’یہ بیماری بہت نایاب ہے۔ جیسے مچھر انڈے دیتے ہیں اور ان سے لاروے بنتے ہیں، ویسا ہی یہاں ہوتا ہے۔ اکثر یہ انفیکشن صفائی کی کمی یا آنکھوں کو بار بار رگڑنے کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے۔‘

انھوں نے کہا: ’ہم نے کئی سال پہلے احمد آباد کے شاردابین ہسپتال میں ایسا ایک کیس دیکھا تھا، لیکن یہ واقعات بہت کم ہوتے ہیں۔‘

کبھی کبھار یہ بیماری تکیوں یا گھر کے ماحول کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے، جہاں سے جوئیں جسم میں داخل ہو جاتی ہیں۔

ڈاکٹر مرگانک کے مطابق: ’یہ بیماری صرف انسانوں میں ہی نہیں بلکہ جانوروں میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ اگر صفائی کا خیال نہ رکھا جائے تو جوئیں کمبل، چادروں، تکیوں، رضائیوں یا کپڑوں میں چھپ سکتی ہیں۔‘

’ایک اور وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بعض اوقات یہ بیماری غیر ارادی طور پر لگ جاتی ہے، جیسے جنگل میں جانا یا جانوروں کے قریب آنا۔ ایسے مواقع پر یہ جوئیں جسم پر چپک جاتی ہیں اور پھر سر سے پلکوں تک پہنچ جاتی ہیں۔‘

احمد آباد کے ماہر چشم ڈاکٹر آلاپ باویشی نے بی بی سی کو بتایا: 'یہ کیس بہت نایاب ہے اور گجرات میں اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے۔ لیکن جنوبی انڈیا میں، خاص طور پر مارچ اور اپریل کے مہینوں میں، ایسے کیس زیادہ دیکھے جاتے ہیں۔

’یہ کیس بہت پیچیدہ نہیں ہے، لیکن آنکھوں سے جوئیں نکالنے کا عمل نہایت نازک اور مشکل ہوتا ہے، کیونکہ کوئی دوا ایسی نہیں جو ان جوؤں یا ان کے انڈوں کو مار سکے۔‘

’لہٰذا ہر جوں کو ہاتھ سے علیحدہ علیحدہ نکالنا پڑتا ہے۔ یہ جوئیں روشنی سے بھاگتی ہیں، اس لیے بغیر فلیش لائٹ کے انھیں پہچاننا بھی بہت مشکل ہوتا ہے۔‘

سر کی جوؤں اور آنکھ کی جوؤں میں کیا فرق ہے؟

ڈاکٹر آلاپ باویشی نے بتایا: کہ ’سر کی جوئیں اور آنکھ کی جوئیں مختلف ہوتی ہیں۔ آنکھ کی جوئیں آنکھ کے سفید حصے کے قریب حرکت کرتی ہیں اور روشنی سے دور رہتی ہیں، اس لیے وہ پلکوں کے اندر کے سائے والے حصے میں چھپ جاتی ہیں۔‘

’ایسی جوئیں صرف صفائی کی کمی سے ہی نہیں بلکہ فصلوں کے موسم میں فضاء کے ذریعے بھی آنکھوں میں آ سکتی ہیں۔ شروع میں یہ زیادہ تکلیف نہیں دیتیں، اس لیے اکثر ان پر بروقت توجہ نہیں دی جاتی۔‘

ڈاکٹر مرگانک نے کہا: ’جوؤں کی مختلف اقسام ہوتی ہیں، جیسے سر کی جوئیں، زیر ناف (پبک) جوئیں وغیرہ۔ یہ عام طور پر ننگی آنکھ سے نظر نہیں آتیں، انھیں مائیکروسکوپ سے دیکھا جا سکتا ہے۔‘

’یہ جوئیں شفاف رنگ کی ہوتی ہیں، اس لیے جلد پر بیٹھنے کے باوجود پہچانی نہیں جاتیں۔ مائیکروسکوپ سے دیکھنے پر ان کے جسم میں خون کی روانی نظر آتی ہے، جس سے ان کی بناوٹ کے بارے میں معلومات ملتی ہیں۔‘

جوں کی یہ قسم بالوں کے ذریعے آنکھوں میں پہنچ سکتی ہیں
Getty Images
جوں کی یہ قسم بالوں کے ذریعے آنکھوں میں پہنچ سکتی ہیں (علامتی تصویر)

ابتدائی علامات

ڈاکٹر مرگانک نے بتایا کہ مریضہ سورت میں رہتی تھیں، لیکن ساورکنڈلا میں ان کا ایک اور گھر تھا جو زیادہ تر بند رہتا تھا۔ گھر کے بند ہونے اور جانوروں کی آمد و رفت زیادہ ہونے کی وجہ سے جوئیں وہاں سے آئی ہوں گی۔

ان کے مطابق، آنکھ میں درد، مسلسل خارش اور نیند نہ آنا اس بیماری کی بنیادی علامات ہیں۔

ابتدائی علامات میں پلکوں پر سوجن یا پانی آنا شامل ہے۔ جلد پر یہ انفیکشن خارش پیدا کرتا ہے۔

ایسی بیماریوں سے بچاؤ کے لیے کیا احتیاط کرنی چاہیے؟

ڈاکٹر ہرشد آگجا نے مشورہ دیا کہ ’مریضوں کو اپنے ہاتھ صاف رکھنے چاہئیں اور دن میں کم از کم دو سے تین بار چہرہ دھونا چاہیے۔ یہ مسائل عموماً بچوں اور بزرگوں میں زیادہ دیکھے جاتے ہیں، جبکہ نوجوانوں میں کم۔‘

ڈاکٹر پرکاش کٹاریا نے کہا: ’اگر کسی کو اپنی آنکھوں کے بارے میں ذرا سا بھی شبہ ہو تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔ اگر آرام نہ ملے تو کسی تجربہ کار ماہر سے علاج کروائیں۔ اگر آنکھوں کے مسائل کو نظرانداز کیا جائے تو وہ بعد میں سنگین صورت اختیار کر سکتے ہیں۔ گھر کی صفائی کا خاص خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US