وقت سے پہلے موت سے بچنا چاہتے ہیں تو یہ عام سی غلطی کبھی نہ کریں ورنہ۔۔

image

تقریباً ہر انسان صحت بخش زند گی گزارنا چاہتا ہے اور وہ اپنا بھرپور خیال رکھنے کے لیے تازہ غذا کا استعمال کرتا ہے جس کے باعث وہ چست و تندرست نظر آتا ہے۔ لیکن دوسری جانب چند افراد ایسے بھی موجود ہیں جو اپنی صحت کو لے کر لاپرواہی برتے ہیں اور وہ اتنے غافل ہوجاتے ہیں کہ انہیں بیماری کی علامات کا علم ہی نہیں ہوتا۔

اسی طرح انسان کی ایک اور لاپرواہی سامنے آتی ہے وہ یہ کہ ہم زیادہ دیر تک بیٹھے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، صبح دفتر میں پورا وقت بیٹھ کر کام کرتے ہیں اور شام کو گھروں میں بیٹھ کر سارا وقت ٹی وی دیکھتے رہتے ہیں لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ طویل وقت تک بیٹھے رہنا موت کا سبب بن سکتا ہے؟

جی ہاں! طبی جریدے برٹش جرنل آف اسپورٹس میڈیسین کی ایک نئی تحقیق کے مطابق اگر آپ کا زیادہ تر وقت بیٹھ کر گزرتا ہے تو جان لیں کہ بظاہر یہ بے ضرر عادت درمیانی عمر میں موت کی وجہ بھی بن سکتی ہے۔

درحقیقت بہت دیر تک بیٹھ کر گزارنا ہر سال دنیا بھر میں 8 فیصد عالمی اموات کا باعث بنتا ہے۔

جسمانی طور پر زیادہ متحرک نہ رہنا کئی بیماریوں بشمول دل کی بیماری، ہائی بلڈ پریشر، فالج، شوگر ٹائپ 2 اور اس طرح کی متعدد اقسام کے کینسر اور قبل از وقت موت کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

اس نئی تحقیق میں 168 ممالک کا 2016 کے اعداد و شمار کا تجزیہ کیا گیا اور محققین نے دریافت کیا کہ سست طرز زندگی غیر متعدی امراض کا باعث بنتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق ہر ہفتے ڈیڑھ سو منٹ سے بھی کم معتدل یا 75 منٹ کی سخت جسمانی سرگرمیوں کو سست طرز زندگی قرار دیا جاتا ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ امیر ممالک کے رہائشیوں میں سست طرز زندگی سے جڑے امراض کا خطرہ غریب ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کے مقابلے میں 2 گنا سے زیادہ خطرے کا سامنا ہوتا ہے۔

2016 میں ترقی یافتہ ممالک میں جسمانی سرگرمیوں کی سطح متوسط ممالک کے مقابلے میں دوگنا کم دکھائی دی۔

تاہم متوسط ممالک میں سست طرز زندگی سے لوگوں کو زیادہ خطرے کا سامنا ہوتا ہے جس کا سبب وہاں کی آبادی زیادہ ہونا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں سست طرز زندگی کے نتیتجے میں ہونے والی کل اموات میں سے 69 فیصد متوسط ممالک میں ہوئیں۔

تمام طبی ماہرین کی جانب سے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ چہل قدمی کرنے کے مشورہ دیا جاتا ہے کیونکہ ایک تو اس سے آپ کا وزن کم ہوتا ہے اور آپ کا جسم بھی متحرک رہتا ہے۔


About the Author:

مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.