وزیراعظم عمران خان نے پاکستان کی عوام سے براہ راست ٹیلی فون پر بات چیت کی جس میں انہوں نے سابق افغان سفیر کی بیٹی نور مقدم کے بہیمانہ قتل پر شدید الفاظ میں مزمت کرتے ہوائے کہا کہ اس واقعہ سے پوری قوم کو ایک دھچکا لگا اور کہا کہ میں سن رہا ہوں کہ کچھ لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ نور مقدم کا قاتل غیر ملکی ہے اور بہت ہی طاقت ور گھرانے سے ہے تو بچ جائے گا ، مگر ایسا کچھ نہیں ہوگا ، کوئی بھی بچ نہیں پائے گا چاہے پھر وہ غیر ملکی ہی کیوں نہ ہو۔
ساتھ ہی ساتھ واضح طور پر وزیراعظم عمران خان نے یہ بھی کہا کہ اگر وہ امریکہ ہے تو کیا ہوا سزا ضرور ملے گی۔مزید یہ کہ انہوں نے کہا کہ کچھ وقت کیلئے ہم یہ سوچ کے دیکھیں کہ نور کی جگہ اگر ہماری بیٹی ہو تی تو کیا گزر تی ہم پر۔
اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ نور مقدم کے واقع سے پہلے بھی ایک افغان سفیر کی بیٹی کے ساتھ کچھ اس ہی طرح کا واقعہ ہوا تو میں نے اس کیس کی بھی نگرانی اس طرح کی کہ جیسے میری اپنی بیٹی ہو۔
اس کے علاوہ یہاں یہ بتا دینا بھی بہت ضروری ہے کہ نور اور ظاہر ویسے تو خاندانی دوست تھے، دونوں کی فیملیز برسوں سے ایک دوسرے کو جانتی تھیں۔ مگر کیا معلوم تھا کہ بچپن کا دوست ہی بیٹی کا قاتل بن جائے گا۔
نور اور ظاہر کا واقعہ بھی کسی ڈرامے کی کہانی کی طرح ہے۔ جس میں ایک لڑکا امیر زادہ ہوتا ہے اور لڑکی بے بس ہوتی ہے۔ جس طرح ایک ڈرامے میں امیر زادے کے گھر والے اپنے بیٹے کی ہر بری عادت پر پردہ ڈالتے ہیں بالکل اسی طرح اس واقعے میں بھی پیش آیا ہے۔ ظاہر کا برتاؤ بھی ایک بے لگام گھوڑے کی طرح ہے جو کہ اپنے آگے کسی کی نہیں سنتا تھا۔
ظاہر کے دوست کہتے ہیں کہ ظاہر ایک اکڑو، غصے والا شخص ہے، جو کہ صرف اپنی بات کو اہمیت دیتا ہے بلکہ دوسرے کسی کو نہیں سنتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف نور تھی جو کہ ظاہر کے جارحانہ انداز سے پریشان تھی۔
یہ گفتگو انہوں نے کل بروز اتوار کو پاکستانی عوام سے براہ راست کی جس میں اسلام آباد سے ادیبہ نامی ایک لڑکی نے نور مقدم کیس کے حوالے سوال کیا جس پر وزیراعظم عمران خان نے اس واقعہ پر اپنا مؤقف پیش کیا اور جو بھی اس کیس کو لیکر پاکستانی قوم میں شکوک و شہبات پائے جا رہے تھے، اسے ختم کر دیا۔