افغانستان میں طالبان نے خواتین پر کب کون سی پابندیاں عائد کیں؟

افغانستان میں خواتین کے سیکنڈری سکولوں میں جانے پر پابندی کو اب 500 دن گزر چکے ہیں مگر یہ وہ واحد پابندی نہیں جو اب تک لگائی گئی ہے۔
طالبان
BBC

15 اگست 2021 کو جب سے طالبان نے افغانستان کا کنٹرول سنبھالا ہے، تب سے اب تک خواتین پر پابندیوں کے کئی احکامات جاری کیے جا چکے ہیں۔ 

ایسے 20 سے بھی زیادہ معاملات ہیں مگر کئی معاملات میں تو کسی حکم نامے یا سفارش کے بغیر بھی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ 

طالبان کی جانب سے خواتین پر پابندیاں چار طرح  کی ہیں: سیاست سے بے دخلی، عوامی سرگرمیوں پر پابندیاں، تعلیم پر پابندی، اور کام کرنے کے حق پر پابندی۔ 

یہ وہ چار بنیادی پابندیاں ہیں جو طالبان نے خواتین پر عائد کر رکھی ہیں حالانکہ اُنھوں نے اپنے گذشتہ دورِ حکومت کے مقابلے میں زیادہ نرمی کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ 

مردوں کی کابینہ (ستمبر 2021) 

سنہ 2001 میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد کی دو دہائیوں میں حامد کرزئی اور محمد اشرف غنی نے خواتین کی سیاست میں زیادہ شمولیت کے لیے کوششیں کی تھیں۔ اس دوران خواتین نے پارلیمان میں جگہ بنائی، اُنھیں وزیر، سفیر، صوبوں کی گورنر اور کئی اہم سرکاری اداروں کی سربراہ بھی بنایا گیا تھا۔ 

جب 15 اگست 2021 کو طالبان حکومت میں واپس آئے تو دنیا یہ دیکھنے کی منتظر تھی کہ یہ عسکریت پسند گروہ کس قدر تبدیل ہوا ہے۔ 

پھر 30 اگست کو آخری امریکی سپاہی کے افغانستان چھوڑنے کے بعد دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے نائب سربراہ شیر محمد عباس ستانکزئی نے بی بی سی کو ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا تھا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ خواتین حکومت میں سرگرم رہیں گی مگر میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اُنھیں اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا جائے گا۔‘ 

ایک ہفتے بعد طالبان نے اپنی ’عبوری کابینہ‘ کا اعلان کیا اور اس میں کوئی خاتون شامل نہیں تھی۔ 

احتجاج (ستمبر 2021) 

طالبان
AFP
خواتین پر پابندیوں کے خلاف مظاہروں کو اکثر تشدد کے ذریعے دبایا گیا ہے۔

افغان خواتین طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد سے بڑھتی پابندیوں کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں۔ کئی واقعات میں خواتین مظاہرین پر تشدد کیا گیا اور کئی روز تک حراست میں رکھا گیا۔ 

سات ستمبر 2021 کو جب طالبان نے ہرات میں احتجاج کرنے والی خواتین پر فائرنگ کی تو اس میں تین افراد ہلاک اور سات زخمی ہوئے۔ 

اس کے ایک دن بعد وزارتِ داخلہ کے ایک اعلامیے کے ذریعے مظاہروں پر پابندی عائد کر دی گئی اور کہا گیا کہ مظاہرین کو پہلے سکیورٹی اداروں کو خبردار کرنا ہو گا۔ 

اسی روز درجنوں خواتین مظاہرے کے لیے کابل میں جمع ہوئیں تو طالبان سکیورٹی اہلکاروں نے ان پر لاٹھی چارج کیا اور اُنھیں علاقے سے نکال دیا۔ 

ایسے کئی مظاہروں کو کسی نہ کسی طرح سے دبایا گیا ہے۔ 

سرکاری ملازمین (اگست/ستمبر 2021) 

اقتدار میں آنے کے ایک ماہ بعد خواتین سرکاری ملازمین سے گھروں پر رہنے کے لیے کہا گیا۔ 

پھر 19 ستمبر 2021 کو کابل میونسپلٹی کی خواتین ملازمین سے کہا گیا کہ صرف ان خواتین کو کام کرنے کی اجازت ہو گی جن کی جگہ مرد کام نہیں کر سکتے۔ 

طالبان
AFP
خواتین ایک میونسپلٹی کے دفتر میں اپنے کام میں مصروف ہیں۔ افغانستان بھر میں زیادہ تر خواتین اب اپنی ملازمتوں سے محروم ہو گئی ہیں۔

آج تقریباً تمام اداروں اور وزارتوں کی خواتین ملازمین اپنے گھروں پر رہتی ہیں اور ماہ میں ایک مرتبہ بس تنخواہیں وصول کرنے کے لیے جاتی ہیں۔ 

افغانستان سول سروس کے خواتین عملے نے جون 2022 میں طالبان سے مطالبہ کیا کہ اُنھیں کام کرنے دیا جائے اور ان کی جگہ مردوں کو نہ بھرتی کیا جائے۔ 

ایک ماہ بعد وزارتِ خزانہ کی خواتین ملازمین سے کہا گیا کہ وہ اپنی جگہ کام کرنے کے لیے گھر کے کسی مرد اہلکار کو بھیج دیں اور وہ خود گھر پر رہیں (حالانکہ طالبان اس کی تردید کرتے ہیں)۔ 

سرکاری ملازمین کے علاوہ خواتین فوجیوں، پولیس اہلکاروں، وکلائے استغاثہ اور ججز کی بھی نوکریاں چلی گئیں اور وہ گھر پر رہنے یا ملک چھوڑ جانے پر مجبور ہو گئیں۔ 

موسیقی (اگست/ستمبر 2021) 

طالبان
Getty Images
افغان نیشنل انسٹیٹیوٹ آف میوزک کی سنہ 2011 کی ایک تصویر۔ اب یہاں کلاسز بند ہو چکی ہیں۔

طالبان کسی بھی قسم کی موسیقی کے خلاف ہیں چنانچہ ان کے برسرِ اقتدار آنے کے کچھ ہی دن بعد افغان نیشنل انسٹیٹیوٹ آف میوزک کے طلبہ نے سبق لینے بند کر دیے۔ اس کے بعد سے یہ ادارہ بند ہے۔ افغانستان کے پہلے خواتین آرکسٹرا ’زہرہ آرکسٹرا‘ کی ارکان پناہ کی تلاش میں پرتگال چلی گئیں۔ 

کھیل (ستمبر 2021) 

طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے خواتین کھلاڑیوں نے افغانستان میں کسی کھیل میں حصہ نہیں لیا ہے اور کھیلوں پر ایک غیر اعلانیہ پابندی عائد ہے۔ 

آٹھ ستمبر 2021 کو نائب وزیرِ ثقافت احمداللہ واثق نے کہا کہ خواتین کے کھیل ’نامناسب اور غیر ضروری‘ سرگرمی ہیں کیونکہ کھلاڑیوں کا چہرہ اور جسم کھلا رہ سکتا ہے جو کہ شرعی قوانین کے خلاف ہے۔ 

اُنھوں نے کہا کہ خواتین کو کھیلنے کی اجازت تب دی جائے گی جب ’محفوظ ماحول‘ فراہم کیا جا سکے گا مگر 17 ماہ بعد بھی وہ مقامی اور غیر ملکی مقابلوں میں شرکت سے محروم ہیں۔ 

دسمبر 2022 میں انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی نے افغانستان کو خبردار کیا کہ اگر اس نے خواتین ایتھلیٹس کو اجازت نہ دی تو وہ افغانستان کے ساتھ روابط توڑ لے گی جبکہ کرکٹ آسٹریلیا نے بھی اسی وجہ سے افغانستان سے ایک روزہ میچز منسوخ کر دیے تھے۔ 

طلبہ و طالبات کی علیحدگی (ستمبر 2021) 

طالبان
Getty Images
یونیورسٹیوں نے ابتدائی طور پر طلبہ و طالبات کے درمیان پردے حائل کر دیے تھے۔

طالبان کی جانب سے اقتدار سنبھالنے کے ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں اُنھوں نے نجی یونیورسٹیوں میں خواتین اور مرد طلبہ کے درمیان علیحدگی کی سفارش کی۔ 

بارہ ستمبر 2021 کو وزارتِ اعلیٰ تعلیم نے بی بی سی کو ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ وہ سرکاری یونیورسٹیوں کے لیے بھی یہی حکمتِ عملی رکھتے ہیں۔ 

سب سے پہلے تو خواتین اور مرد طلبہ کے درمیان پردے آویزاں کر دیے گئے، اس کے بعد کلاسز الگ کی گئیں اور بالآخر اُن کے لیے علیحدہ دن مختص کر دیے گئے۔ 

وزارتِ اُمورِ خواتین (ستمبر 2021) 

خواتین کی سیاست سے بے دخلی میں اگلا قدم اُمورِ خواتین کی وزارت کا خاتمہ تھا۔ 

وہ خواتین ملازمین جو تب بھی اپنا کام جاری رکھنے کی کوشش کر رہی تھیں، اُن کے وزارت میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ 

طالبان حکام نے ابتدا میں بی بی سی کو بتایا کہ وزارتِ اُمورِ خواتین ختم نہیں کی گئی مگر چند دن بعد 17 ستمبر کو اُنھوں نے وزارت کا نام بدل دیا اور اب اس عمارت میں وزارتِ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا دفتر ہے۔ 

سیکنڈری سکول (ستمبر 2021) 

طالبان
Getty Images
ستمبر 2021 میں طالبان کی وزارتِ تعلیم نے صرف مرد طلبہ سے سکولوں میں لوٹنے کے لیے کہا۔

سترہ ستمبر 2021 کو وزارتِ تعلیم کے ایک نیوزلیٹر میں صرف مرد طلبہ و اساتذہ سے یونیورسٹیوں میں لوٹنے کے لیے کہا گیا مگر ساتویں سے 12 ہویں جماعت تک کی لڑکیوں کے سیکنڈری سکول میں لوٹنے کے حوالے سے کچھ نہیں کہا گیا۔ 

افغان خاندانوں کو اُمید تھی کہ نئے تعلیمی سال میں یہ سکول کھلیں گے کیونکہ کچھ طالبان حکام نے عوام کو یہی یقین دلایا تھا۔ 

نیا تعلیمی سال 23 مارچ 2022 کو شروع ہوا اور کئی لڑکیاں سکول گئیں مگر روتی ہوئی واپس آئیں کیونکہ اُنھیں آخری وقت پر سکول میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ 

یہ بھی پڑھیے

پانچ افغان خواتین جو خاموش رہنے کو تیار نہیں

طالبان کا سنائپر جو اب سرکاری ادارے میں ڈائریکٹر ہے

’اُس نے میرے منھ میں بندوق رکھ کر کہا اگر بکواس بند نہ کی تو گولی مار دوں گا‘

طالبان کے وعدوں کے باوجود (29 جنوری 2023 کو) 500 دن گزر چکے ہیں مگر پابندی اب بھی عائد ہے۔ تاہم کچھ علاقوں میں 12 ہویں جماعت کی لڑکیوں کو گذشتہ سال دسمبر میں امتحان دینے کے لیے بلایا گیا تھا۔ 

ٹی وی اور اداکاری (نومبر 2021) 

طالبان
Getty Images
طالبان نے ٹی وی پر خواتین میزبانوں کو سر ڈھانپے بغیر آنے سے منع کر رکھا ہے۔

نومبر 2021 میں افغانستان میں خواتین کے ٹی وی ڈراموں میں آنے پر پابندی عائد کر دی گئی اور خواتین صحافیوں اور ٹی وی میزبانوں کو سکرین پر سر ڈھانپنے کا حکم دیا گیا۔ کئی خواتین میڈیا ورکرز نے سکیورٹی خدشات کے باعث اپنی ملازمتیں چھوڑ دیں اور کچھ ملک چھوڑنے پر مجبور ہو چکی ہیں۔ 

صوتی اداکار بھی ان پابندیوں سے محفوظ نہیں رہے۔ 

سنہ 2001 سے اب تک کئی غیر ملکی ڈرامہ سیریلز کی افغانستان کی مقامی زبانوں میں ڈبنگ کی جاتی رہی جس سے سینکڑوں خواتین کا روزگار وابستہ تھا۔ 

مگر طالبان نے ان سیریلز پر پابندی عائد کر دی اور خواتین اپنی ملازمتیں کھو بیٹھیں۔ ان میں سے کئی اپنے خاندان میں کمانے والی واحد فرد تھیں۔ 

سفر (دسمبر 2021) 

طالبان
Getty Images
طالبان نے خواتین کی نقل و حرکت پر کڑی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔

طالبان نے 26 دسمبر 2021 کو خواتین کے سفر کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی۔ 

وزارتِ امر بالمعروف و نہی عن المنکر نے کار ڈرائیورز میں پمفلٹ تقسیم کیے کہ وہ بے حجاب خواتین کو نہ بٹھائیں جبکہ محرم کے بغیر خواتین کو اکیلے 72 کلومیٹر سے زیادہ دور نہ جانے کی ہدایت کی گئی۔ 

اس کے بعد 27 فروری 2022 کو طالبان نے محرم یا سرپرست کے بغیر خواتین کے غیر ملکی سفر پر بھی پابندی عائد کر دی جسے عالمی برادری نے ’خواتین کو قید کرنے‘ کے مترداف قرار دیا۔

پناہ گاہوں کا خاتمہ (اگست/دسمبر 2021) 

حالیہ کچھ برسوں میں کابل اور اس کے اطراف میں دارالامان کہلانے والے کئی محفوظ ٹھکانے وجود میں آیے تھے جہاں گھریلو تشدد سے فرار ہونے والی خواتین اور لڑکیاں پناہ لے سکتی تھیں۔

جب طالبان نے اقتدار سنبھالا تو ان میں مقیم کئی خواتین روپوش ہو گئیں اور کسی باضابطہ نوٹس کے بغیر یہ گھر غائب ہو گئے۔ 

حجاب (مئی 2022) 

طالبان کی جانب سے کابل کا کنٹرول سنبھالنے کے کچھ دن بعد دارالحکومت کی سڑکوں پر تبدیلی نظر آنے لگی۔ بیوٹی پارلرز اور دیواروں پر موجود خواتین کی تصویروں پر رنگ کر دیا گیا اور ان پر طالبان کے نعرے لکھ دیے گئے جن میں سے کچھ میں خواتین کو حجاب پہننے کے لیے کہا گیا تھا۔ 

طالبان
AFP
کابل پر طالبان کے قبضے سے قبل اس طرح کی تصاویر کابل میں عام دیکھی جا سکتی تھیں۔

جنوری 2022 میں طالبان نے ’حجاب مہم‘ چلائی اور اس حوالے سے کئی بل بورڈز آویزاں کیے گئے۔ 

کچھ ماہ بعد سات مئی کو طالبان نے خواتین کے لیے لباس کے ضوابط متعارف کروائے اور کہا کہ تمام خواتین کو عوامی مقامات پر اپنے چہرے ڈھانپنے ہوں گے ورنہ ان کے ’مرد سرپرستوں‘ کو سزا دی جائے گی۔ 

اس حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا کہ خواتین صرف ضرورت کے وقت ہی گھر سے نکل سکتی ہیں۔ 

دکانداروں سے بھی کہا گیا کہ خواتین کے کپڑوں کی نمائش کے لیے استعمال ہونے والے پتلوں کے سر ڈھانپے جائیں۔ 

ڈرائیونگ (مئی 2022) 

اسی ماہ ہرات صوبے میں ڈرائیونگ سکولز کو کہا گیا کہ وہ خواتین کو ڈرائیونگ کی تربیت نہ دیں۔ 

طالبان نے پہلے تو ایسا کرنے کی تردید کی مگر بعد میں ہرات اور کابل میں کچھ خواتین نے بی بی سی کو تصدیق کی کہ اُنھیں ڈرائیونگ کے سبق لینے اور لائسنس حاصل کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ 

ایک طالبان عہدیدار نے بی بی سی کو بتایا کہ شرعی حجاب کرنے والی خواتین ڈرائیو کر سکتی ہیں مگر ایک دوسرے عہدیدار نے تسلیم کیا کہ ’مرکزی حکومت نے خواتین کو لائسنس کا اجرا بند کر دیا ہے۔‘ 

زبانوں کے کورسز اور مذہبی علوم (ستمبر 2022) 

ستمبر 2022 میں کابل اور دیگر صوبوں میں زبانیں سکھانے والے کچھ اداروں کے مالکان نے بی بی سی کو بتایا کہ طالبان نے انھیں بند کر دیا ہے اور کہا ہے کہ خواتین طلبہ کے لیے خواتین اساتذہ بھرتی کریں اور اُنھیں مرد طلبہ سے علیحدہ پڑھائیں۔ 

کئی خاندانوں نے بھی بی بی سی کو بتایا کہ ان کی نوجوان لڑکیوں کو مسجدوں سے واپس بھیج دیا گیا کیونکہ مولویوں نے کہا کہ وہ اب وہاں مذہبی علوم حاصل نہیں کر سکتیں۔ 

عصری تعلیم (اکتوبر 2022) 

طالبان
Getty Images

اکتوبر 2022 کے پہلے ہفتے میں افغانستان کے 33 صوبوں میں یونیورسٹیوں کے داخلہ امتحانات ہوئے مگر یہ پہلی مرتبہ تھا کہ طالبات کے لیے شعبے محدود کر دیے گئے۔ 

زراعت، ویٹرنری میڈیسن، تعمیراتی انجینیئرنگ اور کان کُنی وہ چند شعبے تھے جن میں کچھ صوبوں میں خواتین کے داخلہ لینے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ 

حالانکہ طالبان حکومت کی وزارتِ اعلیٰ تعلیم نے اس کی تردید کی مگر کچھ طلبہ نے بی بی سی کو تصدیق کی کہ اُن کا پسندیدہ شعبہ اس فارم میں تھا ہی نہیں جو اُنھیں دیا گیا۔ 

دو ہفتے بعد طالبان نے کابل یونیورسٹی میں پوسٹرز لگا دیے کہ خواتین زراعت، بزنس، کمپیوٹر سائنس اور انجینیئرنگ کے شعبوں میں ماسٹرز میں داخلہ نہیں لے سکتیں۔ 

پارکس، خواتین کے حمام اور سپورٹس کلبز (نومبر 2022) 

طالبان
Getty Images
اس طرح کے پارکس میں اب خواتین نہیں جا سکتیں۔

طالبان نے ابتدائی دنوں میں تو خواتین پر پارکس، خواتین کے حماموں اور سپورٹس کلبز یا جمز میں جانے کے حوالے سے کوئی پابندی نہیں لگائی مگر 27 مارچ 2022 کو وزارتِ امر بالمعروف و نہی عن المنکر نے ایک بیان جاری کیا جس میں عوامی پارکس میں خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ دن مختصد کر دیے۔ 

تین ماہ بعد کابل میں خواتین کے لیے مخصوص پارک ’شرارہ باغ‘ کو طالبان نے بند کر دیا۔ 

اس کے بعد 10 نومبر 2022 کو خواتین کے پارکس، حماموں اور سپورٹس کلبز یا جمز میں جانے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ 

وزارتِ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ترجمان عاکف مہاجر نے کہا کہ ’بہنوں نے وہ حجاب نہیں کیا جس کا اُنھیں کہا گیا تھا۔ اس لیا ایسا فیصلہ لینا پڑا۔‘ 

گریجویشن (دسمبر 2022) 

سنہ 2022 کے آخری مہینے میں افغان سوشل میڈیا پر اپنی ٹوپیاں ہوا میں اچھالتے مرد طلبہ کی تصاویر چھائی رہیں مگر ان تمام گریجویشن پارٹیوں سے طالبات واضح طور پر غائب نظر آئیں۔ 

اس کے بعد کئی تازہ فارغ التحصیل طالبات نے بی بی سی کو بتایا کہ ان پر یونیورسٹی کے باہر اپنی گریجویشن کا جشن منانے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ 

اُنھیں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ مرد اساتذہ، یہاں تک کہ ان کے خاندان کے مرد بھی کسی پارٹی میں نہیں شامل ہو سکتے، اگر کسی تقریب میں کوئی مرد استاد نظر آیا تو اسے اس کی ملازمت سے نکال دیا جائے گا اور طلبہ کی اسناد منسوخ کر دی جائیں گی۔ 

بی بی سی نے کابل یونیورسٹی کی انتظامیہ کا ایک خط دیکھا ہے جس میں اساتذہ کو ایسی ہی ہدایات دی گئی ہیں۔ 

یونیورسٹیاں (دسمبر 2022) 

طالبان
AFP
کابل یونیورسٹی اور دیگر تعلیمی ادارے 2022 میں کھل گئے تھے لیکن دسمبر 2022 سے خواتین پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

21 دسمبر 2022 وہ دن تھا جب وزارتِ اعلیٰ تعلیم نے خواتین کے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے پر پابندی عائد کر دی اور لڑکیوں کے لیے تمام نجی و سرکاری یونیورسٹیوں کو ’تاحکمِ ثانی‘ بند کر دیا۔ 

وزیر تعلیم ندا محمد ندیم نے کہا کہ اُنھوں نے یہ فیصلہ ’برائیوں کو روکنے‘ اور ’شریعت نافذ کرنے‘ کے لیے کیا۔ ان کے مؤقف کی وسیع پیمانے پر تردید کی گئی مگر سیکنڈری سکولوں پر پابندی کی طرح طالبان نے اس معاملے میں بھی لوگوں کو اگلے اعلان کے لیے انتظار کرنے کو کہا۔ 

افغانستان کے کئی علاقوں میں میڈیکل کی طالبات اپنی پڑھائی جاری رکھے ہوئے ہیں اور ان پر پابندی عائد نہیں کی گئی ہے۔ 

غیر سرکاری تنظیمیں (دسمبر 2022) 

24 دسمبر 2022 کو طالبان کی حکومت نے تمام ملکی و غیر ملکی غیر سرکاری تنظمیوں میں خواتین کی بھرتیوں پر پابندی عائد کر دی۔ 

ایک خط میں وزارتِ اقتصادیات نے ان تنظیموں سے کہا کہ وہ اپنی خواتین ملازمین کو تاحکمِ ثانی معطل کر دیں۔ 

طالبان نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ’اسلامی حجاب‘ نہیں لے رہیں اور ’دیگر قواعد و ضوابط‘ کی پاسداری نہیں کر رہیں۔ 


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.