انارکلی بازار: جہاں لاہور کی ثقافتی زندگی جھلکتی ہے

image
تاریخی روایات بتاتی ہیں کہ انار کلی مغل بادشاہ اکبر کی کنیز تھیں۔ فلموں، ناولوں اور داستانوں نے اسے رومانوی کہانی کا جیتا جاگتا کردار بنا دیا۔

بہت سارے مؤرخین نے انار کلی کو افسانوی قصہ  قرار دیا ہے۔ ایک کنیز کی داستان عشق کی صداقت کے بارے میں رائے الگ الگ ہو سکتی ہے۔

مگر اس کے نام پر بننے والا بازار تجارت، ثقافت اور معاشرت کےحوالے سے پنجاب کی ملکہ کہلائے جانے کے لائق ہے۔ شاید ہی کوئی لاہور کے تاریخی انارکلی بازار کے بارے میں اس رائے سے اختلاف کرے۔

لاہور صدیوں تک تاریخی دروازوں کے بیچوں بیچ پھیلا پھولا۔ اندرون شہر سے باہر لاہور نے جو پہلا قدم رکھا وہ لوہاری دروازے کے صحن یعنی انارکلی بازار میں تھا۔

آج کا انارکلی بازار لاہور کی بدلتی شکل و شباہت، پھیلتی معشیت اور نئے سانچوں میں ڈھلتی معاشرت کی جیتی جاگتی مثال ہے۔

مال روڈ کے دونوں کناروں پہ پھیلا نیا اور پرانا انارکلی بازار بیرون اور اندرون ملک سے آنے والوں کی دلچسپی کا مرکز رہتا ہے۔ جدید عمارتوں اور رش بھرے بازاروں  کے پہلو بہ پہلو قدیم طرز تعمیر والی گلیوں میں آج بھی ایک صدی قبل کی نشانیاں جابجا ملتی ہیں۔

تقسیم سے قبل لوہاری گیٹ سے نیلا گنبد تک کا علاقہ مذہبی، ثقافتی اور علمی تنوع  کا بھی مرکز ہوتا تھا۔ برصغیر کے مشترکہ ثقافتی ورثے اور سماجی تعامل کے چند مراکز میں سے ایک انارکلی کا علاقہ بھی تھا۔

شاید یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی 1999میں جب لاہور آئے تو انہوں نے انارکلی بازار دیکھنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔

انارکلی حقیقت یا افسانہ          عموماً خیال کیا جاتا ہے کہ اس بازار کا نام مغل بادشاہ اکبر کے دور کی کنیز کے مقبرے کی نسبت سے انارکلی پڑ گیا۔ مال روڈ پر واقع سکریٹریٹ کی عمارت میں واقع انارکلی کا مقبرہ مغلیہ فن تعمیر کا نادر نمونہ ہے۔ اس میں موجود قبر کے تعویذ پر نقش تحریر میں یہاں مدفون ہستی کی کا سن وفات 1599 لکھا ہے۔

نادرہ بیگم یا شرف النساء نامی کنیز کو مغل دور میں کابل کے گورنر راجہ موہن سنگھ نے اکبر کے دربار میں بھیجا تھا (فوٹو: اردو نیوز)

ساتھ ہی مجنون سلیم اکبر کے الفاظ کنندہ ہیں۔ جس سے اس خیال کو تقویت ملی کہ یہ شہنشاہ جہانگیر کی محبوبہ انارکلی کا مقبرہ ہے۔

نادرہ بیگم یا شرف النساء نامی کنیز کو مغل دور میں کابل کے گورنر راجہ موہن سنگھ نے اکبر کے دربار میں بھیجا تھا۔ اس کے بے مثال حسن کی وجہ سے بادشاہ نے انارکلی کا خطاب دیا۔

کہا جاتا ہے کہ اکبر نے شاہی دربار میں انار کلی اور شہزادہ سلیم کے درمیان مسکراہٹوں کے تبادلوں کو ان کے دلوں میں پلتی محبت کا مظہر جان کر انارکلی کو بطور سزا دیوار میں چنوا دیا۔

شہزادہ سلیم جہانگیر  کے نام سے ہندوستان کے تخت پر براجمان ہوا۔ 1615 میں اس نے اپنی محبوبہ کی یاد میں یہ عظیم الشان مقبرہ تعمیر کروایا۔

سکھوں کے دور میں یہ مقبرہ رنجیت سنگھ کے بیٹے کھڑک سنگھ کی رہائش گاہ بنا رہا۔ برطانوی راج میں پہلے اسے چرچ میں بدلا گیا بعد میں سرکاری ریکارڈ کا دفتر بنا دیا گیا۔

انار کلی کا مقبرہ آج آثار قدیمہ کے ادارے کے زیر استعمال مخطوطات اور پرانے ریکارڈ کو محفوظ رکھنے کے مرکز کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔

نذیر احمد چودھری نے اپنی کتاب ’شارٹ ہسٹری آف لاہور‘ میں تاریخ دان اور ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر احمد نبی کے حوالے سے ان تمام باتوں کو افسانوی قرار دیا ہے۔

ان کے مطابق جہانگیر کی ذاتی زندگی کا احاطہ کرتی خود نوشت ’تزک جہانگیری‘ میں اس واقعے کا حوالہ نہ ملنا اس کے بے بنیاد ہونے کا ثبوت ہے۔

اس کے علاوہ دور جہانگیری کے دیگر معاصر تاریخ نویس عبدالقادر بدایونی کا اتنے بڑے واقعے پر قلم نہ اٹھانا یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ ایک قصہ بعد کے ادوار میں گھڑا گیا۔

عبدالحلیم شرر کے ناول اور امتیاز علی تاج کے ڈرامے نے انارکلی کے کردار کو افسانوی سے حقیقی بنا دیا (فوٹو: انڈین ہسٹری)

ڈاکٹر احمد نبی نے اپنی تحقیق میں یہ ثابت کیا ہے کہ انار کلی کے انتقال کے برس نہ تو اکبر اور نہ ہی جہانگیر لاہور میں موجود تھے۔ وہ ہندوستان کے دیگر علاقوں میں فوجی مہمات میں مصروف تھے۔

پھر سوال یہ ہے کہ یہ داستان کہاں سے آئی اور لوگوں کے لیے حقیقت کیسے بن گئی؟

1611 میں ایک انگریز سیاح اور تاجر ولیم فنچ لاہور آیا اور چھ ماہ مقیم رہا۔ واپسی پر اس کی ڈائری میں لاہور کے تذکرے میں انارکلی اور سلیم کی داستان عشق اور اسے دیوار میں چنوانے  کا ذکر موجود تھا۔

لاہور کا ماضی اور مستقبل نامی کتاب کے مصنف ڈاکٹر باقر کے مطابق ولیم فنچ نے لاہور کے گلی محلوں میں گشت کرتی یہ رومانوی داستان سن کر اسے اپنے انداز میں بیان کر دیا۔ یوں یہ انارکلی اور سلیم کی تاریخی داستان کا حوالہ بن گیا۔

آنے والے دور میں عبدالحلیم شرر کے ناول اور امتیاز علی تاج کے ڈرامے نے انارکلی کے کردار کو افسانوی سے حقیقی بنا دیا۔ پاکستان اور ہندوستان میں اس داستان پر بننے والی فلموں خاص کر مغل اعظم سے یہ رومانوی کہانی تاریخی کرداروں میں ڈھل گئی۔

برطانوی دور کے انگریز افسر کرنل ایچ آر گولڈنگ قدیم لاہور کے بارے میں اپنی کتاب میں انارکلی بازار کا بھی ذکر کرتے ہیں۔

اس کے مطابق مغل دور میں یہ جگہ باغات اور دلکش عمارتوں پر مشتمل تھی۔ ساتھ ہی دریائے راوی بہتا تھا۔ یہاں شہزادوں اور امراء کی خریداری کے لیے بازار  لگا کرتا تھا جسے بعد میں انارکلی بازار کہا جانے لگا۔

مہاراجہ رنجیت سنگھ نے جب لاہور فتح کیا تو لوہاری گیٹ سے داخلے سے پہلے اس کی سپاہ  انارکلی میں مقیم رہی۔ انگریز دور میں صنعتی نمائش کے لیے تعمیر ہونے والی ٹولٹن مارکیٹ اسی انارکلی بازار میں واقع ہے۔

جدید لاہور کی پہلی مارکیٹ کی قدیم عمارت آج کل نیشنل کالج آف آرٹس کے حوالے کی گئی ہے۔ اس کی مرمت اور بحالی کے بعد یہاں میوزیم قائم کیا جائے گا۔

پہلی جنگ عظیم کے بعد انار کلی بازار کی وسعت اور شوکت دوچند ہو گئی (فوٹو: اردو نیوز)

ثقافت، سیاست اور معیشت کا مرکز   

پہلی جنگ عظیم کے بعد انار کلی بازار کی وسعت اور شوکت دوچند ہو گئی۔ اس دور میں یہ شمالی ہند کا پر رونق علاقہ اور خریداروں کی منزل ہوا کرتا تھا۔

بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں یہ بازار بدلتے سماجی اقدار اور معاشرت میں در آنے والی تبدیلی کا مظہر تھا۔ سماجی رتبے اور جدید بود و باش کی علامت کا اظہار اس کے بارے میں مشہور ہونے والی کہاوتوں اور ضرب الامثال سے ہوتا ہے۔

میں ہن انگریزی پڑھ گی آں     

تے انارکلی چوں ودھ گی آں     

انارکلی کے بازار مختلف اشیاء ضروریہ اور پیشوں کے لیے مختص ہو گئے جیسے کماری بازار، بانو بازار، ڈبی بازار، جوتی بازار اور لنڈا بازار۔

لوہاری دروازے کی طرف سے سرکلر روڑ کے کناروں سے نیلا گنبد تک اکثر دکانیں ہندوؤں کی ہوا کرتی تھیں جن میں کپڑوں کی مشہور دکان دونی چند اینڈ سنز اور موہن لال اینڈ سنز مشہور تھی۔

شہر کے کاروباری ہندو کچھ مذہبی تصورات کی وجہ سے جوتوں کے کاروبار سے دور رہتے تھے۔ مگر دھنی رام بھلہ نے اس روایت کو توڑ ڈالا۔ نتیجتاً انہیں اپنی برادری کی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔

’بھلہ شوز کمپنی‘ اس دور میں لاہور کی مشہور دکان تھی جو اپنے گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لیے شاعری اور اشتہارات  کا سہارا لیتی تھی۔ دھنی رام بھلہ کاروبار کے ساتھ ساتھ سیاسی سرگرمیوں کے بھی رسیا تھے۔

لاہور میں پلے بڑھے بھارتی صحافی اور ادیب پرآن نوایل نے انہیں انارکلی بازار میں اپنی دکان کے سامنے پنڈت جواہر لال نہرو پر نوٹ نچھاور کرتے دیکھا تھا۔

لاہور کا یہ تجارتی علاقہ آزادی سے قبل سیاسی اور مزاحمتی تحریک کے حوالے سے بھی جانا جاتا تھا۔

انارکلی تھانہ کی 160 سالہ قدیم تاریخی عمارت کو حالیہ عرصے میں محکمہ آثار قدیمہ نے اصل حالت میں بحال کیا ہے (فوٹو: اردو نیوز)

انارکلی تھانہ کی 160 سالہ قدیم تاریخی عمارت کو حالیہ عرصے میں محکمہ آثار قدیمہ نے اصل حالت میں بحال کیا ہے۔ اس عمارت میں برصغیر کی جدوجہد آزادی کے تین لازوال کرداروں بھگت سنگھ، سکھ دیو اور راج گرو کو گرفتار کرنے کے بعد رکھا گیا تھا۔

23  مارچ 1940 کو منظور ہونے والی قرارداد پاکستان کے تاریخی اجلاس سے تین دن قبل انار کلی میں خاکسار تحریک کے حامیوں اور پولیس کی خونریز جھڑپ  نے شہر میں کشیدگی اور خوف کی فضا پیدا کر دی تھی۔

مسلم لیگ نے پہلی بار پاکستان کا مطالبہ اسی اجلاس میں کیا۔ اس سے گیارہ برس قبل آل انڈیا کانگریس کے لاہور میں ہونے والے اجلاس میں پہلی بار ہندوستان کی مکمل آزادی کا مطالبہ کیا گیا۔

پران نو ایل نے اپنی کتاب Lahore : A Sentimental Journey میں انارکلی میں واقع اپنے گھر کی بالکونی سے کانگریس کے جلوس کا آنکھوں دیکھا احوال بیان کیا ہے۔

ان کے مطابق پنڈت نہرو ایک سفید گھوڑے پر سوار انارکلی سے گزر رہے تھے۔ جبکہ سڑک کے دونوں اطراف لوگوں کا ہجوم انہیں دیکھ کر نعرے لگا رہا تھا۔

علامہ اقبال انارکلی میں        

لاہور کی ثقافتی زندگی کی چہل پہل میں انارکلی کا نمایاں حصہ تھا۔ منشی محبوب عالم کے مقبول عام صحافت کا نمائندہ پیسہ اخبار کا دفتر یہیں تھا۔ اخبار تو مدت ہوئی بند ہو گیا مگر اس کے نام پر پیسہ سٹریٹ ابھی بھی موجود ہے۔

اسی گلی میں مشہور شاعر ساحر لدھیانوی کا ٹھکانہ ہوا کرتا تھا۔ ساحر کے ذکر سے پنجابی کی معروف شاعرہ امرتا پریتم کا نام ذہن میں آتا ہے۔ ان کی شادی انار کلی ہی کے ایک تاجر کے بیٹے پریتم سنگھ سے ہوئی تھی۔

پان گلی میں روزنامہ پرتاب کا دفتر واقع تھا۔ مشہور شاعر احسان دانش کی رہائش اسی گلی میں تھی۔ تقسیم سے قبل اور بعد کے معتبر ادبی جریدے محزن اور نقوش انارکلی سے شائع ہوتے رہے۔

علامہ محمد اقبال 1923 تک انارکلی میں مقیم رہے (فوٹو: دی پرنٹ)

لاہور کے ادیبوں اور دانشوروں کا ایک مرکز عرب ہوٹل ہوتا تھا۔ شہر کے ادب نواز چائے خانوں میں دوسرا نام نگینہ بیکری کا تھا۔ انارکلی میں 1926 میں کھلنے والی یہ دکان اس دور کی نامور ادبی شخصیات کا ٹھکانہ ہوتی تھی۔

علامہ محمد اقبال 1923 تک انارکلی میں مقیم رہے۔ ان کی رہائش آج کی شوکت سٹریٹ میں راجہ برادرز کی دکان کے اوپر والے حصے میں ہوتی تھی۔

انار کلی میں اتر چند کپور اینڈ سنز کے نام سے اردو اور پنجابی کتابوں کی مشہور دکان ہوا کرتی تھی۔ اس کے مالک لالہ عطر چند علامہ اقبال کے قریبی دوستوں میں سے تھے۔

ان کے انتقال پر مرحوم کے بیٹوں نے جائیداد کی تقسیم کے لیے اپنا معاملہ قریبی رشتہ داروں کے بجائے اقبال کے ہاں پیش کیا۔ ان کے فیصلے کو مرحوم کے دونوں بیٹوں نے خوش دلی سے قبول کیا اور اس پر کاربند رہے۔

فاطمہ جناح میڈیکل کالج کیسے بنا؟ 

انارکلی سے اردو بازار کو راستہ نکلتا ہے۔ جہاں پبلشرز اور بک سیلرز کے گودام اور دفاتر واقع ہیں۔ قیام پاکستان سے قبل اس کا نام موہن لال روڈ ہوا کرتا تھا۔ کتابوں کے اس بازار میں نئی اور پرانی دونوں قسم کی کتابیں ملتی تھیں۔

ڈبی بازار میں کتابوں کی ایک ایسی دکان بھی تھی جس کے مالک نابینا تھے۔ مشہور ادیب اے حمید اپنی کتاب ’لاہور لاہور اے‘ میں ان کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ وہ مختلف شیلفوں میں لگی کتابوں کو ہاتھ لگا کر ان کا نام بتا دیتے تھے۔ سرسید احمد خان اور الطاف حسین حالی ان کے ملنے والوں میں سے تھے۔

بیلی رام کے نام سے انار کلی میں دواؤں کی سب سے بڑی دوکان واقع تھی۔ پنجاب میں ادویات کی سپلائی میں اس کا اس قدر حصہ تھا کہ تقسیم کے بعد حکومت پاکستان نے اس کے مالک سے درخواست کی کہ وہ کچھ عرصے تک اپنا کاروبار انڈیا منتقل نہ کریں تاکہ مریضوں کو دواؤں کی قلت نہ ہو۔

اس کے مالک بالک رام نے کوئینز روڈ پر لڑکیوں کے لیے میڈیکل کالج کی بلڈنگ کی تعمیر شروع کی۔ یہ منصوبہ ابھی تکمیل کے مراحل میں تھا کہ تقسیم نے انہیں ہجرت پر مجبور کر دیا۔

لاہور کی بدلتی تاریخ کو کیمرے کی آنکھ میں قید کرنے والے مشہور فوٹو گرافر ایف ای چودھری کے انٹرویو پر مبنی کتاب ’اب وہ لاہور کہاں‘ کے مطابق پاکستان کے قیام کے بعد ڈاکٹر شجاعت علی امرتسر سے لاہور آئے۔

محترمہ فاطمہ جناح نے اس ادارے کا افتتاح کیا۔ اسی نسبت سے یہ ادارہ آج فاطمہ جناح میڈیکل کالج کہلاتا ہے (فوٹو: ایف جے ایم یو)

انہوں نے میواسپتال سے وابستگی اختیار کی۔ ساتھ ہی وہ لڑکیوں کی میڈیکل کی تعلیم کا ادارہ بنانا چاہتے تھے جس کے لیے انہوں نے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو قائل کر لیا کہ بالک رام کی بلڈنگ کو میڈیکل کالج بنایا جا سکتا ہے۔

اپنی دوڑ دھوپ سے انہوں نے خطیر رقم اکٹھی کر لی۔ محترمہ فاطمہ جناح نے اس ادارے کا افتتاح کیا۔ اسی نسبت سے یہ ادارہ آج فاطمہ جناح میڈیکل کالج کہلاتا ہے۔

تقسیم ہند کے بعد بدترین فسادات کی ذد میں لاہور بھی آیا۔ ایسے میں انارکلی کے مسلمان اور ہندو دکانداروں نے سمجھوتا کر لیا کہ بازار کو تباہ نہیں ہونے دیں گے۔

مگر ایک دن فسادات کی آگ انارکلی تک آ گئی۔ صحافی اور دانشور گوپال متل اپنی کتاب ’لاہور کا جو ذکر کیا‘ میں لکھتے ہیں کہ کچھ غنڈے راجہ برادر کی دکان کے تالے توڑ رہے تھے۔ کراکری کی مشہور دکان بیجا مل اینڈ سنز کے مالک کا مقامی حکام سے قریبی تعلق کام کر گیا۔

انہوں نے انگریز ایس پی کو فون کر کے جائے واردات پر بلا لیا۔ جس نے اپنے ہاتھ سے مشین گن چلا کر تین فسادیوں کو ہلاک کر دیا۔ یوں باقی شرپسند بھاگ کھڑے ہوئے اور انارکلی بازار محفوظ رہا۔

’انار کلی دیاں شاناں‘    

انارکلی لاہور کے قدیم حصے اندرون شہر اور جدید رہائشی اور تجارتی مراکز ماڈل ٹاؤن اور گلبرگ کے بیچ میں ایسا گوشہ ہے جس میں قدامت اور جدت کے رنگ ملتے ہیں۔ لاہور کی سیر کے لیے آنے والا جب تک انارکلی کی رونقیں نہ دیکھ لے لاہور دیکھنے کا احساس ہی نہیں جاگتا۔

مال روڈ کے اطراف لاہور کے قدیم تعلیمی ادارے اور ان کے ہاسٹلز واقع ہیں جن میں پورے پاکستان سے آنے والے طلبہ و طالبات انارکلی کی رونق بڑھاتے ہیں۔

لذیذ کھانوں کے ٹھکانوں سے جگمگاتی دکانوں کے برآمدوں تک مٹرگشت کرتے نوجوانوں کی ٹولیوں کے خیالوں میں شاید اس رومانوی داستان کا کوئی پہلو موجود رہتا ہو۔

اردو کے مشہور مزاحیہ شاعر انور مسعود نے بھی اپنے دور طالب علمی میں اسی بازار میں گھومتے ہوئے انار کلی کی رونقوں کو نظم کی صورت میں اس طرح  قلمبند کیا تھا۔

’توں کی جانے بھولیے مجے، انارکلی دیاں شاناں‘ 


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.