کشمیر کی وہ روایت جسے توڑنے کے لیے خواتین کو خود ہریسہ شاپ جانا پڑا

600 سال سے ہریسہ کشمیریوں کا ناصرف محبوب پکوان ہے بلکہ سردیوں میں ایک دفاعی حربہ بھی۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال ہریسے کی طلب میں اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن خواتین اب تک کسی دکان میں جا کر مردوں کی طرح ہریسہ نہیں کھا سکتی تھیں۔
harissa
BBC

نومبر کی ٹھٹھرتی صُبح جب سرینگر کی بُشریٰ جامی نے اپنی گاڑی سٹارٹ کی تو شیشوں پر جمے کوہرے کو گرم پانی سے صاف کرنا پڑا۔

سخت سردی اور شدید کہرے کے باوجود وہ گھر سے نکلیں اور باقی سہیلیوں کے ساتھ پُرانے سرینگر کے فتح کدل میں ملیں، جہاں 150 سال سے مشہور سلطانی ہریسہ دکان ہے۔

اُن کے گروپ کی سربراہ منتشا بنتِ رشید پہلے سے ہی دکان کے قریب پہنچ چکی تھیں۔ اس گروپ نے سردیوں میں صبح سویرے ہریسہ شاپس پر صرف مردوں کے جانے کی روایت کو توڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔

بُشریٰ کہتی ہیں کہ ’میں تو بچپن سے ہریسہ کھاتی رہی ہوں لیکن گھر کے مرد خرید کر لاتے تھے اور گھر کی خواتین کھاتی تھیں۔ سوال یہ ہے کہ جو خواتین خود ہریسہ شاپ پر جا سکتی ہیں وہ مردوں کی ہی طرح وہیں پر جا کر کیوں نہیں کھا سکتیں۔‘

harissa shop
BBC

منتشا بنتِ رشید کہتی ہیں کہ کشمیری خواتین میں کافی حد تک بیداری پیدا ہوچکی ہے اور اب زندگی کے تقریباً ہر شعبہ میں خواتین سرگرم ہیں۔

’لیکن کچھ چیزیں اب بھی ہیں جنھیں خواہ مخواہ عورتوں کے لیے ممنوع سمجھا جا رہا ہے۔ اس میں ہریسہ شاپ پر جانا بھی شامل ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’صبح صبح گھر سے نکل کر چند سہیلیوں کے ساتھ ہریسے کا لطف لیتے ہوئے ہینگ آؤٹ کرنا جیسا مردوں کا حق ہے، ویسا ہی عورتوں کا بھی ہے۔‘

اس گروپ میں شامل ایک خاتون ڈاکٹر ریحانہ کوثر کہتی ہیں کہ انھیں خدشہ تھا کہ مردوں سے کھچا کھچ بھری ہریسہ شاپ پر لوگ کیسا ردعمل دکھائیں گے۔

harissa
BBC

’مُجھے تو ڈر تھا، لیکن یہاں آ کر معلوم ہوا کہ ایسا کچھ نہیں۔ ہمیں کسی نے گھور کر یا حیران ہوکر نہیں دیکھا۔ یہاں بہت بھیڑ تھی اور مردوں نے تو ہمیں آگے جانے کے لیے جگہ دے دی۔ یہ سب ہمارے دماغ میں ہے، اور جب واقعی عورتیں باہر آ کر مردوں کی سپیس میں اپنی جگہ ڈھونڈ لیں گی تو سبھی غلط تاثرات ختم ہوجائیں گے۔‘

فتح کدل کی ہریسہ شاپ پر واقعی بہت بھیڑ تھی۔ سب لوگ اپنی باری کا انتظار کررہے تھے۔ تاہم منتشا اور بشریٰ کا گروپ بھی داخل ہوا اور ایک کونے میں اپنی جگہ بنا لی۔

گروپ میں شامل خاتون رابعہ اختر کے قریب ہی بیٹھے ایک گاہک ڈاکٹر عمر فاروق نے سبھی خواتین کو اشارے سے یقین دلایا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔

ڈاکٹر عمر نے بی بی سی کو بتایا: ’خواتین کا سخت سردی میں صبح صبح گھر سے نہ نکلنا کسی جبر کا نتیجہ نہیں۔ اس میں کئی فیکٹر ہیں۔ سردی ہوتی ہے، کسی کا بچا چھوٹا ہوتا ہے یا گھریلو مصروفیات وغیرہ۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ خواتین کا ہریسہ شاپ پر آنا کوئی جرم یا گناہ ہے۔‘

’یہ تو اچھی بات ہے۔ مِکسِڈ کراوٴڈ (مردو خواتین کی بھیڑ) سے یہ کلچر اور بھی اچھا لگتا ہے۔ یہ بہت ہی اچھی تبدیلی ہے۔‘

ہریسہ
BBC

کشمیر کی ثقافتی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے کالم نویس عبدالقیوم شاہ کہتے ہیں کہ 14ویں صدی کے دوران ایران اور مشرقِ وسطیٰ سے کشمیر آنے والے مسلم مبلغین نے ہریسہ کو یہاں متعارف کرایا تھا۔

ہمدان سے سیّد علی نام کے مبلغ یہاں سینکڑوں سادات کے ساتھ آئے تھے۔

انھوں نے یہاں کے موسم کی مناسبت سے کئی پکوان متعارف کرائے جن میں ہریسہ اور زعفران قابل ذکر ہیں۔

600 سال سے ہریسہ کشمیریوں کا ناصرف محبوب پکوان ہے بلکہ سردیوں میں ایک دفاعی حربہ بھی۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال ہریسے کی طلب میں اضافہ ہوتا ہے۔

ہریسہ
BBC

سلطانی ہریسہ شاپ کے مالک عمر سلطان بھی خواتین کی آمد پر خوش ہیں۔

’کبھی کبھار کوئی خاتون آ جاتی تھی، لیکن وہ برتن میں ہریسہ گھر لے جاتی تھی۔ لیکن اگر یہ ٹرینڈ عام ہوا تو ہمارا بھی بھلا ہی ہوگا۔‘

وہ اب سوچ رہے ہیں کہ ’اگلے سال خواتین کے لیے بیٹھنے کا بہتر اور مناسب انتظام کروں۔‘

قابل ذکر بات یہ ہے کہ چند برس قبل تک کشمیرمیں خواتین ریستورانوں پر بھی اکیلی نہیں دکھائی دیتی تھیں۔ تاہم اب ریستورانوں پر لڑکیاں اور خواتین اعتماد کے ساتھ کھاتی پیتی دکھائی دیتی ہیں۔

منتشا کہتی ہیں کہ ’بہت ساری سپیسِز ہیں جہاں ابھی بھی عورت کا جانا پسند نہیں کیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اب پہاڑوں کی ٹریکنگ بھی کرنے لگے ہیں تاکہ خواتین میں یہ اعتماد پیدا ہو کہ اپنی حفاظت کو یقینی بنا کر وہ کسی بھی پسندیدہ سرگرمی کا حصہ بن سکتی ہیں۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.