’روڈامین بی‘: کاٹن کینڈی کو کینسر کا سبب بنانے والا کیمیائی رنگ جو پاکستان میں بھی استعمال ہو رہا ہے

کاٹن کینڈی کا شوخ گابی رنگ کینسر کا سبب بن سکتا ہے۔ انڈیا کی ایک ریاست میں اس پر پابندی لگ گئی ہے جبگہ دیگر ریاستیں اس بارے میں سوچ رہی ہیں۔ پاکستان میں بھی کہا جاتا ہے اس کیمیائی رنگ کا استعمال کھانوں میں کیا جاتا ہے۔
کاٹن کینڈی
Getty Images

کیا آپ نے کبھی سوچا کہ دنیا بھر میں بچوں کی خوشی اور سیر و تفریح کے لطف کو دوبالا کرنے والی کاٹن کینڈی جسے انڈیا اور پاکستان میں چینی کے رنگ برنگے لچھے، بڈی کے بال یا گڑیا کے بال بھی کہا جاتا ہے، کینسر کی کی وجہ بن سکتی ہے؟

انڈیا کی چند ریاستوں میں انتظامیہ کے خیال میں ایسا ہی ہے اور اسی لیے انھوں نے کاٹن کینڈی کی فروخت پر پابندی عائد کر دی ہے۔

گذشتہ ہفتے انڈیا کی ریاست تمل ناڈو میں اس مٹھائی پر بابندی لگ گئی ہے کیونکہ اس کے لیب ٹیسٹ سے تصدیق ہوا کہ اس میں ’روڈامین بی‘ موجود ہے جس سے کینسر ہو سکتا ہے۔

اس مہینے کے اوائل میں انڈیا کی وفاقی حکومت کے زیر انتظام علاقے پانڈچیری میں اس پر پابندی لگ گئی تھی جبکہ دیگر ریاستوں نے نمونوں کی ٹیسٹنگ شروع کر دی ہے۔

کاٹن کینڈی کو بچے بہت پسند کرتے ہیں کیونکہ یہ چپچپی ہوتی ہے اور منہ میں گھل جاتی ہے۔ یہ اکثر تفریحی مقامات پر فروخت ہوتی ہے۔

لیکن انتظامیہ کے کچھ اہلکاروں کا خیال ہے کہ جتنی عام یہ مٹھائی دکھائی دیتی ہے اس کے برعکس یہ کافی خطرناک ہے۔

چنئی شہر میں فوڈ سیفٹی آفیسر پی ستیش کمار نے انڈین ایکسپریس اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کاٹن کینڈی میں موجود مواد ’کینسر کا باعث بن سکتا ہے اور اس سے جسم کے تمام اعزاز پر اثر پڑ سکتا ہے۔‘

گذشتہ ہفتے ستیش کی ٹیم نے ساحل سمندر پر ریڈ مارے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ شہر میں بکنے والی یہ مٹھائی رجسٹرڈ فیکٹریاں نہیں بلکہ عام دکاندار بیچ رہے ہیں۔

کاٹن کینڈی
Getty Images

اس کے چند دنوں بعد انڈین حکومت نے کاٹن کینڈی پر پابندی لگا دی جب ان کے نمونوں میں روڈامین بی کی موجودگی پائی گئی۔

یہ کیمیکل شوخ گلابی یا سرخ رنگ دیتا ہے اور اسے ٹیکسٹائل، کاسمیٹکس اور سیاہی کو رنگنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

مطالعات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کیمیکل سے کینسر کے خطرے میں اضافہ ہو جاتا ہے، یورپ اور کیلیفورنیا میں اسے کھانے میں استعمال ہونے والے رنگ کے طور پر استعمال پر پابندی عائد ہے۔

کاٹن کینڈی پر پابندی لگاتے ہوئے وزیر صحتما سبرامنیم نے بیان میں کہا ’کھانے کی پیکنگ، درآمد، فروخت یا شادیوں اور دیگر عوامی تقریبات میں روڈامین بی پر مشتمل کھانا پیش کرنا فوڈ سیفٹی اینڈ سیفٹی ایکٹ 2006 کے تحت قابل سزا ہو گا۔ دیگر عوامی تقریبات میں قابل سزا ہوگا۔‘

تمل ناڈو کے ساتھ موجود آندرا پردیش کی ریاست نے بھی اس مٹھائی کی ٹیسٹنگ شروع کر دی ہے۔

اور اس ہفتے کے اوائل میں نیو انڈین ایکسپریس اخبار نے رپورٹ کیا کہ انڈیا کے دارالحکومت دلی میں بھی فوڈ سیفٹی افسران کاٹن کینڈی پر پابندی لگانے پر زور دے رہے ہیں۔

کاٹن کینڈی
Getty Images

پاکستان میں انڈسٹریل رنگ کا کھانوں میں استعمال: ’یہ چیز بہت زیادہ تباہی مچا رہی ہے‘

صحافی اور فوڈ سیفٹی ایکسپرٹ محسن بھٹی نے بی بی سی اردو کے نامہ نگار حسن عباس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ان ملکوں میں شامل ہے جہاں انڈسٹریز یا ٹیکسٹائل میں استعمال ہونے والے رنگ کھانوں میں استعمال ہوتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں یہ رنگ ’بچوں کی ٹافیز اور جیلیز میں استعمال ہوتی ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ چھوٹی فیکٹریوں میں یہ رنگ استعمال ہوتے ہیں اور ان سے بنی چیزیں گلی محلے کی چھوٹی دکانوں پر بکتی ہیں اور ان کے نام اور پیکٹ بڑے برانڈ جیسے ہوتے ہیں تو لوگوں کو نہیں پتا چلتا کہ وہ کیا کھا رہے ہیں۔

انھوں نے بتایا ’جلیبیوں میں بھی یہ استعمال ہوتے ہیں، مٹھائیوں میں استعمال ہوتے ہیں، ہمارے مسالحے ہیں جیسے ہلدی اور مرچیں جن میں بھی انھیں استعمال کیا جاتا ہے۔ لہذا ہمارے کھانے پینے کی بہت سی اشیا ہیں جن میں ٹیکسٹائل ڈائز استعمال ہوتی ہیں۔‘

پاکستان میں رہوڈامین کے استعمال پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ کیونکہ اس کا رنگ سرخ ہوتا ہے تو اسے کھانوں میں پسند کا رنگ دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

انھوں نے بتایا ’بہت سارے لوگ ہمارے یہاں شوربا اور کھانے کا سرخ رنگ پسند کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ان کی آنکھوں کو یہ رنگ بھاتا ہے۔ ہماری مرچوں کی قدرتی رنگت اتنی سرخ نہیں ہوتی، ان سے بہت کم سرخی آتی ہے۔ اس کو خوشنما بنانے کے لیے اس میں روڈامائین بی ڈالا جاتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ پیک ہوئے مسالوں پر تو فوڈ اتھارٹیز کا بڑی حد تک کنٹرول ہوتا ہے لیکن کھلے مسالوں میں ایسے رنگ ملتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’بہت سے ریستورانوں میں بھی پیک مسالہ جات کے بجائے کھلے استعمال ہوتے ہیں۔ آج بھی ہماری دکانوں پر کھلے مسالے ملتے ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ جب تک ٹیکسٹائل میں استعمال ہونے والے رنگوں کی درآمد کی کڑی نگرانی نہیں ہوتی یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکے گا۔

انھوں نے کہا ’امپورٹ تو ٹیکسٹائل کے لیے ہوتی ہے یا مختلف صنعتی استعمال کے لیے لائی جاتی ہے لیکن اس کے بعد اس کی خرید و فروخت کی نگرانی نہیں ہوتی ہے کہ یہ کتنی مقدار میں آئی اور یہ کہاں کہاں گئی۔ ‘

محسن بھٹی کا کہنا ہے کہ یہ رنگگردوں کے لیے نقصان دے ہوتے ہیں، جگر کو بھی خراب کرتے ہیں اور اس سے ہونے والا نقصان بڑھتے بڑھتے کینسر کی شکل انختیار کر لیتا ہے۔

انھوں نے کہا ’اس وقت یہ چیز معاشرے میں بہت زیادہ تباہی مچا رہی ہے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.