نیو بلڈ: ’میری رگوں میں دوڑنے والا خون ناصرف نایاب ہے بلکہ نومولود بچوں کی جان بھی بچا سکتا ہے‘

مجھے ہمیشہ سے اس بات پر فخر ہے کہ میں خون کا عطیہ دیتی ہوں۔ میرا خون ’بی نیگیٹو‘ ہے جو کافی نایاب ہے اور حال ہی میں مجھے معلوم ہوا کہ میرا خون برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) کے لیے مزید قیمتی ہے کیونکہ یہ خون نومولود بچوں کو بھی لگایا جا سکتا ہے۔

مجھے ہمیشہ سے اس بات پر فخر ہے کہ میں خون کا عطیہ دیتی ہوں۔ میرا خون ’بی نیگیٹو‘ ہے جو کافی نایاب ہے اور حال ہی میں مجھے معلوم ہوا کہ میرا خون برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) کے لیے مزید قیمتی ہے کیونکہ یہ خون نومولود بچوں کو بھی لگایا جا سکتا ہے۔

جب میں پچلی بار خون کا عطیہ دینے گئی تو عطیہ لینے والی خاتون نے میرے بازوں میں سوئی ڈالتے ہوئے مجھ سے پوچھا ’بہت اچھا محسوس ہوتا ہو گا کہ آپ نیو (Neo) ہیں۔‘

میرے چہرے پر حیرانی کو دیکھ کر انھوں نے خون کی بوتل کی طرف اشارہ کیا جس میں میرا خون جمع ہونا تھا، اس بوتل پر ایک نیلا ٹیگ لگا ہوا تھا اور اس پر بڑے حروف میں ’نیو‘ لکھا ہوا تھا۔

انھوں نے مجھے سمجھایا کہ ’آپ کا خون بہت خاص ہے، یہ ایسے ننھے مریضوں کی مدد کر سکتا ہے جنھیں خون کی ضرورت ہوتی ہے۔‘

نیو کا مطلب ہے ’نیو نیٹل‘ یعنی نوزائیدہ یا نومولود ہے۔ یہ وہ اصطلاح ہے جو 28 دن سے کم عمر کے بچوں کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

جب میرا خون جمع ہو رہا تھا تو مجھے جلدی سے بتایا گیا کہ کیسے عطیے کے بعد خون کو ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ مجھے یہ پتا چلا کہ کچھ مریضوں، جن میں نومولود بچے بھی شامل ہیں، انھیں مخصوص خون چاہیے ہوتا ہے۔

میں اس بارے میں مزید جاننا چاہتی تھی تو میں نے ڈاکٹر اینڈی چارلٹن سے بات کی جو این ایچ ایس کے بلڈ اینڈ ٹرانسپلانٹ میں کنسلٹنٹ ہیں۔

انھوں نے مجھے بتایا کہ عطیہ کیے گئے تمام خون کا ایچ آئی وی، ہیپاٹائٹس بی، سی اور ای اس کے علاوہ سفیلس کا ٹیسٹ ہوتا ہے۔

جب یہ مرحلہ مکمل ہو جاتا ہے تو کچھ نمونوں کا مزید ٹیسٹ ہوتا ہے تاکہ یقینی بنایا جائے کہ یہ ایسے مریضوں کے لیے موزوں ہے جنھیں مخصوص قسم کا خون چاہیے ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر کچھ لوگوں کو خون میں موجود پروٹینز سے الرجی ہوئی تھی تو ان کے لیے خون سے پروٹین کو ’صاف‘ کر دیا جاتا ہے۔

کامن وائرس

وہ خون جو نومولود بچوں کو لگنا ہوتا ہے، یا اُن مریضوں کو لگنا ہوتا ہے جن کی قوت مدافعت کمزور ہو، یا حاملہ خواتین کو دیا جانا ہو یا بچہ دانی کے اندر جنین میں منتقل کرنا ہو تو ایسے خون میں سائٹو میگالووائرس یا سی ایم وی کو سکرین کیا جاتا ہے۔

یہ ایک قسم کا ہرپیز وائرس ہے اور بہت عام ہے اور عام طور پر نقصان دہ بھی نہیں ہوتا مگر جس کی وجہ سے فلو جیسی علامات ہو جاتی ہیں یا کوئی علامات سامنے نہیں آتیں۔ لیکن کچھ لوگوں کے لیے یہ خطرناک ہو جاتی ہیں۔

بچوں میں یہ دوروں، بینائی اور سماعت کے مسائل کے ساتھ ساتھ جگر اور تلی کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ غیر معمولی حالات میں یہ جان لیوا ہو سکتا ہے۔

اس ضمن میں مختلف اندازے ہیں لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ برطانیہ میں 50 سے 80 فیصد لوگوں کو ’سی ایم وی‘ ہوا ہوا ہے۔

لیکن کیونکہ صرف دو فیصد لوگ برطانیہ میں خون کا عطیہ دیتے ہیں لہذا یہ بہت ضروری ہے کہ ایسے عطیہ کرنے والوں کو ڈھونڈا جائے جو اس وائرس کا شکار نہیں ہوتے۔

پچھلی مرتبہ جو خون کا عطیہ میں نے دیا تھا اس کا ٹیسٹ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ میرے خون میں سی ایم وی کے لیے بننے والے اینٹی باڈیز نہیں تھے یعنی کہ میں اس وائرس کا شکار نہیں ہوئی لہذا مجھے خصوصی ’نیو‘ ٹیگ دے دیا گیا۔

جب بھی میں خون عطیہ کروں گی تو اس کا ٹیسٹ کیا جائے گا تاکہ یہ پتا لگایا جا سکے کہ کیا اب تو مجھے یہ وائرس نہیں ہوا۔

اگر مجھے کبھی یہ وائرس ہوا تو اس کی امیونٹی ہمیشہ میرے وائٹ بلڈ سیلز میں رہے گی اور میرا خون ان مخصوص کمزور مریضوں کو نہیں دیا جا سکے گا۔

میں انگلینڈ کے ان 10916 عطیہ کرنے والوں میں سے ہوں جن کے پاس سی ایم وی سے پاک بی نیگیٹو خون کی قسم ہے۔ گذشتہ سال ہسپتالوں نے سی ایم وی سے پاک 153801 خون کی بوتلوں کی درخواست کی تھی۔

ڈاکٹر چارلٹن کہتے ہیں کہ ’خصوصی جزو والے خون‘ کا مطالبہ بڑھ رہا ہے لہٰذا وہ کہتے ہیں کہ لوگوں کو خون کے عطیے کے لیے سامنے آنا چاہیے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہم عطیہ دینے والوں کا جتنا شکریہ ادا کریں وہ کم ہے۔ خون کا ہر عطیہ زندگی کا تحفہ ہے اور ایک سے زیادہ لوگوں کی زندگی بچا سکتا ہے۔‘

زندگیاں بچانے والا خون

ہیلی بین سے زیادہ کوئی خون کا عطیہ دینے کی اہمیت کو نہیں سمجھ سکتا۔ سی ایم وی سے پاک خون ملنے کی وجہ سے پیدائش کے بعد جلد ہی ان کی بیٹی ویلو کی زندگی بچ گئی تھی۔

حمل کے دوران ہیلی میں ’واسا پریویا‘ تشخیص ہوا تھا جو ایک خطرناک کنڈیشن ہے جس میں خوراک کی نالی پیدائش کے عمل میں راستے کی رکاوٹ بن جاتی ہے۔

رگوں کے کسی بھی وقت پھٹ جانے کا خطرہ ہوتا ہے اور چونکہ یہ بچہ دانی سے بچے کے گزرنے میں رکاوٹ بنتے ہیں، اس لیے قدرتی پیدائش ناممکن ہے۔

32ویں ہفتے میں ہیلی کو نگرانی کے لیے ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا اور 35ویں ہفتے میں سیزیرین سیکشن کا فیصلہ کیا گیا۔

آپریشن کے دوران ویلو کی رگیں پھٹ گئیں اور اتنا خون بہا کہ اس کی جان کو خطرہ ہو گیا۔

ہیلی کو یاد ہے کہ افراتفری مچ گئی تھی اور لوگ ادھر اُدھر بھاگ رہے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ جب ویلو کی پیدائش ہوئی تو میں اس کی رونے کی آواز کا انتظار کر رہی تھی۔ یہ میری زندگی کا بہترین وقت تھا۔ وہ سانس نہیں لے رہی تھی۔ نیونیٹل ٹیم نے اسے طبی مدد فراہم کی۔ مجھے یاد ہے تقریباً 10 منٹ بعد مجھے ہلکی سی رونے کی آواز آئی۔‘

ایک نرس نے ہیلی کو دکھانے کے لیے جلدی سے تصویر کھینچی جس کے بعد ویلو کو انتہائی نگہداشت یونٹ میں لے کر جایا گیا۔

وہ کہتی ہیں ’مجھے بس یہ یاد ہے کہ وہ کتنی ذرد ہو گئی تھی اور کتنی سوجی ہوئی تھی۔‘

ہیلی نے ویلو کو 12 گھنٹے بعد اپنے ہاتھوں میں پہلی دفعہ اٹھایا۔

ویلو اب چار سال کی ہے اور ہیلی اس کے کیے گئے علاج کی بہت شکرگزار ہے۔

ہیلی کہتی ہیں کہ ’وہ انتہائی نگہداشت یونٹ میں پانچ دنوں کے لیے تھیں لیکن اس خون کے لگنے کی وجہ سے کوئی مستقل نقصان نہیں ہوا۔‘

’وہ آج یہاں نہ ہوتی اگر ایک اجنبی کی مہربانی نہ ہوتی۔ کسی نے کسی جگہ پر خون دینے کا فیصلہ کیا اور ان کی وجہ سے آج ویلو یہاں ہے۔‘

جس ٹیکسٹ میسیج کا میں انتظار کر رہی تھی کچھ دنوں بعد مجھے موصول ہوا کہ میرا خون کا عطیہ ایک ہسپتال تک پہنچ گیا ہے۔ میں مسکرائی اور اس ننھی جان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.