آئی پی ایل پر شرط میں ایک کروڑ ہارنے پر انجینیئر کی اہلیہ نے خودکشی کر لی

image

انڈیا کے ایک شہری کو انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) میں شرط لگانے کے بعد ایک کروڑ روپے کا نقصان ہوا تو ان کی اہلیہ نے خودکشی کر لی۔

این ڈی ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق درشن بابو نامی ایک انجینیئر کی اہلیہ رانجتھا کی لاش کرناٹک کے علاقے چترا درگا میں واقع ان کے گھر میں 18 مارچ کو لٹکی ہوئی ملی۔

درشن بابو کرکٹ میچز پر شرط لگانے کے شوقین ہیں اور وہ 2021 سے یہ کام کر رہے ہیں۔ انہیں شرط ہارنے کے بعد کئی مرتبہ قرض لینا پڑتا تھا۔

رپورٹ کے مطابق ان کی 23 سالہ اہلیہ رانجتھا کو قرض خواہوں کی جانب سے مسلسل ہراسیت کا سامنا تھا جس کے بعد انہوں نے خودکشی کر لی۔

درشن بابو ہوسادرگا کے مائنر ایریگیشن ڈپارٹمنٹ میں اسسٹنٹ انجینیئر کے طور پر کام کرتے رہے اور پھر وہ 2021 سے 2023 تک وہ آئی پی ایل میچز پر شرط لگانے کے شوق میں پھنس گئے۔

انہوں نے شرط لگانے کے لیے مبینہ طور پر ڈیڑھ کروڑ روپے سے زیادہ قرض لیا تھا لیکن قسمت نے ان کا ساتھ نہ دیا وہ اپنی ساری رقم ڈبو بیٹھے۔ وہ صرف ایک کروڑ روپے واپس کرنے میں کامیاب ہو سکے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ درشن بابو پر ابھی بھی 84 لاکھ روپے کا قرض باقی ہے۔

دوسری جانب رانجتھا کے والد وینکتیش کے مطابق ان کی بیٹی کی درشن بابو کے ساتھ 2020 میں شادی ہوئی اور پھر 2021 میں انہیں شوہر کے شرط لگانے کے شوق کے بارے میں پتا چلا۔

وینکتیش نے اپنی درخواست میں کہا کہ قرض خواہوں کی جانب سے مسلسل تنگ کرنے کے بعد ان کی بیٹی خودکشی پر مجبور ہوئی۔ انہوں نے 13 افراد کو اپنی درخواست میں نامزد کیا ہے۔

انہوں نے اپنے داماد کے بارے میں کہا کہ ’وہ ان شرطوں کی چکر کا حصہ نہیں بننا چاہتا تھا لیکن مذکورہ افراد نے اسے جلد امیر ہونے کا لالچ دے کر اس کے لیے مجبور کیا۔ انہوں نے اس کے لیے بلینک چیکس کی صورت میں سرمایہ دینے کا وعدہ بھی کیا تھا۔‘

تحقیقات کے دوران پولیس کو رانجتھا کا خط بھی ملا جس میں انہوں نے قرض خواہوں کی جانب سے مسلسل ہراساں کیے جانے کی تفصیل بیان کی۔

درشن بابو اور رانجتھا کا ایک دو برس کا بیٹا ہے۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.