کوڈینہی: انڈیا کا ایک گاؤں جہاں 400 سے زیادہ جڑواں بچے ہیں

image
آپ نے معروف ڈرامہ نگار شیکسپيئر کے ڈرامے ’کامیڈی آف ایررز‘ پڑھی ہوگی۔ اگر نہیں، تو اسی ڈرامے پر مبنی بالی وڈ کے معروف نغمہ نگار گلزار کی فلم ’انگور‘ دیکھی ہوگی جس میں کئی جڑواں اور ہم شکل کرادار ہوتے ہیں۔

اگر یہ بھی نہیں تو انڈین سینما کے معروف اداکار دلیپ کمار کی فلم ’رام اور شیام‘ یا ہیما مالنی کی فلم ’سیتا اورگیتا‘ تو دیکھی ہوگی اور اگر یہ بھی نہیں تو پھر آپ نے پاکستان کے مشہور اداکار سلطان راہی کی تو فلمیں دیکھی ہی ہوں گی جنھوں نے 50 سے زیادہ فلموں میں جڑواں اور ہم شکل کردار ادا کیا ہے۔

اگر یہ بھی نہیں تو آپ نے اپنے خاندان یا شہر میں جڑواں بھائیوں یا بہنوں کو دیکھا ہوگا۔ دراصل جڑواں اور ہم شکل قدرت کے نظام کا حصہ ہے لیکن ایسا کم ہی ہوتا نظر آتا ہے۔ اس سے جہاں ہم شکلوں کو فائدہ اور نقصان دونوں ہوتا ہے وہیں دوسروں کو اکثر غلط فہمی ہوتی رہتی ہے اور ان کے ساتھ مضحکہ خیز باتیں ہو جاتی ہیں۔

بہر حال آج ہم آپ کو ایک ایسے گاؤں لے چلتے ہیں جہاں 400 سے زیادہ جڑواں بچے ہیں۔ شاید آپ کو یقین نہ آیا ہو! لیکن انڈیا کی جنوبی ریاست کیرالہ کے ضلع ملا پورم کا گاؤں کوڈینہی ایسا ہی ایک گاؤں ہے۔

لوگ جہاں دو سوا دو ہزار خانوادے پر مبنی اس گاؤں کی خوبصورتی کے قائل ہیں وہیں یہاں پیدا ہونے والے جڑواں بچوں کی تعداد کے بارے میں بھی انگشت بدنداں رہتے ہیں۔

دنیا بھر کے ڈاکٹروں کے لیے بھی یہ کسی معمے سے کم نہیں جس کو سلجھانے میں وہ ایک عرصے سے لگے ہوئے ہیں۔

یونیورسٹی آف ساؤتھ فلوریڈا میں علم بشریات کی ماہر لوریڈا میڈریگل تو کوڈینہی کو کسی 'دوسری دنیا کا خطہ' مانتی ہیں۔ انھوں نے اس پر تحقیق کی ہے۔

ماہرین اس گاؤں میں جڑواں بچوں کی پیدائش کے غیر معمولی رجحان پر حیران ہیں جو کہ عالمی اوسط سے تقریباً سات گنا زیادہ ہے۔

سن 2008 میں وہاں کی خواتین نے 300 صحت مند بچوں کو جنم دیا جن میں سے 15 خواتین کے ہاں جڑواں بچے پیدا ہوئے۔ پیدائش کے اعداد و شمار رکھنے والے محکمے کے مطابق کوڈینہی گاؤں میں گذشتہ پانچ سالوں میں 60 جڑواں بچوں کی پیدائش ہوئی ہے۔ اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہر گزرتے سال کے ساتھ جڑواں بچوں کی گنتی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

مسلمانوں کی اکثریت والے اس گاؤں کے چاروں طرف بیک واٹرز ہیں اور شہر سے جوڑنے والا صرف ایک راستہ ہے۔ لوریڈا میڈریگل کے مطابق اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ اس گاؤں میں ہندو، مسلم اور مسیحی تینوں فرقے کے لوگ ہیں لیکن اس گاؤں کو کسی ایک تشخص نہیں دیا جاسکتا۔

جڑواں بچوں کی پیدائش کا مطالعہ کرنے میں دلچسپی رکھنے والے کیرالہ کے ہی ڈاکٹر کرشنن سری بیجو کئی سالوں سے کوڈینہی میں بڑی تعداد میں جڑواں بچوں کی پیدائش کے راز کو جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ان کا خیال ہے کہ گاؤں میں جڑواں بچوں کی اصل تعداد سرکاری طور پر کاغذات میں درج کی گئی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔ ڈاکٹر سری بیجو کہتے ہیں: ’میری رائے میں کوڈینہی گاؤں کی حدود میں تقریباً 450 سے 500 جڑواں بچے ہیں۔‘

گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ جڑواں بچوں کی پیدائش کے واقعات تین نسل پہلے شروع ہوئے تھے۔ انڈین خبرساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق اس گاؤں میں 1949 میں پہلا جڑواں بچہ پیدا ہوا تھا۔ لیکن اس کے بعد سے اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

لیکن ڈاکٹر سری بیجو نے ٹائمز آف انڈیا سے بات کرتے ہوئے پرجوش انداز میں کہا: ’میری معلومات کے مطابق، یہ طبی معجزہ 60 سے 70 سال پہلے کے درمیان میں شروع ہوا تھا۔‘

لیکن ابھی ان پر کوئی تحقیق نہیں ہوئی ہے کہ آخر وہاں اتنی تعداد میں ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان کے خیال میں اس کا گاؤں والوں کے کھانے پینے سے کچھ نہ کچھ تعلق ضرور ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’حیرت کی بات یہ ہے کہ ہر گزرتے سال کے ساتھ جڑواں بچوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ پچھلے 10 سالوں میں کوڈینہی میں جڑواں بچوں کی تعداد دوگنی ہو گئی ہے۔‘

ڈاکٹر سری بیجو انڈیا میں جڑواں بچوں کی پیدائش کی کم سطح پر غور کرتے ہوئے کہتے ہیں یہ حیرت کی بات ہے کہ ایک انڈین گاؤں میں جڑواں بچوں کی اتنی زیادہ تعداد ہے۔

یونیورسٹی آف ساؤتھ فلوریڈا میں علم بشریات کی ماہر لوریڈا میڈریگل کوڈینہی کو کسی 'دوسری دنیا کا خطہ' مانتی ہیں۔نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کے مطابق دنیا میں بیک وقت ایک سے زیادہ پیدائش مجموعی پیدائش کا تقریبا تین فیصد ہوتی ہے جبکہ یہ نوزائیدہ کی اموات کا 14 فیصد سبب بھی ہوتی ہے۔ 1950 کی دہائی میں دنیا بھر میں بیک وقت ایک سے زیادہ یا متعدد بچوں کی شرح پیدائش میں کمی آنا شروع ہوئی اور وہ 1970 کی دہائی میں اپنی کم سے کم سطح تک پہنچی لیکن پھر اس کے بعد سے اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ جڑواں بچوں کی پیدائش کی عالمی شرح خاص طور پر مغربی دنیا میں مصنوعی حمل کی وجہ سے بڑھی ہے۔

اس کے علاوہ جڑواں بچے عام طور پر بڑی عمر کی زیادہ بالغ خواتین کے ہاں پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن کوڈینہی میں ایسا نہیں ہے کیونکہ یہاں شادی کی اوسط عمر 18-20 سال ہے اور شادی کے بعد بچے کی پیدائش میں تاخیر کرنے کی حکمت عملی پر بھی توجہ نہیں دی جاتی ہے۔

جڑواں بچوں کی پیدائش کے پیچھے ایک اور اہم وجہ پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر بیجو نے کہا کہ عام طور پر جن خواتین کا قد 5 فٹ اور 3 انچ سے کم ہوتا ہے ان کے ہاں جڑواں یا ایک سے زیادہ بچے کے جنم کا زیادہ امکان ہوتا ہے اور کوڈینہی میں خواتین کا اوسط قد 5 فٹ ہے۔

کوڈینہی کو اب انڈیا میں ’ٹوئن ٹاؤن‘ یا ’جڑواں بچوں کے قصبے‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اگرچہ سائنسدانوں میں اس کے متعلق تججس پایا جاتا ہے لیکن کوڈینہی والوں کو اس سے زیادہ فرق نہیں پڑتا۔

تاہم حال ہی میں انھوں نے جڑواں بچوں اور ان کے خاندانوں کو رجسٹر کرنے اور مدد فراہم کرنے کے لیے ’ٹوئنز اینڈ کن ایسوسیشن‘ (ٹاکا) نام کی ایک تنظیم قائم کی ہے۔ یہ تنظیم گاؤں کے جڑواں بچوں کو تعلیم دینے اور ان کے کنبے کو مدد فراہم کرتی ہے۔

اس تنظیم کے صدر کے بیٹے 16 سالہ انو بھاسکرن نے ٹائمز آف انڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا: ’جب میں پرائمری سکول میں تھا تو میرے ساتھ تقریباً 30-40  جڑواں بچے سکول میں پڑھا کرتے تھے۔ میرے شرارتی بہن بھائی بھی جڑواں  ہونے کا فائدہ اٹھاتے تھے۔ ہمیں دوستوں اور اپنے ٹیچروں کو دھوکہ دینے کے کافی مواقع ملتے تھے۔‘ کوڈینہی میں 20 سال سے کم عمر کے ایک جیسے کافی جڑواں بچے ہیں، اس لیے مذاق کا حلقہ وسیع ہو جاتا ہے۔

کوڈینہی نے ’جڑواں ٹاؤن‘ کی اپنی شناخت کو قبول کر لیا ہے۔ (فوٹو: فیس بک)کوڈینہی کے مقامی پرائمری سکول میں پڑھنے والی شاہانہ کہتی ہیں کہ ’کبھی کبھی جب ہمیں شرارت سوجھتی تو ہم لوگوں کو الجھانے کے لیے اپنی اپنی کلاسز بدلنے کی کوشش کرتے تھے۔‘

اس قصبے نے ’جڑواں ٹاؤن‘ کی اپنی شناخت کو قبول کر لیا ہے اور انھیں اس پر فخر بھی ہے۔ کوئی اسے اپنے یہاں کے پانی کی خاصیت بتاتا ہے تو کوئی اسے قدرت کا عطیہ کہتا ہے اور کوئی دیوی کا وردان۔

ان سب کے ساتھ اب انھوں نے اس کا جشن منانا بھی شروع کر دیا ہے اور اس کے تحت وہ اپنے جڑواں باشندوں کا سالانہ تہوار مناتے ہیں جس میں پورے انڈیا سے جڑواں بچے میلے میں شرکت کے لیے کوڈینہی پہنچتے ہیں، جس میں روایتی رقص، موسیقی اور کھانے کا انتظام رہتا ہے۔

دریں اثنا ڈاکٹر کرشنن سری بیجو کوڈینہی کی خوبصورت بستی میں بڑی تعداد میں جڑواں بچوں کی پیدائش کے پیچھے کا معمہ حل کرنے کے لیے کافی ثبوت تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.