ایرانی صدر کا دورۂ پاکستان: سخت گیر عالم اور ’ڈیتھ کمیٹی‘ کے سابق رکن ابراہیم رئیسی کون ہیں؟

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی آج پاکستان کے تین روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچ رہے ہیں۔ ایرانی صدر کا سنہ 2021 میں صدر منتخب ہونے کے بعد سے پاکستان کا یہ پہلا دورہ ہے جسے خطے کی سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین ایک اہم دورہ قرار دے رہے ہیں۔
ابراہیم رئیسی
Getty Images

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی پاکستان کے تین روزہ دورے پر پیر کو اسلام آباد پہنچے ہیں۔

سنہ 2021 میں صدر منتخب ہونے کے بعد ابراہیم رئیسی کا پاکستان کا یہ پہلا دورہ ہے جسے خطے کی سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین ایک اہم دورہ قرار دے رہے ہیں۔

پاکستان کے دفترِ خارجہ کے مطابق 22 سے 24 اپریل تک جاری رہنے والے اس دورے کے دوران صدر رئیسی پاکستان کے صدر اور وزیرِ اعظم کے علاوہ چیئرمین سینیٹ اور سپیکر قومی اسمبلی سے بھی ملاقات کریں گے۔

اس کے علاوہ دورے کے دوران ایرانی صدر اور ان کا وفد کراچی اور لاہور میں صوبائی حکومتوں کے عہدیداروں سے بھی ملے گا۔

ایرانی صدر پاکستان کا دورہ ایک ایسے وقت میں کر رہے ہیں جب ایران اسرائیل تنازع عروج پر ہے اور اس سے قبل رواں برس کے آغاز میں پاکستان اور ایران کے تعلقات میں بھی اس وقت تلخی دیکھنے میں آئی تھی جب دونوں پڑوسی ممالک کی جانب سے ایک دوسرے کی سرزمین پر کیے جانے والے حملوں کو مبینہ دہشتگردوں کے خلاف کارروائیاں قرار دیا گیا تھا۔

ایران اسرائیل تنازعے کے پس منظر کے ساتھ ساتھ پاکستان کے موجودہ سیاسی اور معاشی حالات کے تناظر میں بھی یہ دورہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔

اس خصوصی دورے پر آنے والے صدر ابراہیم رئیسی کے بارے میں جانتے ہیں جن پر امریکہ کی جانب سے ماضی میں پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔

عدلیہ میں شمولیت اور پراسیکیوٹر کی حیثیت سے خدمات

ابراہیم رئیسی 1960 میں ایران کے دوسرے بڑے شہر مشہد میں پیدا ہوئے جہاں شیعہ مسلمانوں کے مقدس ترین مزارات میں سے ایک واقع ہے۔ ان کے والد ایک عالم تھے اور ان کی وفات اس وقت ہوئی جب ابراہیم فقط پانچ برس کے تھے۔

شیعہ روایت کے مطابق اُن کا سیاہ عمامہ اُن کے پیغمبر اسلام کی آل ہونے کی نشاندہی کرتا ہے۔ اُنھوں نے اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے 15 سال کی عمر میں مقدس شہر قم میں ایک مدرسے میں حصول تعلیم کی غرض سے جانا شروع کیا۔

ایک طالب علم کے طور پر انھوں نے مغربی حمایت یافتہ شاہ ایران کے خلاف مظاہروں میں حصہ لیا۔ شاہ ایران سنہ 1979 میں آیت اللہ روح اللہ خمینی کی قیادت میں اسلامی انقلاب کے بعد معزول ہو گئے تھے۔

انقلاب کے بعد انھوں نے عدلیہ میں شمولیت اختیار کی اور کئی شہروں میں پراسیکیوٹر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں، اس دوران وہ آیت اللہ خامنہ ای کی زیر تربیت بھی تھے جو سنہ 1981 میں ایران کے صدر بنے۔

ابراہیم رئیسی
Getty Images

’ڈیتھ کمیٹی‘ کا حصہ

رئیسی جب تہران میں ڈپٹی پراسیکیوٹر بنے اس وقت وہ صرف 25 سال کے تھے۔

اس عہدے پر رہتے ہوئے انھوں نے ان چار ججوں میں سے ایک کی حیثیت سے خدمات انجام دیں جو 1988 میں قائم اُن خفیہ ٹربیونلز کا حصہ تھے جو کہ ’ڈیتھ کمیٹی‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔

ٹربیونل نے مبینہ طور پر ایسے ہزاروں قیدیوں پر ان کی سیاسی سرگرمیوں کے باعث دوبارہ مقدمات قائم کیے جو پہلے ہی مقید تھے اور سزائیں بھگت رہے تھے۔ ان قیدیوں میں زیادہ تر بائیں بازو کے اپوزیشن گروپ مجاہدین خلق (MEK) کے ممبر تھے، جنھیں پیپلز مجاہدین آرگنائزیشن آف ایران (PMOI) بھی کہا جاتا ہے۔

جن لوگوں کو ٹریبونل نے سزائے موت دی ان کی صحیح تعداد معلوم نہیں لیکن انسانی حقوق کے گروپوں کا دعویٰ ہے کہ تقریباً پانچ ہزار مردوں اور عورتوں کو پھانسیاں دی گئیں اور ان لوگوں کو اجتماعی قبروں میں دفن کیا گیا جو انسانیت کے خلاف جرم ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے رہنما اس بات سے انکار نہیں کرتے کہ موت کی سزائیں دی گئیں لیکن وہ تفصیلات اور انفرادی مقدمات کی قانونی حیثیت پر بات نہیں کرتے۔

رئیسی بارہا بڑے پیمانے پر سزائے موت دینے کے معاملے میں اپنے کردار سے انکار کر چکے ہیں لیکن انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ سزائیں سابق رہبر اعلیٰ آیت اللہ خمینی کے فتوے کی وجہ سے جائز تھیں۔

چند برس قبل ابراہیم رئیسی، عدلیہ کے کئی دیگر ارکان اور اُس وقت کے نائب سپریم لیڈر آیت اللہ حسین علی منتظری کے درمیان ہونے والی گفتگو کی ایک آڈیو ٹیپ لیک ہوئی تھی۔

اس میں منتظری کو سزائے موت کو ’اسلامی جمہوریہ کی تاریخ کا سب سے بڑا جرم‘ قرار دیتے ہوئے سُنا جا سکتا ہے۔

ایک سال بعد منتظری نے خمینی کے نامزد کردہ جانشین کی حیثیت سے اپنا مقام کھو دیا اور خمینی کی وفات پر آیت اللہ خامنہ ای سپریم لیڈر بن گئے۔

ابراہیم رئیسی 2014 میں ایران کے پراسیکیوٹر جنرل مقرر ہونے سے پہلے تہران کے پراسیکیوٹر، پھر سٹیٹ انسپکٹوریٹ آرگنائزیشن کے سربراہ اور عدلیہ کے پہلے نائب سربراہ کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔

دو سال بعد آیت اللہ خامنہ ای نے اُنھیں ایران کی سب سے اہم اور امیر ترین مذہبی تنظیموں میں سے ایک ’آستان قدس رضوی‘ کا نگہبان نامزد کیا تھا۔

یہ تنظیم مشہد میں آٹھویں شیعہ امام امام رضا کے مزار کے ساتھ ساتھ اس سے وابستہ تمام مختلف فلاحی اداروں اور تنظیموں کا انتظام سنبھالتی ہے۔ امریکہ کے مطابق اس تنظیم کا تعمیرات، زراعت، توانائی، ٹیلی کمیونیکیشن اور مالیاتی خدمات میں بڑا حصہ ہے۔

2017 میں رئیسی نے صدارت کا امیدوار بن کر مبصرین کو حیران کر دیا تھا۔

2017 کے انتخابات میں حسن روحانی، جو ابراہیم کے ایک ساتھی عالم تھے، انھوں نے انتخابات کے پہلے مرحلے میں 57 فیصد ووٹ حاصل کر کے بھاری اکثریت سے دوسری مرتبہ کامیابی حاصل کر لی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

ابراہیم رئیسی
Getty Images

’کرپشن مخالف جنگجو‘

رئیسی نے خود کو ایک ’کرپشن مخالف جنگجو‘ کے طور پر پیش کیا تھا لیکن صدر نے ان پر الزام عائد کیا کہ انھوں نے عدلیہ کے نائب سربراہ کی حیثیت سے بدعنوانی سے نمٹنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ وہ سنہ 2017 کے الیکشن میں 38 فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر آئے تھے۔

اس نقصان نے رئیسی کی شبیہہ کو داغدار نہیں کیا اور سنہ 2019 میں آیت اللہ خامنہ ای نے اُنھیں عدلیہ کے سربراہ کے طاقتور عہدے پر نامزد کیا۔

اگلے ہی ہفتے وہ ماہرین کی اسمبلی کے ڈپٹی چیئرمین کے طور پر بھی منتخب ہوئے جو کہ 88 رکنی علما کا ادارہ ہے جو اگلے سپریم لیڈر کے انتخاب کے لیے ذمہ دار ہے۔

بحیثیت عدلیہ کے سربراہ رئیسی نے اصلاحات نافذ کیں جس کی وجہ سے ملک میں منشیات سے متعلق جرائم کے لیے سزائے موت پانے اور پھانسی کی سزا پانے والوں کی تعداد میں کمی آئی تاہم ایران اب بھی چین کے علاوہ کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں زیادہ لوگوں کو سزائے موت دینے والا ملک ہے۔

عدلیہ نے سکیورٹی سروسز کے ساتھ مل کر دوہری شہریت رکھنے والے ایرانیوں یا غیر ملکی مستقل رہائشیوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری رکھا۔

اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رئیسی پر سنہ 2019 میں ان کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کی بنیاد پر پابندیاں عائد کیں اور ان پر الزام عائد کیا کہ وہ ان افراد کی پھانسیوں پر انتظامی نگرانی کرتے ہیں جو مبینہ جرائم کے وقت کم عمر تھے اور یہ کہ وہ 2009 کے متنازع صدارتی انتخابات کے بعد حزب مخالف کی گرین موومنٹ کی جانب سے احتجاج کے خلاف پر تشدد کریک ڈاؤن میں ملوث تھے۔

رئیسی کی نجی زندگی کے بارے میں بہت کم باتیں معلوم ہیں سوائے اس کے کہ ان کی اہلیہ جمیلہ تہران کی شاہد بہشتی یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں اور ان کی دو بالغ بیٹیاں ہیں۔ ان کے سسر آیت اللہ احمد علم الہدیٰ ہیں جو مشہد میں نمازِ جمعہ کی امامت کرتے ہیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.