جمیلہ علم الہدیٰ: مشکل وقت میں شوہر کے ہمراہ ’گھریلو اخراجات اٹھانے والی‘ ایرانی صدر کی اہلیہ کون ہیں؟

ایران کے صدر ابراہیم رئیسی پاکستان کے تین روزہ دورے پر اس وقت کراچی میں موجود ہیں تاہم اس دورے کے دوران جہاں ہمسایہ ممالک پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات پر بات ہو رہی ہے وہیں ایرانی صدر کی اہلیہ پاکستان میں سوشل میڈیا پر زیرِ بحث ہیں۔
تصویر
Getty Images

ایران کے صدر ابراہیم رئیسی پاکستان کے تین روزہ دورے پر اِس وقت کراچی میں موجود ہیں تاہم اس دورے کے دوران جہاں ہمسایہ ممالک پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات پر بات ہو رہی ہے وہیں ایرانی صدر کے ہمراہ اس دورے پر آنے والی اُن کی اہلیہ بھی پاکستان میں سوشل میڈیا پر زیرِ بحث ہیں۔

چند صارفین جہاں پاکستان میں اُن کے اعزاز میں منعقد ہونے والی تقاریب میں اُن کی گفتگو پر بحث کر رہے ہیں تو چند اُن کے بظاہر ’سادہ طرز زندگی‘ پر تبصرے کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر جمیلہ علم الہدیٰ نے پیر کو اسلام آباد کی نمل یونیورسٹی میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اسلام نے پوری دنیا کو 1400 سال پہلے انتہائی اہم علم سے روشن کر دیا تھا۔۔۔ اخلاقیات کے بغیر علم کی کوئی وقعت نہیں ہے۔‘

انھوں نے اس تقریب میں صدر آصف زرداری کی بیٹی آصفہ بھٹو کے ساتھ شرکت کی تھی اور اس موقع پر یونیورسٹی میں ثقافتی فیسٹیول کا افتتاح بھی کیا۔

انھوں نے طلبہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نوآبادیاتی دور کے دوران ایران کے مذہبی رہنماؤں اور اس خطے کے لوگوں نے قوموں کو متحد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔

اپنی تقریر کے دوران انھوں نے مقبول شاعر اقبال کی جانب سے ’اسلام کا پیغام پھیلانے‘ پر تعریف کی۔ انھوں نے اپنی کتاب ’دی آرٹ آف فیمینن لِوِنگ‘ کی رونمائی کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس کتاب کا اُردو ترجمہ بھی کیا جا رہا ہے۔

تو آئیے آپ کو بتاتے ہیں کہ ایرانی صدر کی اہلیہ ڈاکٹر جمیلہ علم الہدیٰ کون ہیں اور وہ ایران میں ماضی کی خواتینِ اول سے کیسے مختلف ہیں؟

جمیلہ علم الہدیٰ نے کہاں سے تعلیم حاصل کی؟

اگر ایران کی حالیہ تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو جمیلہ علم الہدیٰ سماجی طور پر سابق ایرانی صدور کی بیگمات سے زیادہ متحرک نظر آتی ہیں۔ انھوں نے ’تربیات مودارس یونیورسٹی‘ سے فلسفے میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے اور وہ ’شاہد بہشتی یونیورسٹی‘ سے بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر بھی منسلک ہیں۔

وہ اس یونیورسٹی کے سائنس اور ٹیکنالوجی کے بنیادی مطالعات کے تحقیقی ادارے کی بانی سربراہ اور ثقافتی انقلاب کی سپریم کونسل میں ملک کے تعلیمی نظام کی تبدیلی اور اس میں جدت لانے کی کونسل کے سیکریٹری بھی ہیں۔

وہ اپنی بیٹی ریحانہ سادات رئیس الساداتی اور ان کے داماد مقداد نلی احمدآبادی کے ساتھ امام رضا سکول کے قرآن اور عطار کلچرل انسٹیٹیوٹ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی رُکن بھی ہیں۔

یہ ادارہ قرآن پڑھنے اور نفسیات کے مضامین کی کلاسز کا اہتمام کرتا ہے۔

سنہ 2021 میں ابراہیم رئیسی کی صدارتی انتخابی مہم کے دوران انھوں نے اپنے شوہر کے انتخابات میں حصہ لینے کے بارے میں کہا تھا کہ ’جناب رئیسی کی اہلیہ کے طور پر میں نے اُن کے انتخابات میں حصہ لینے کے فیصلے سے اتفاق نہیں کیا تھا، لیکن انتخابی امیدواروں میں سے رہنما کی خصوصیات صرف رئیسی میں ہیں۔‘

وہ مشہد کے بنیاد پرست امام احمد علم الہدیٰ کی بیٹی ہیں۔ امام احمد اپنے انتہائی قدامت پسندانہ خیالات کے لیے جانے جاتے ہیں اور یہاں تک کہ مشہد میں موسیقی کے پروگرامز (کنسرٹس) کے انعقاد کو بھی غلط سمجھتے تھے۔

امام احمد کی رائے میں میاں بیوی کا ایک دوسرے کو اُن کے ناموں سے پکارنا بھی درست نہیں ہے۔

ان کی رائے میں ’خاندانی زندگی کی دو تہیں ہوتی ہیں۔ ایک باطنی تہہ جو دراصل شوہر اور بیوی کے رازدارانہ رشتے سے متعلق ہوتی ہے اور جسے عام زندگی میں ظاہر نہیں ہونا چاہیے۔‘

’دوسری تہہ خاندان کی ظاہری زندگی ہے۔ نجی رشتے کے دوران وہ ایک دوسرے کو جس طرح چاہیں پکار سکتے ہیں، لیکن کسی مرد کے لیے اپنی بیوی کا احترام اور شوہر کا اپنی بیوی کا احترام کرنا ضروری ہے۔‘

’گھریلو اخراجات کا ایک بڑا حصہ جمیلہ ادا کرتی ہیں‘

بنیاد پرست خاندانی روایات کے باوجود جمیلہ علم الہدیٰ نے ابراہیم رئیسی سے شادی کے بعد تعلیم کے حصول کا سلسلہ جاری رکھا۔

ابراہیم رئیسی نے ماضی میں شائع ہونے والے اپنے ایک ویڈیو انٹرویو میں کہا تھا کہ اُن کی اہلیہ کے کام سے انھیں اور ملک کے تعلیمی نظام دونوں کو مدد ملے گی۔

انھوں نے ایک موقع پر کہا تھا کہ ’اگر میں جا کر دیکھوں کہ وہ گھر پر نہیں ہیں تو مجھے غصہ نہیں آئے گا۔ اگر میں دیکھوں کہ کھانا نہیں بنا ہوا، میں تب بھی پریشان نہیں ہوں گا۔ ہم سادہ کھانا کھاتے ہیں۔ میرے لیے ایک سادہ کھانا دودھ، کیک یا گھر پر تیار کردہ کوئی بھی کھانا ہوتا ہے۔‘

’ایسا نہیں ہے کہ ہر رات ایسا ہی ہوتا ہے۔ شروعات میں زندگی تھوڑی مشکل ہو سکتی ہے لیکن بعد کے سالوں میں میں نے کبھی انھیں تنگ نہیں کیا۔ مجھ میں عدم برداشت نہیں ہے۔‘

ابراہیم رئیسی کی بیٹی ریحانہ سادات رئیس الساداتی نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ چونکہ ان کے والد نے عدلیہ کے سربراہ بننے پر اپنی تنخواہ آدھی کر دی تھی اس لیے علم الہدیٰ (اُن کی والدہ) نے گھریلو اخراجات کا ایک بڑا حصہ اپنے خرچے پر چلاتی تھیں۔

جمیلہ علم الہدیٰ نے اپنے شوہر کے لیے انتخابی مہم بھی چلائی۔ انھوں نے اس انتخابی مہم کے لیے زرتشت مذہب کے نمائندوں سے بھی ملاقات کی لیکن حکومت سے وابستہ دوسرے لوگوں کی طرح وہ بہائی مذہب کے ماننے والوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کو تسلیم نہیں کرتیں۔

ایران میں خاتونِ اول کا کوئی متعین عہدہ کیوں نہیں ہے؟

خیال رہے کہ ایران میں خاتون اول کے لیے کوئی متعین عہدہ نہیں ہے اور اس سے قبل صدور کی بیویاں سرکاری تقریبات میں کم ہی نظر آتی تھیں۔

ایران میں گذشتہ صدور کی بیویوں کا کردار بنیادی طور پر ایک ہمدرد اہلیہ اور مہربان ماں کے روایتی کردار کا ہوا کرتا تھا۔ سابق ایرانی صدر حسن روحانی کی اہلیہ صاحبہ روحانی نے ان کی صدارت کے دوران کچھ سرکاری تقریبات میں شرکت کی تھی۔ ان میں سے ایک سنہ 2012 میں میلاد ٹاور میں فلاحی مقاصد کے لیے لگائے گئے بازار کی افتتاحی تقریب تھی، جہاں صاحبہ روحانی نے تہران میں مقیم سرکاری حکام اور غیر ملکی سفیروں کی بیویوں سے ملاقات کی تھی۔

تاہم اس تقریب پر خاصی تنقید ہوئی تھی اور استحکام محاذ کے کچھ ارکان نے اسے روحانی اور ان کی اہلیہ کا اشرافیہ کا حصہ ہونے سے منسوب کیا تھا۔ ایرانی خبر رساں ایجنسی فارس نے ایک خبر میں لکھا تھا کہ یہ تقریب خواتین کی پارٹی تھی جس میں لڑکیوں کا رقص اور ڈریس شو تھا اور ہر شریک مہمان کو کو ایک سکہ دیا گیا تھا۔ تاہم یہ خبر اس تقریب کے شرکا کی جانب سے مسترد کر دی گئی تھی۔

سابق ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کی اہلیہ اعظم السادات فراحی اگرچہ اپنے شوہر کے ساتھ کچھ ملکی اور غیر ملکی دوروں پر گئی تھیں اور اس کے علاوہ انھوں نے کچھ فلاحی اداروں کی تقریبات میں بھی شرکت کی لیکن مجموعی طور پر اُن کی سیاسی اور سماجی سرگرمیاں زیادہ نہیں تھیں۔

ان کی سرگرمیوں میں سے ایک مصر کے سابق صدر حسنی مبارک کی اہلیہ سوزان مبارک کو خط لکھ کر فلسطینی عوام کی مدد کرنے کی کوشش کرنا بھی تھا۔ کچھ عرصے کے لیے وہ خواتین کی ثقافتی سماجی کونسل میں خواتین فیصلہ سازوں کے گروپ میں شامل ہو گئی تھیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.