کورونا ویکسین ایسٹرا زنینکا دنیا بھر سے کیوں واپس منگوا لی گئی؟

image

برطانیہ اور سویڈن کی دواساز کمپنی ایسٹرا زینیکا نے کورونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین دنیا بھر سے واپس منگوا لی ہے۔

برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق ایسٹرا زینیکا کی انتظامیہ نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں دیگر کمپنیوں کی تیار شدہ ویکسین کی بھرمار ہے جس کی وجہ سے اپنی کورونا ویکسین واپس منگوا رہے ہیں۔

کمپنی نے یورپی یونین میں اپنی ’مارکیٹنگ آتھرائزیشن‘ ختم کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ویکسین اب تیار نہیں کی جا رہی اور اسے مزید استعمال نہیں کیا جا سکتا، اس ویکسین کو دنیا کے تمام ممالک سے واپس منگوا لیا جائے گا۔

واضح رہے کہ ایسٹرازینیکا کو ویکسین کے منفی اثرات کے باعث برطانیہ میں 100 ملین پاؤنڈ ہرجانے کے مقدمے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ  اس سے متعدد افراد کی موت واقع ہوئی۔

ایسٹرا زینیکا نے فروری میں عدالت میں جمع کروائی گئی اپنی دستاویزات میں اعتراف کیا تھا کہ ان کی ’کووی شیلڈ‘ ویکسین بلڈ کلاٹ کی ایک ‏نایاب قسم کا سبب بن سکتی ہے جو انسانی خون میں پلیٹ لیٹس کی تعداد کو متاثر کرتی ہے۔

تاہم، کمپنی نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ ویکسین کو واپس منگوانے کا فیصلہ عدالتی کیس سے منسلک نہیں ہے۔

ایسٹرا زینیکا نے اپنے بیان میں کہا کہ ’ویکسین کے استعمال کے پہلے سال میں 65 لاکھ سے زیادہ جانیں بچائی گئیں اور عالمی سطح پر تین ارب سے زیادہ ڈوز فراہم کی گئیں۔ ہماری کوششوں کو دنیا بھر کی حکومتوں نے تسلیم کیا ہے کہ کووڈ کی وبا کو کنٹرول کرنے میں اس ویکسین نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔‘

اس سے قبل مارچ 2021 میں خون میں کلاٹس بننے کے واقعات سامنے آنے کے بعد ڈنمارک، ناروے، آئس لینڈ اور اٹلی نے ایسٹرا زینیکا کی ویکسین کا استعمال عارضی طور پر بند کر دیا تھا جس پر برطانوی حکومت نے کمپنی کا دفاع کرتے ہوئے اسے مؤثر قرار دیا تھا۔

یاد رہے کہ ایسٹرا زینیکا نے اپنی کووڈ ویکسین کا نام 2021 میں بدل کر ’ویکس زیوریا‘ رکھ لیا تھا۔ یہ ویکسین دو انجکشنز کی شکل میں 18 اور اس سے زائد سال کی عمر کے افراد کو ہی دی جا سکتی تھی۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.