اگر ہماری زمین مسلسل حرکت کرتی ہے تو ہم یہ محسوس کیوں نہیں کر پاتے؟

صدیوں تک انسان یہ سمجھتا رہا کہ ہمارا سیارہ اس کائنات کا مرکز ہے اور اس کی وجہ یہ ماننا تھا کہ ہماری زمین حرکت نہیں کر رہی۔
چاند
Getty Images

ہماری زمین ایک ایسی کشتی کی مانند ہے جو ہمیں اس کائنات کے ایک دلچسپ سفر پر لے جاتی ہے۔

ہمارا سیارہ 107,280 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سورج کے گرد چکر لگاتا ہے اور یہ اپنے محور میں خط استوا پر تقریباً 1,666 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گھومتا ہے۔

تو پھر ہمیں ایسا کیوں محسوس نہیں ہوتا کہ جیسے ہم کسی فلکیاتی گاڑی میں سوار ہیں۔

اس عمل کو سمجھنے کے لیے چلی کے ماہر فلکیات یاویرا رے ہمیں ایک مثال سے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

’تصور کریں کہ آپ ایک ہوائی جہاز میں سوار ہیں اور ٹیک آف کے وقت آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ اپنی سیٹ پر دھنستے جا رہے ہیں اور لینڈنگ کے وقت آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ آگے کی جانب جا رہے ہیں۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کیونکہ جمود (مادہ کی وہ خصوصیت ہے جس کے باعث مادہ اپنی حالت میں تبدیلی کے خلاف مزاحمت کرتا ہے) ہمیں ہماری آرام کی پوزیشن میں رہنے کی ترغیب دیتا ہے۔‘

’جب ہوائی جہاز اپنے سفر کی مستقل رفتار تک پہنچ جاتا ہے تو آپ کو احساس نہیں ہوتا کہ آپ حرکت کر رہے ہیں اور آپ باآسانی خود کو روک سکتے یا چل سکتے ہیں۔‘

لہٰذا جب جہاز ایک مستقل رفتار پکڑ لیتا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ حرکت نہیں کر رہا اور ایسا ہی کچھ زمین کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔

انسانوں سمیت زمین پر موجود ہر چیز اسی مستقل رفتار سے سفر کرتی ہے، ہم اپنے سیارے کے ساتھ گھومتے ہیں اور اسے لیے ہم کسی قسم کی حرکت محسوس نہیں کرتے لیکن اس کے علاوہ بھی کچھ عوامل ہیں۔

جہاز
Getty Images

دوسری قوت جو کردار ادا کرتی ہے

کششِ ثقل بھی یہ سمجھنے میں ہماری مدد کرتی ہے کہ ہم زمین کو گھومتا ہوا کیوں محسوس نہیں کرتے۔

سینٹرل یونیورسٹی آف وینزویلا کے طبیعیات دان سالمر ویریلا کہتے ہیں کہ ’سوچیں آپ فارمولا ون کار میں سوار ہیں اور ایک سیدھی لائن میں ایک مستقل رفتار میں جا رہے ہیں۔‘

’اس وقت آپ کو محسوس نہیں ہو گا کہ گاڑی حرکت کر رہی ہے لیکن جب آپ کسی موڑ پر پہنچیں گے تو آپ کو محسوس ہو گا کہ کوئی قوت آپ کو موڑ کی مخالف سمت میں دھکیل رہی ہے، جیسے یہ آپ کو گاڑی میں سے نکالنے کی کوشش کر رہی ہو۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’آپ کے گاڑی سے باہر نہ گرنے کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے سیٹ بیلٹ پہن رکھی ہے۔

’ہمارے سیارے کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوتا ہے۔ جب یہ گھومتا ہے تو ایک مرکزی قوت پیدا ہوتی ہے۔‘

لیکن ہوتا یہ ہے کہ ہماری زمین کی کشش ثقل اس مرکزی قوت سے بہت زیادہ طاقتور ہے اور یہ ہی وجہ ہے کہ ہم اپنے سیارے سے جڑے رہتے ہیں۔

سالمر ویریلا کہتے ہیں کہ ’کشش ثقل کار کی سیٹ بیلٹ کا کردار ادا کرتی ہے۔‘

 گیلیلیو
Getty Images

یہ بھی پڑھیے

نظریہ اضافیت

صدیوں تک انسان یہ سمجھتا رہا کہ ہمارا سیارہ اس کائنات کا مرکز ہے اور اس کی وجہ یہ ماننا تھا کہ ہماری زمین حرکت نہیں کر رہی۔

جرمنی میں میکس پلانک انسٹیٹیوٹ فار سولر سسٹم ریسرچ کی محقق وینزویلا کی میریم رینگل وضاحت کرتی ہیں کہ ’ایک لمبے عرصے تک یہ مانا جاتا رہا کہ زمین اس کائنات کا مرکز ہے کیونکہ لوگ جب آسمان کو دیکھتے تو یہ ستارے تھے جو حرکت کرتے تھے۔‘

’لیکن یہ خیال اس وقت تبدیل ہوا، جب نکولس کوپرنیکس اور جوہانس کیپلر نے ہیلیو سینٹرک ماڈل تیار کیا جبکہ گیلیلیو نے سیارہ مشتری کے چار چاند دریافت کیے اور انھیں پتا چلا کہ یہ وہ سیارے ہیں جو سورج کے گرد چکر لگاتے ہیں۔‘

جیو سینٹرزم (زمین کو کائنات کا مرکز سمجھنا) کے حامیوں کا اس بارے میں موقف یہ رہا کہ اگر ہمارا سیارہ حرکت کرتا ہے تو ہم اسے محسوس کریں گے لیکن گیلیلیو نے اس خیال کی تردید کا ایک طریقہ تلاش کیا۔

گیلیلیو نے ایک ایسی کشتی پر کچھ تجربے کیے جو ایک پُرسکون سمندر میں ایک مستقل رفتار پر سفر کر رہی تھی۔گیلیلیو نے پانی کا ایک قطرہ کنٹینر میں ڈالا۔

گیلیلیو نے دیکھا کہ کشتی چاہے آگے کی جانب حرکت کر رہی تھی لیکن پانی کے قطرے ہمیشہ کنٹینر میں گرتے رہے۔

رینگل کہتی ہیں کہ ’اسی کے ذریعے گیلیلیو نے یہ سمجھایا کہ سب کچھ اس بات پر منحصر ہے کہ ہم کہاں ہیں۔‘

یہاں سے ہی گیلیلیو نے تھیوری آف ریلیٹیویٹی (نظریۂ اضافیت) کو تشکیل دیا۔

چاند
Getty Images

عادت

اس کے علاوہ ہم زمین کی حرکت کو اس لیے بھی محسوس نہیں کر سکتے کیونکہ ہمیں اس کی عادت ہو چکی ہے۔

یونیورسٹی آف میڈرڈ میں ارتھ فزکس کی پروفیسر مارٹا ایبلاوس کہتی ہیں کہ ’ہم اپنی پیدائش سے ہی زمین کی اس حرکت کے عادی ہیں۔‘

اسی طرح حقیقت یہ ہے کہ ہمارا ماحول بھی زمین کی رفتار کے ساتھ حرکت کرتا اور کردار ادا کرتا ہے.

مارٹا ایبلاوس کہتی ہیں کہ ’زمین کے اردگرد موجود ہوا کی تہہ بھی تقریباً ایک ہی رفتار سے گھومتی ہے اور ہمیں زمین کے گھومنے کی وجہ سے ’ہوا‘ محسوس نہیں ہوتی۔‘

ماہر فلکیات یاویرا رے اس امر کی بھی نشاندہی کرتے ہیں کہ ہمارے سیارے کی حرکت سے کوئی ہوا پیدا نہیں ہوتی کیونکہ ’خلا عملی طور پر خالی ہے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.