’میں پیدا نہیں ہوا بلکہ بھیجا گیا ہوں‘: مودی کا بیان جسے ان کے ناقدین ’خود پسندی کی انتہا‘ قرار دے رہے ہیں

انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کے انٹرویو کا ایک حصہ بدھ کی صبح سے وائرل ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ وہ ’حیاتیاتی طور پر پیدا نہیں ہوئے بلکہ انھیں کسی خاص مقصد کے لیے بھیجا گیا۔‘
مودی
Getty Images

انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کے انٹرویو کا ایک حصہ بدھ کی صبح سے وائرل ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ وہ ’حیاتیاتی طور پر پیدا نہیں ہوئے بلکہ انھیں کسی خاص مقصد کے لیے بھیجا گیا۔‘

یہ انٹرویو انڈیا کی معروف ٹی وی اینکر روبیکا لیاقت کے ایک ہفتے پرانے انٹرویو کا حصہ ہے جس میں وزیراعظم مودی بظاہر انڈیا کے شمالی شہر وارانسی (بنارس) میں ایک کشتی پر سوار ان سے اپنے کریئر، حزب اختلاف اور مسلمانوں پر بات کرتے نظر آ رہے ہیں۔

لیکن ان کے انٹرویو کا یہ حصہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب سات مرحلوں میں ہونے والے عام انتخابات کا پانچواں مرحلہ مکمل ہو گیا ہے اور محض دو مرحلے باقی ہیں، جس میں 25 مئی اور یکم جون کو ووٹ ڈالے جانے ہیں جبکہ نتائج کا اعلان چار جون کو ہوگا۔

سوشل میڈیا پر لوگ اسے ’خود پسندی کی انتہا‘ کہہ رہے ہیں تو کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ اگر تیسری بار وہ جیت جائیں گے تو وہ اپنے ’خدا ہونے کا اعلان کر دیں گے۔‘

اس پر ماہرین سماجیات و سیاسیات کی آرا جاننے یا سوشل میڈیا کے مباحثے پر نظر ڈالنے سے پہلے آئیے دیکھتے ہیں کہ وزیر اعظم مودی نے کیا کہا۔

انٹرویو کے دوران وزیراعظم مودی نے کیا کہا؟

صحافی روبیکا لیاقت کے ساتھ وزیر اعظم مودی کا یہ انٹرویو یوٹیوب پر موجود ہے جس میں روبیکا ان سے پوچھتی ہیں کہ ’پانچ سال پہلے میں نے آپ سے سوال کیا تھا کہ آپ تھکتے کیوں نہیں۔ پانچ سال پہلے کے مقابلے میں مجھے آپ زیادہ توانا نظر آ رہے ہیں، آپ نے زیادہ ریلیاں نکالی ہیں، آپ زیادہ کام کر رہے ہیں، آپ واقعی تھکتے کیوں نہیں؟‘

اس کے جواب میں وزیر اعظم مودی کہتے ہیں کہ ’پہلے جب تک ماں زندہ تھی تو مجھے لگتا تھا کہ شاید بائیولوجیکلی مجھے جنم دیا گیا۔ ماں کے جانے کے بعد ان سارے تجربات کو جوڑ کر میں دیکھتا ہوں تو مجھے یقین ہو چلا ہے، غلط ہو سکتا ہوں، لوگ تنقید کریں، میرے بال نوچ لیں لیکن میں قائل ہو چکا ہوں کہ پرماتما (خدا) نے مجھے بھیجا ہے، یہ توانائی بائیولوجیکل جسم سے نہیں ملی۔ ایشور (خدا) نے مجھ سے کوئی کام لینا ہے، اس لیے مجھے سامرتھ (صلاحیت، طاقت) بھی دی۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’اور اس لیے میں جب بھی کچھ کرتا ہوں تو میں مانتا ہوں کہ شاید ایشور مجھ سے کروانا چاہتا ہے۔ میں اس ایشور کو دیکھ نہیں سکتا، سو میں بھی ایک پجاری ہوں۔ میں بھی ایک بھکت ہوں، تو میں 140 کروڑ ملک کے باشندوں کو ایشور کا روپ مان کر چلتا ہوں، وہی میرے بھگوان ہیں۔‘

وزیر اعظم مودی
Getty Images

’مودی سے آپ اس قسم کی حماقت کی امید نہیں کر سکتے‘

دہلی کے تحقیقاتی ادارے سینٹر فار دا سٹڈی آف ڈویلپنگ سوسائٹیز( سی ایس ڈی ایس) میں اسسٹنٹ پروفیسر ہلال احمد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم مودی ایک بہت ہی زیرک اور ہوشیار سیاست داں ہیں جن سے آپ اس قسم کی حماقت کی امید نہیں کر سکتے۔

انھوں نے کہا کہ وہ لوگوں کو حیران کرنے کا ہنر جانتے ہیں اور اس انتخابی مہم میں انھوں نے روحانیت کا عنصر شامل کرکے حیرت میں ڈالنے کا کام کیا۔

’مودی نے اپنے بیان میں کہا کہ لوگ میرے بال نوچیں گے یعنی وہ اس پر حزب اختلاف کی جانب سے ردعمل چاہتے ہیں تاکہ بچے ہوئے دو مرحلے میں اپنے ووٹرز کو متوجہ کر سکیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ بی جے پی کی انتخابی مہم ایک پروفیشنل سیاسی پارٹی کی مہم ہے۔ ’جس وقت سے ان کا منشور آیا ہے اس میں گرافک تبدیلیاں دیکھنے میں آئی ہیں۔ انھوں نے رام مندر پر زور دینے کی بجائے اپنی وراثت پر زور دیا لیکن یہ سب چیزیں ایک دوسرے سے جڑی ہیں۔ کانگریس کے منشور کے آنے کے بعد انھوں نے اپنے ووٹرز کو اپنی جانب لانے پر توجہ مرکوز کی۔ ان کے پاس ایسا ووٹر بھی ہے جو ہندو مسلم کی تفریق نہیں کرتا تو انھوں نے اپنے بیانیے میں مسلمان کو بھی شامل کیا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’مودی جیسے معمولی گھرانے سے کوئی انتخاب لڑے بغیر گجرات کی سیاست میں ابھرنا اور تین بار وزیر اعلی رہنا اپنے آپ میں کسی کرشمے سے کم نہیں۔ کسی بڑے سیاسی گھرانے سے نہ آنے کے باوجود ان کا وزیر اعظم بننا انڈین سیاست میں کسی کرشمے سے کم نہیں۔‘

ہلال احمد نے کہا کہ ’یہ ان کے انتخابی طرز عمل کا حصہ ہے۔ یہ سیاسی بیان ہے کہ کروانے والی ذات دیویہ ہے اور وہ اس سے ایک قسم کا مذہبی جواز حاصل کر رہے ہیں۔‘

مودی ریلی
Getty Images

’جمہوریت کے لیے انتہائی خطرناک‘

لیکن ہلال احمد کے برعکس جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں سینٹر فار پولیٹیکل سٹڈیز میں اسسٹنٹ پروفیسر عامر علی کہتے ہیں کہ یہ جمہوریت اور الیکٹورل ڈیموکریسی کے لیے انتہائی خطرناک بات ہے۔

عامر علی نے کہا کہ ’بہت سے لوگ اسے بے تکی بات کہہ کر مسترد کر سکتے ہیں لیکن خطرناک بات تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ایسے بہت سارے لوگ ہیں جن کو اس پر یقین ہو گا اور وہ یقین بھی کریں گے اور ان کے انتخابات میں اثرات بھی ہوں گے اور اس کی گونج بھی سنائی دے گی۔‘

’لیکن آپ سوچیے کہ دس سال قبل جو مودی پردھان سیوک کے طور پر شروع ہوئے تھے اور اس حیثیت سے ان سے سوال پوچھا جانا تھا اور انھیں جوابدہ ٹھہرایا جانا تھا، اب وہ اس سے اوپر اٹھ گئے کیونکہ ان کے بقول یہ کام ان سے ایشور کرا رہا ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ پچھلے دس سال میں انڈین جمہوریت کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔‘

جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اکیڈمی آف انٹرنیشنل سٹڈیز کے پروفیسر محمد سہراب نے کہا کہ مودی کا بیان ہندو مذہب کے عین مطابق ہے۔

’ہندو مذہب میں 33 کروڑ دیوی اور دیوتا ہیں اور مودی بھی یہاں خود کو کسی ایشور کے اوتار کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ یہ ہندو مذہب میں معمول کی بات ہے کہ انھیں کسی خاص مقصد کے لیے بھیجا گيا۔ اس لیے ان کا دعوی ہندو مذہب سے تصادم نہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

سوشل میڈیا

محمد سہراب کی اس بات کو حال ہی میں بی جے پی کے امیدوار سمبت پاترا کے اس بیان سے تقویت ملتی ہے جس میں انھوں نے جوش جذبات میں ’بھگوان جگن ناتھ کو مودی کا بھکت‘ کہہ دیا تھا اور پھر بعد میں انھوں نے اپنی اس غلطی کے لیے معافی بھی مانگی لیکن سوشل میڈیا پر بہت سے بی جے پی کے حامی اور مودی کے بھکت آپ کو انھیں بھگوان کا روپ کہتے نظر آئیں گے۔

لیکن بہت سے لوگ مودی کے اس بیان کو سخت تنقید کا بھی سامنا ہے۔ انکت مینک نامی ایک صارف نے مودی کے بیان کا وہ وائرل حصہ شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’مودی اب خود کو بھگوان کا اوتار کہہ رہے ہیں۔۔۔ اگر وہ دوبارہ جیت جاتے ہیں تو وہ خود کو بھگوان قرار دیں گے۔‘

https://twitter.com/mr_mayank/status/1792985813711458471

ترنمول کانگریس کے رکن پارلیمان جواہر سرکار نے لکھا کہ ’مودی خود کہتے ہیں کہ وہ اس بات کے قائل ہیں کہ وہ حیاتیاتی طور پر پیدا نہیں ہوئے بلکہ بڑے کام کرنے کے لیے خدا کی طرف سے براہ راست بھیجے گئے ہیں اور خدا انھیں بطور خاص توانائی فراہم کرتا ہے۔ تو کیا گجرات فسادات، مشتعل ہجوم کے ہاتھوں مسلمانوں کی مار پیٹ، منی پور کے قتل ان کے کام ہیں؟‘

https://twitter.com/jawharsircar/status/1792968810032513038

کانگریس ترجمان لونیا بلال جین لکھتی ہیں کہ ’پہلے مودی کہتے ہیں کہ وہ ماں کے پیٹ سے پیدا نہیں ہوئے۔ پھر سمبت پاترا کی زبان پھسلتی ہے پھر وہ لوگ مودی کے لیے مندر بنانے کی بات کرتے ہیں۔ اس طرح سپریم لیڈر کو دیوتا کے مقام پر پہنچانے کا کام مکمل ہو جاتا ہے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.