فلپائن کی میئر پر چینی جاسوس ہونے کا الزام: نوجوان سیاستدان جن کے ’خاندان، تعلیم اور پیدائش کا کوئی ریکارڈ نہیں‘

جمعرات کی رات صدر مارکوس نے ایلس گو کے معاملے پر بڑھتی ہوئی تشویش میں اپنی آواز کا اضافہ کیا۔ ’کوئی انھیں نہیں جانتا۔ ہم حیران ہیں کہ وہ کہاں سے آئی تھیں، اسی لیے ہم بیورو آف امیگریشن کے ساتھ مل کر ان کی تحقیقات کر رہے ہیں کیونکہ ان کی شہریت کے بارے میں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔‘

فلپائن کا ایکچھوٹا سا قصبہ اس وقت شہ سرخیوں میں آ گیا جب اس کی میئر پر چینی ایجنٹ ہونے کا الزام عائد کیا گیا۔

بمبن نامی یہ قبصہ دارالحکومت منیلا کے شمال میں واقع ہے اور یہ چاول پیدا کرنے والے سیلاب زدہ میدانوں میں سے ایک ہے۔

اس کی میئرایلس گو نوجوان اور سرگرم سرکاری ملازم ہیں۔ لمبے سیاہ بالوں اور مسکراتے چہرے کے ساتھ 35 سالہ ایلیس عینک لگاتی ہیں، مقامی بولی تگالوگ بولتی ہیں اور عوامی مقامات پر گلابی رنگ کا لباس پہننا پسند کرتی ہیں۔

ان کی زندگی کے بارے کوئی زیادہ نہیں جانتا جبکہ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ سووروں کے ایک فارم میں پلی بڑھی ہیں۔ان کا یہ اعتراف ان کے لیے خطرے کی گھنٹی ثابت ہوا اور انھیں رواں ماہ کے اوائل میں سینیٹ کے سامنے گواہی دینے کے لیے بلایا گیا۔

اس سے قبل قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پتہ چلا تھا کہ ان کے شہر میں ایک آن لائن کیسینو ہے جسے مقامی طور پر پوگو کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہ دھوکہ دہی کا مرکز ہے۔

حکام نے گذشتہ سال مارچ میں اس مرکز پر چھاپہ مارا تھا اور 202 چینی شہریوں اور 73 دیگر غیر ملکیوں سمیت تقریباً 700 کارکنوں کو بچایا تھا جنھیں آن لائن محبت کا جھانسہ دینے کے لیے مجبور کیا گیا تھا۔

پوگو سے مراد ’فلپائن آف شور گیمبلنگ آپریٹر‘ ہے جس کے گاہکوں میں مین لینڈ چینی باشندے شامل ہیں۔

یہ کاروبار روڈریگو ڈوٹرٹے کے دور میں پھلے پھولے لیکن سنہ 2022 میں ختم ہونے والی صدارت ان کی چین کے ساتھ قریبی تعلقات کی علامت تھی۔

لیکن موجودہ صدر فرڈینینڈ مارکوس کے دور میں پوگو کو اس وقت سخت جانچ پڑتال کا سامنا کرنا پڑا جب یہ پتہ چلا کہ ان میں سے کچھ کو انسانی سمگلنگ اور آن لائن فراڈ کی کارروائیوں کے مرکز کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔

ایلس گو کا معاملہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب منیلا اور بیجنگ کے درمیان مونگے کی چٹانوں اور دوسرے وسائل سے مالا مال جنوبی بحیرہ چین کے معاملے پر تناؤ بڑھ رہا ہے۔

سوئمنگ پول اور شراب کا تہہ خانہ

پتہ چلا کہ وہ اس زمین کے آدھے حصے کی مالک تھیں جہاں پوگو واقع تھا اور یہ ان کے دفتر کے بالکل عقب میں واقع ہے۔

ان کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے دو سال قبل میئر کا انتخاب لڑنے سے پہلے یہ جائیداد فروخت کر دی تھی۔

تقریباً آٹھ ہیکٹر پر پھیلے اس کمپاؤنڈ کی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس میں ایک گروسری، گودام، سوئمنگ پول اور یہاں تک کہ ایک شراب خانہ بھی ہے۔

ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ فراڈ کے اس مرکز میں کارکن لمبی سفید میزوں پر قطاروں میں رکھے کمپیوٹرز پر قطار در قطار بیٹھے ہیں اور ادھر ادھر کر رہے ہیں۔

گو کے نام پر ایک ہیلی کاپٹر اور فورڈ ایکسپیڈیشن بھی رجسٹرڈ پایا گیا ہے لیکن ان کا دعویٰ ہے کہ ان کی زمین کی طرح یہ بھی بہت پہلے فروخت ہو چکے ہیں۔

سینیٹ کی سماعت کے بعد سینیٹر ریسا ہونٹیروس نے پوچھا کہ کیا یہ سمجھا جائے کہ گو اپنے ذاتی اور کاروباری پس منظر کے بارے میں سوالات کے ’غیر شفاف‘ جوابات کی بنیاد پر چینی ’اثاثہ‘ ہیں۔

جمعرات کی رات صدر مارکوس نے ایلس گو کے معاملے پر بڑھتی ہوئی تشویش پر اپنی جانب سے بھی تشویش ظاہر کی۔ انھوں نے کہا: ’کوئی انھیں نہیں جانتا۔ ہم حیران ہیں کہ وہ کہاں سے آئیں، اسی لیے ہم بیورو آف امیگریشن کے ساتھ مل کر اس کی تحقیقات کر رہے ہیں کیونکہ ان کی شہریت کے بارے میں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔‘

ایلس گو نے قانون سازوں کو بتایا کہ وہ ’نہ ہی پوگوز کی محافظ ہیں اور نہ ہی اس کی حمایتی ہیں۔‘

ان کے پسِ منظر کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں، جو دیہی فلپائن میں غیر معمولی بات ہے، جہاں مقامی عہدیدار اکثر سیاسی خاندانوں سے وابستہ ہوتے ہیں۔

وہ صرف ایک منتخب عہدیدار کی حیثیت سے اپنی پہلی مدتگزار رہی ہیں۔

الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ انھوں نے سنہ 2021 میں بمبن میں ووٹ ڈالنے کے لیے اندراج کرایا تھا جو کہ میئر بننے سے ایک سال قبل کی بات ہے۔

ان کا خاندانی نام 'گو' بھی چینی نسب والے فلپائنیوں کے عام خاندانی ناموں میں شامل نہیں ہے۔

چونکہ فلپائن سپین اور چین کی نوآبادیات میں شامل رہا ہے اس لیے ان کے ساتھ فلپائن کے صدیوں پر محیط تجارتی اور گہرے ثقافتی تعلقات ہیں۔ درحقیقت فلپائن میں دنیا کا قدیم ترین چائنا ٹاؤن ہے۔

سینیٹرز کی جانب سے پوچھ گچھ کے دوران گو نے اعتراف کیا کہ ان کا برتھ سرٹیفکیٹ مقامی حکام کے پاس اس وقت رجسٹرڈ کیا گیا جب وہ 17 سال کی ہو گئی تھیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کسی ہسپتال یا کلینک میں نہیں بلکہ ایک گھر میں پیدا ہوئی تھیں۔اور اس کے متعلق وہ مزید تفصیلات نہیں دے سکیں۔

انھوں نے بتایا کہ انھیں خاص طور پر فیملی کمپاؤنڈ کے اندر ہی گھر پر تعلیم دی جاتی تھی جہاں وہ پلیں بڑھیں۔تاہم انھیں اپنے ہوم سکول کا نام یاد نہیں اور انھوں نے اس کے تلعلق سے اپنے صرف ایک ٹیچر کا نام لیا۔

انھوں نے کہا کہ ان کے والد فلپائنی ہیں لیکن کاروباری ریکارڈ میں ان کے والد کی شناخت چینی شہری کے طور پر کی گئی ہے۔

منیلا براڈکاسٹر جی ایم اے نیوز کے مطابق انھوں نے سنہ 2022 کی انتخابی مہم کی تقریر میں کہا تھا کہ ’بہت سے لوگ پوچھ رہے ہیں، ایلس گو کون ہے؟ میں بمبن سے ایلس گو ہوں۔ میری والدہ فلپائنی ہیں، میرے والد چینی ہیں۔‘

ہونٹیروس ان لوگوں میں شامل تھیں جنھوں نے ایلس گو سے ان کی پیدائش اور تعلیم کے ریکارڈ کے بارے میں سوالات کیے۔ جب انھوں نے میئر پر مزید وضاحت کرنے کے لیے دباؤ ڈالا تو انھیں جواب میں صرفیہ سننے کو ملا کہ ’میں آپ کو آئندہ جواب دوں گی۔ ‘

ہونٹیروس نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’میں اس بات سے سب سے زیادہ پریشان ہوں کہ ان کے جوابات کتنے الجھے ہوئے ہیں، خاص طور پر ان کے پس منظر کے بارے میں۔ کیا میئر ایلس اور ان جیسے پراسرار پسِ منظر رکھنے والے چین کے لیے اثاثہ ہیں یا ان کے لیے کام کر رہے ہیں؟‘ جنھیں ہمارے ملک میں تعینات کیا گیا ہے تاکہ وہ فلپائن کی سیاست پر اثر انداز ہو سکیں۔‘

سماعت کے موقع پر موجود سینیٹر شیرون گاٹچلیان کا کہنا تھا کہ ’اس بات پر یقین کرنا مشکل ہے کہ بمبن کی میئر ایلس گو ہمارے سوالات کا جواب ہمیشہ ’مجھے نہیں معلوم‘ ہے اور انھیں یہ بھی یاد نہیں کہ وہ کہاں رہتی تھیں۔‘

ایلسگو نے جاسوسی کے الزامات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے اور گذشتہ ہفتے سینیٹ میں پیشی کے بعد سے میڈیا انٹرویوز سے گریز کیا ہے۔

مارکوس کا کہنا تھا کہ ایلس گو کے خلاف تحقیقات کا مقصد غیر ملکی شہریوں کو ملک میں عوامی عہدوں پر فائز ہونے سے روکنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ضروری نہیں کہ فلپائن صرف ایک ملک کی طرف دیکھ رہا ہو۔‘

مارکوس نے کہا کہ’ ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مزید سخت کریں گے۔ قوانین موجود ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ لوگ پیسے لا سکتے ہیں، یا انھیں رشوت دی جا سکتی ہے۔‘

الیکشن کمیشن اور وکلاایلس کے معاملے کی جانچ کر رہے ہیں تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ آیا وہ غیر قانونی طور پر عوامی عہدے پر فائز تو نہیں ہوئی ہیں۔ یہ ثابت ہونے کی صورت میں انھیں ان کے عہدے سے ہٹایا جا سکتا ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.