دنیا کے کئی ممالک شرح پیدائش میں کمی سے کیوں پریشان ہیں اور اس کا حل کیا ہے؟

آج کل آبادی میں اضافہ صرف سب صحارا افریقہ تک محدود ہے۔ لیکن پیدائش کی شرح میں کمی اتنی پریشانی کا باعث کیوں بن رہا ہے؟
birth rate decline
Getty Images
دنیا کے دو تہائی حصے میں شرح پیدائش کم ہو رہی ہے۔

امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک کو درپیش سب سے بڑے مسائل میں سے ایک بچوں کی پیدائش کی شرح میں کمی ہے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کی پروفیسر سارہ ہارپر کہتی ہیں کہ ’یہ راتوں رات نہیں ہوا اور ہمیں اس کے لیے بہت پہلے سے تیاری کرنی چاہیے تھی۔‘

وہ کہتی پیں کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ ڈیموگرافک ٹائم بم ہے، یہ آبادی میں آنے والی بتدریج تبدیلی کا حصہ ہے۔ ہمیں معلوم تھا کہ ایسا ہونے والا ہے اور یہ سلسلہ پوری 21ویں صدی کے دوران جاری رہا ہے۔‘

کسی بھی ملک کے لیے اپنی آبادی کو بڑھانے یا برقرار رکھنے کے لیے اسے فی عورت اوسطاً 2.1 سے 2.4 بچوں کی شرح پیدائش کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسے ’متبادل کی شرح‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

2022 کے اعداد و شمار کے مطابق برطانیہ میں فی عورت بچوں کی پیدائش کی شرح کم ہو کر 1.49 پر آگئی ہے، 2021 میں یہ شرح 1.55 تھی۔ کچھ ایسی ہی صورتحال سکاٹ لینڈ اور شمالی آئرلینڈ میں ہے۔

جبکہ گذشتہ سال امریکہ میں شرح پیدائش ریکارڈ کمی کے بعد 1.62 پہنچ گئی جو کہ 1960 میں اس سے دوگنا تھی۔

آج کل آبادی میں اضافہ صرف سب صحارا افریقہ تک محدود ہے۔ لیکن پیدائش کی شرح میں کمی اتنی پریشانی کا باعث کیوں بن رہا ہے؟

بچوں کی پیدائش کی شرح میں کمی کے کسی بھی ملک کی معیشت پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں بوڑھے افراد کی شرح میں اضافہاور آبادی میں کمی کے علاوہ کام کرنے کے قابل افراد کے مقابلے میں پینشن لینے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔

مثال کے طور پر کسی بھی ملک کے لیے معاشی طور پر ترقی کرنا مشکل ہوجائے گا اگر وہاں کمپنیوں کو نوکری پر رکھنے کے لیے افراد ہی نہ ملیں؟ یا اگر کام کی کرنے والے کم اور پینشن لینے والے ریٹائرڈ افراد کی زیادہ ہوں تو معیشت کا پہیہ کیسے چلے گا؟

بچوں کی پیدائش کی شرح میں اضافے کے لیے حکومتیں کئی طرح کے اقدامات کرتی ہیں جیسے ٹیکس میں چھوٹ اور تنخواہ کے ساتھ میٹرنٹی کی چھٹیاں۔

ایسے اقدامات سے پیدائش کی شرح میں کمی کی رفتار تو تھم جاتی ہے لیکن اس سے شرح میں شاذ و نادر ہی اضافہ ہوتا ہے۔

اگرسادہ الفاظ میں کہا جائے تو خواتین جتنی تعلیم یافتہ ہوں گی ان کا رجحان اتنا ہی کمانے اور اپنی زندگی کو بہتر بنانے کی جانب ہوگا۔ اور وہ ماں بننے پر اپنے کیریئر کو ترجیح دیتی ہیں اور اسی لیے یا تو ان کے بچوں کی تعداد کم ہوتی ہے یا پھر ہوتے ہی نہیں۔

بچوں کی شرح پیدائش میں کمی سے کیسے نمٹا جائے؟

کسی بھی ملک کے پاس بچوں کی پیدائش کی شرح میں کمی سے نمٹنے کے دو طریقے ہیں: ایک یہ کہ وہ اپنے لوگوں کو زیادہ صحتمند رکھیں اور زیادہ عرصے تک ان سے کام کروائیں۔ دوسرا یہ کہ بڑے پیمانے پر امیگریشن کی اجازت دیں۔ اس سے نمٹنے کا کوئی تیسرا حل نہیں ہے۔

دنیا میں سنگاپور کی آبادی سب سے زیادہ تیزی سے بوڑھی ہو رہی ہے اور وہ اس سے نمٹنے کے لیے پہلے آپشن پر عمل پیرا ہیں۔

پروفیسر انجیلیک چین سنگاپور کے سینٹر فار ایجنگ ریسرچ اینڈ ایجوکیشن کی ایگزیکٹیو ڈائیریکٹر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ سنگاپور میں کوششیں کی جا رہی ہیں کہ ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھائی جائے اور اڈھیر عمر میں لوگوں کو ٹریننگ مہیا کی جائے۔ ’اس کے علاوہ کمپنیوں کو بڑی عمر کے افراد کو ملازمت پر رکھنے کی ترغیب دی جارہی ہے اور انھیں اپنے ملازمین کو دوبارہ ملازمت کی آفر دے کر انھیں 69 سال کام پر رکھنے کے لیے کہا جا رہا ہے۔‘

پروفیسر چین کہتی ہیں کہ ’ری-ایمپلائمنٹ‘ یا دوبارہ ملازمت کا مطلب ہے کہ ملازمین کے پاس آپشن ہو کہ اگر وہ چاہیں تو ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچنے کے بعد بھی کام کرتے رہیں۔

سنگاپور میں ریٹائرمنٹ کی عمر 63 سال ہے جو 2026 میں بڑھا کر 64 اور 2030 تک 65 کر دی جائے گی۔ سنہ 2030 سے اگر ریٹائرڈ افراد چاہیں تو ری-ایمپلائمنٹ کے تحت 70 سال کی عمر تک کام کر سکیں گے۔

پروفیسر چین کہتی ہیں کہ سنگاپور کی حکومت کوشش کر رہی ہے کہ ہر شخص کو ایک ڈاکٹر دستیاب ہو جو ان کی صحت کا خیال رکھے تاکہ لوگ لمبی عمر تک کام کے قابل رہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ اس کام کے لیے سنگاپور حکومت ایک خطیر رقم خرچ کر رہی ہے تاکہ ہمارے لوگ زیادہ صحتمند رہیں اور ان کے پاس لمبی عمر تک کام کرنے کا موقع ہو۔

رونلڈ لی کیلیفورنیا یونیورسٹی معاشیات کے پروفیسر ہیں۔ ان کے مطابق بڑی عمر کے امریکیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے کام کرنا پڑ رہا ہے۔

ان کے مطابق دیگر ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں امریکہ میں 65 سال اور اس سے زیادہ عمر کے افراد اپنے اخراجات میں زیادہ حصہ ڈالتے ہیں۔

تاہم، پروفیسر لی کے خیال میں یہ کوئی بری چیز نہیں ہے۔

’میرے خیال میں پوری دنیا کو یہ سوچ ختم کرنی ہوگی کہ عمر رسیدہ بوڑھے لوگ اپنی زندگی کے اختتام پر غیر معینہ مدت کے لیے فرصت کے حقدار ہیں۔‘

’لوگ زیادہ صحت مند، مضبوط، ذہنی طور پر تیز، اور پہلے سے کہیں زیادہ عمر تک کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ مجھے امید ہے کہ ریٹائرمنٹ کی عمر 70 سے کہیں اوپر جائے گی۔‘

فی الحال، امریکیوں کو 66 سال اور دو ماہ کی عمر میں جا کر مکمل سوشل سیکورٹی پنشن ملتی ہے۔ لیکن آہستہ آہستہ یہ حد بڑھا کر 67 کر دی جائے گی۔

آبادی
Getty Images

پروفیسر لی کے خیالات شاید بہت زیادہ مقبول نہ ہوں، لیکن معاشی طور پر یہ ناگزیر لگتا ہے۔ جیسے جیسے لوگوں کی متوقع عمر بڑھتی جاتی ہے ویسے ویسے ریٹائرمنٹ کا عرصہ بھی طویل ہوتا جاتا ہے۔ لوگوں کو اتنے عرصے تک ریٹائرمنٹ کی ادائیگیاں کرنا حکومتوں کے لیے ممکن نہیں۔ اس کا واضح حل زیادہ عمر تک کام کرنا ہی ہے۔

اس مسئلے کا ایک اور حل بھی ہے، امیگریشن میں اضافہ۔ لیکن بحر اوقیانوس کے دونوں جانب اس پر واضح اختلاف پایا جاتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ امیگریشن سے کم شرح پیدائش کے مسئلے کو آسانی سے حل کیا جا سکتا ہے۔

’سیاسی اور پالیسی کے مسائل ہیں، لیکن آبادی کے تناسب کو برقرار رکھنے کے لیے ہمیں ان ممالک کے لوگوں کو نقل مکانی کی اجازت دینی چاہیے جہاں بچوں کی پیدائش کی شرح بہت زیادہ ہے اور جہاں شاید اگلی چار دہائیوں کے لیے کام کرنے والے دستیاب ہیں تا کہ دنیا میں توازن برقرار ہو سکے۔‘

ہم سب جانتے ہیں کہ بڑے پیمانے پر امیگریشن کی بہت مخالفت ہوتی ہے حالانکہ اکثر حکومتیں بھی ضرورت پڑنے پر اس پر آنکھیں بند کر لیتی ہیں۔

الزبتھ کوپر یورپی پالیسی سینٹر کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ہنگری کی مثال موجود ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ہنگری کی حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ وہ تارکین وطن کو بالکل برداشت نہیں کرتے۔ یہ ممالک عوامی سطح پر اسے تسلیم نہیں کریں گے، لیکن دیکھ بھال اور صحت جیسے شعبوں میں انھوں نے امیگریشن کی غیر واضح حکمت عملی تیار کر رکھی ہے۔‘

مسئلہ یہ ہے کہ بیشتر ترقی یافتہ دنیا میں امیگریشن اتنی تیزی سے نہیں ہو رہی جتنی تیزی سے شرح پیدائش میں کمی کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہے۔ دوسری جانب امیگریشن کو ان ممالک میں پہلے سے ہی ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

ماہرین جانتے ہیں کہ کچھ تو کرنا ہوگا۔ ان ممالک کو یا تو لوگوں کو زیادہ عمر تک کام کروانا ہوگا یا امیگریشن بڑھانی ہوگی۔ یا شاید دونوں چیزوں کی ضرورت پڑے۔

لیکن ان اقدامات کے لیے سیاسی اتفاق رائے کی ضرورت ہے، اور سیاست دان جانتے ہیں کہ لوگوں سے اضافی امیگریشن کی منظوری کے لیے کہنا اور لمبی عمر تک کام کرنے کے لیے کہنے سے ان کو ووٹ نہیں ملیں گے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.