کئی پاکستانی طلبہ اور ورکرز کرغزستان سے واپس کیوں نہیں آنا چاہتے؟

image

کرغزستان میں حالیہ واقعات کے بعد پاکستانی طلبہ اور ورکرز خود کو غیرمحفوظ تصور کر رہے ہیں۔

خیبر پختونخوا حکومت اور وفاقی حکومت کے تعاون سے ان ورکرز اور طلبہ کو پاکستان لانے کی کوششیں جاری ہیں تاہم کئی طلبہ اور ورکرز ایسے بھی ہیں جو مجبوری یا پھر حالات معمول پر آنے کی امید لیے کرغستان میں رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔

متعدد پاکستانی طلبہ اس وجہ سے پاکستان واپسی کا نہیں سوچ رہے کہ آنے والے دنوں میں حالات میں بہتری کے اشارے مل رہے ہیں جبکہ کئی طلبہ امتحانی مجبوریوں کے باعث نہیں آ پا رہے۔

طلبہ کے علاوہ کئی پاکستانی ورکرز بھی اس وقت کرغزستان میں موجود ہیں جنہیں کوئی کام بھی نہیں مل رہا۔

ان میں سے زیادہ تر وطن واپسی کے لیے تعاون کی اپیل کر رہے ہیں لیکن نہایت کم تعداد ایسے ورکرز کی بھی ہے جو کرغزستان میں خوش تو نہیں ہیں لیکن اپنے موجودہ کام کی وجہ سے وہیں پر رہنا چاہتے ہیں۔

وہ مستقبل میں سیاحت کی بدولت مزید کام کی امید لیے ہوئے ہیں۔

گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے ولی وصی احمد جان پانچ برسوں سے کرغزستان میں پڑھائی کے سلسلے میں مقیم ہیں۔ وہ اس سے قبل دو بار پاکستان آ چکے ہیں اور اب ان کا فائنل سمسٹر چل رہا ہے۔

حالیہ واقعات کے بعد وہاں کے حالات سے متعلق انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ اس وقت حالات غیرمعمولی حد تک خراب نہیں ہیں۔ ’صورت حال پہلے سے بہتر ہے اور ہمیں بازار جانے اور اشیائے خور و نوش لینے میں بھی کوئی دقت نہیں ہے۔ بس دل میں ایک خوف ہے کہ کہیں دوبارہ کوئی مسئلہ نہ ہو جائے کیونکہ یہاں کی حکومت نے ابھی تک صرف پانچ یا چھ مجرموں کو گرفتار کیا ہے جبکہ حملہ کرنے والے ایک ہزار سے بھی زیادہ زیادہ تھے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’یہ اس خوف کے باوجود پاکستان آنا نہیں چاہتے کیونکہ ایک طرف پڑھائی جاری رکھنے کا غم ہے تو دوسری طرف انہیں امید ہے کہ حالات معمول پر آجائیں گے۔‘

 وصی احمد جان کے مطابق ’حالانکہ ہمیں فری فلائٹس کی پیشکش ہو رہی ہے لیکن چونکہ میں فائنل ایئر کا طالب ہوں تو میرے لیے وطن واپس آنا مشکل ہے۔ جیسے ہی ڈگری مکمل ہو گی میں واپس پاکستان چلا جاؤں گا۔‘

 انہوں نے مزید بتایا کہ ان کے ساتھ رہائش پذیر دیگر دوست وطن واپسی کے بارے میں نہیں سوچ رہے۔ ’میرے کچھ دوستوں کو لگتا ہے کے حالات بہتر ہو جائیں گے اور وہ اپنا کام اور پڑھائی جاری رکھ سکیں گے، اس لیے انہوں نے ابھی واپسی کا نہیں سوچا۔ ہمارے جیسے کئی لوگ اب بھی یہاں رہنا چاہتے ہیں لیکن مطمئن کوئی نہیں۔ بس ایک امید باقی ہے کہ حالات بہتر ہوجائیں گے۔‘

کئی طلبہ کو لگتا ہے کہ وطن واپسی سے متعلق فیصلہ کرنا ان کی ذاتی سوچ پر منحصر ہے۔

قمر نامی پاکستانی طالب علم نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ایسا نہیں ہے کہ حالات بہتر ہیں لیکن پاکستان جانے یا نہ جانے کا فیصلہ طلبہ پر منحصر ہے۔ میں 2019 سے یہاں ہوں، پہلے ایسے واقعات کبھی رونما نہیں ہوئے۔ اس لیے مجھے امید ہے کہ حالات بہتر ہوجائیں گے، اس لیے میں واپسی کا نہیں سوچ رہا تاکہ اپنا سب کچھ معمول کے مطابق پورا کر کے ہی واپس روانہ ہوں۔‘

ان کا خیال ہے کہ تعلیم نامکمل چھوڑ کر جانے سے ان کے تعلیمی سلسلےمیں غیرضروری خلل پڑ سکتا ہے جس کے باعث ان کا وقت بھی ضائع ہو سکتا ہے۔

منگل کی رات پاکستان کے وزیرخارجہ اسحاق ڈار کرغزستان پہنچے تھے (فائل فوٹو: وزارت خارجہ)کئی پاکستانی طلبہ کرغزستان حکومت کے اقدامات سے کسی حد تک مطمئن ہیں جن کا خیال ہے کہ حکومتی اقدامات اور بین الاقوامی دباؤ کی بدولت حکومت حفاظتی اقدامات کرنے پر مجبور ہے جس سے تحفظ کی فضاء پروان چڑھ رہی ہے۔

سیالکوٹ کے رہائشی یوسف کرغزستان کے دارالحکومت بشکیک میں مقیم ہیں۔ ان کا ساتواں سمسٹر چل رہا ہے اور انہیں امتحانی دباؤ کا بھی خدشہ نہیں لیکن وہ مطمئن نظر آرہے ہیں۔

انہوں نے اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ’حالات کچھ ایسے ہیں کہ ہم باہر جا سکتے ہیں۔ مقامی لوگ اب کسی کو مار نہیں رہے بس ڈرا رہے ہیں۔ جو غیرملکی ڈر جاتا ہے ان سے سامان وغیرہ چھین کر فرار ہو جاتے ہیں۔‘

یوسف اس وقت وہاں ایک مقامی پولیس سٹیشن میں بیٹھے ہیں جہاں ان کے مطابق نشاندہی کرنے پر ان واقعات میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔

ان کے بقول ’میں پولیس سٹیشن میں بیٹھا ہوں۔ پولیس والوں نے ایک فہرست بنائی ہے جس میں ان تمام لوگوں کے نام شامل کیے گئے ہیں جو مختلف ویڈیوز میں دکھائی دے رہے ہیں اور جنہوں نے غیرملکیوں پر تشدد کیا ہے۔ پولیس ان لوگوں کو گرفتار کر کے لا رہی ہے اور ان سے تفتیش کر رہی ہے۔‘

ایک پاکستانی طالب علم نے بتایا کہ ’چونکہ میں فائنل ایئر کا طالب ہوں تو میرے لیے وطن واپس آنا مشکل ہے۔‘ (فائل فوٹو: وکی پیڈیا)یوسف کے مطابق ان غیرملکی طلبہ اور ورکرز کو بھی بلایا جا رہا ہے جن سے سامان چھینا گیا ہے۔ ’یہاں مختلف واقعات کے بعد باضابطہ طور پر رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ کئی واقعات کا علم ویڈیوز کے ذریعے ہو رہا ہے۔ پولیس والے ان رپورٹس اور ویڈیوز کی بنیاد پر متاثرین کو فون کر کے بلا رہی ہے۔ اس طرح پولیس ملزمان کو پکڑ کر غیرملکیوں کو ان کا سامان بھی واپس دلوا رہے ہیں۔ پولیس کہہ رہی ہے کہ ان ملزمان کو گرفتار کر کے ان پر فوجداری مقدمات چلائے جائیں گے۔‘ یوسف کے مطابق مقامی انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اقدامات کی بدولت وہ وطن واپسی کا خیال ترک کر چکے ہیں۔ ’جب پولیس کارروائی کر رہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔ اب یہاں موسم بھی اچھا ہے جبکہ پاکستان میں گرمی زیادہ ہے، اس لیے یہاں رہنا زیادہ مناسب ہے۔‘

پولیس کی جانب سے تخریب کار عناصر کےخلاف کارروائی پر ایک پاکستانی طالب غضنفر (فرضی نام) نے بتایا کہ اس کارروائی کے پیچھے ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں اب سیاحت کا ایک دور شروع ہو گا۔ ’یہاں کے لوگوں کی زیادہ تر کمائی سیاحت سے ہی ہوتی ہے، اس لیے اب ان کی کوشش ہے کہ تخریب کار عناصر کو پکڑ کر حالات ٹھیک کیے جائیں تاکہ غیرملکی سیاحوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ مقامی لوگوں کو غیرملکی ورکرز سے مسئلہ تھا۔ یہ لوگ خود کام نہیں کرتے اور غیرملکی ورکرز کو بوجھ سمجھتے تھے۔ ان کے علاوہ کئی طلبہ امتحان اور اپنے دستاویزات کی وجہ سے پاکستان نہیں آنا چاہتے۔

پاکستانی طلبہ اور ورکزر کی  بڑی تعداد کرغزساتان سے واپس نہیں آنا چاہتی (فوٹو: فواد خان اباخیل)ڈاکٹر اعتزاز حسن نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’متعدد طلبہ کا آخری سال ہے، اس کے بعد ان کی چھٹیاں بھی ہونا ہیں اور سٹیٹ کا امتحان بھی ہونا ہے۔ ہم اپنا آخری امتحان دینے کے بعد اپنے دستاویزات حاصل کر کے ہی پاکستان آ سکتے ہیں بصورت دیگر ہم یہیں پر رہیں گے۔‘

ان طلبہ کے علاوہ کئی غیرملکی ورکرز ایسے بھی ہیں جو اپنے وطن واپس لوٹنا چاہتے ہیں۔ ان کے مطابق کرغزستان میں مزدوری کی کمی کی وجہ سے وہ پہلے بھی وطن واپسی سے متعلق ذہن بنا چکے تھے۔

عقیل عباس کراچی کے رہائشی ہیں اور کرغزستان میں کام کرنے کی غرض سے گئے تھے۔ ان کے بقول ’ورکرز تقریباً سارے پاکستان واپس آنا چاہتے ہیں کیونکہ یہاں کام ختم ہو گیا ہے۔ ہم خود پاکستان سے پیسے منگوا کر اپنے کھانے کا انتظام کر رہے ہیں۔ ہم نے سات لاکھ ویزا پر لگایا لیکن اب تین مہینوں سے کام نہیں مل رہا اس لیے یہی موقع ہے کہ ہم واپس آ جائیں لیکن سب کو طلبہ کی فکر ہے اور ہمارے بارے میں کوئی نہیں سوچ رہا۔‘

ایک اور ورکرز فیصل عباسی نے بتایا کہ وہ اور اس کے دیگر چند ساتھی بھی واپسی کے لئے تیار بیٹھے ہیں لیکن انتظامات نامکمل ہونے کی وجہ سے وہ نہیں آ سکتے تاہم نہایت کم تعداد میں ایسے ورکرز بھی ہیں جو سیاحت کے آسرے پر یہاں ٹھہرنا چاہتے ہیں۔

’ہم اور ہمارے دیگر ساتھی تو واپسی کا سوچ چکے ہیں لیکن کئی انڈین، بنگلہ دیشی سمیت پاکستانی ورکرز ایسے بھی ہیں جو اس وقت یہی سوچ رہے ہیں کہ کئی مہینوں سے کام نہیں ہوا۔ اب جب سیزن آ رہا ہے تو واپسی کے بارے میں سوچنا احمقانہ خیال ہے۔‘


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.