پی ای ایل ای ڈی: مستقبل کی سکرین جو ناممکن کو ممکن بنا دے گی

محققین ایسی ڈسپلے ٹیکنالوجی پر کام کر رہے ہیں جس سے جو نہ صرف ایل ای ڈی سے کم توانائی کا استعمال کرے گی بلکہ اس سے سستی اور کہیں زیادہ صلاحیتوں کی حامل ہو گی

آج ایل ای ڈیز ہر جگہ نظر آتی ہیں۔ ٹی وی سکرین سے لے کر سمارٹ فون ڈسپلے اور سمارٹ واچ تک، ہر چیز میں ایل ای ڈیز مختلف شکل میں استعمال ہوتی ہیں۔

تاہم اگر آپ اپنے سمارٹ فون کی بیٹری کا استعمال دیکھیں تو علم ہو گا کہ بیٹری کا سب سے زیادہ استعمال بھی آپ کی سکرین ہی کرتی ہے۔

اب محققین ایسی ڈسپلے ٹیکنالوجی پر کام کر رہے ہیں جو نہ صرف ایل ای ڈی سے کم توانائی کا استعمال کرے گی بلکہ اس سے سستی اور کہیں زیادہ صلاحیتوں کی حامل ہو گی۔

پہلی نظر میں یہ 1980 کی دہائی کے کسی کمپیوٹر کی چھوٹی سی ٹمٹماتی ہوئی سکرین معلوم ہوتی ہے جس پر انتہائی کم ریزولوشن والی تحریر ہے۔ لیکن مستقبل میں یہ سکرین ایل ای ڈیز کی جگہ لے سکتی ہے۔

اس سکرین کو پیرووسکائٹ لائٹ ایمیٹنگ ڈائیوڈ (پی ای ایل ای ڈی) ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے بنایا گیا ہے۔

یہ سکرین آج کل سمارٹ فون کے ڈسپلے میں استعمال ہونے والی ایل ای ڈی ٹیکنالوجی سے یکسر مختلف ہے۔ پی ای ایل ای ڈی کا استعمال کرتے ہوئے شاید مستقبل میں ایسے آلات بنانا ممکن ہوں جو نہ صرف آج کل کی ڈیوائسز سے زیادہ پتلی اور سستی ہو بلکہ ان کی بیٹری زیادہ دیر تک چلے گی۔

پروفیسر فینگ گاؤ سویڈن کی لنکوپنگ یونیورسٹی سے منسلک ہیں۔ وہ اور ان کے ساتھی پی ای ایل ای ڈی پر تحقیق کر رہے ہیں۔

پروفیسر گاؤ کا کہنا ہے کہ پی ای ایل ای ڈی روشنی کو جذب کرنے کے ساتھ ساتھ اس کا اخراج بھی کر سکتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ ایک ہی چیز کی مدد سے ٹچ، فنگر پرنٹ اور لائٹ سینسنگ ٹیکنالوجی کو مربوط کرنے کے لیے استعمال کر سکیں گے۔

فنگر پرنٹ سینسر، سمارٹ فون
Getty Images

’یہ مشکل تو ہے لیکن ہمارے خیال میں یہ ممکن ہے۔‘

آج کے سمارٹ فونز میں، ان تمام کاموں کے لیے فون کی سکرین میں الگ الیکٹرانک پارٹس لگائے جاتے ہیں۔

اپریل میں پروفیسر گاؤ اور ان کے ساتھیوں نے ایک تحقیقی مقالہ شائع کیا جس میں انھوں بتایا کہ ان کا پروٹو ٹائپ ٹچ اور روشنی کی حساسیت (لائٹ سینسیویٹی) کی صلاحیت رکھتا ہے۔

ڈینیئل براگا سوئٹزرلینڈ کی ٹیکنالوجی ریسرچ فرم فلکسِم (Fluxim) کے سیلز اور مارکیٹنگ کے سربراہ ہیں۔ ان کو پروفیسر گاؤ اور ان کے ساتھیوں کی تخلیق کافی پسند آئی ہے تاہم ان کے خیال میں جس قسم کے ڈسپلے کا وعدہ کیا جا رہا ہے اس کو تجارتی مقاصد کے لیے مارکیٹ میں جلد متعارف کروانا ممکن نہ ہوگا۔

پروفیسر گاؤ نے بی بی سی کو ویڈیو کال کے ذریعے اپنی ٹیکنالوجی کا تازہ ترین ورژن دکھایا۔ یہ ورژن بھی پہلے جیسی ہی ایک چھوٹی سی سکرین ہے۔

تاہم محققین اس کا پی پی آئی یعنی سکرین کے ہر ایک انچ میں دکھائی دینے والے پکسلز کو تقریباً دوگنا کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ لیکن اب بھی اس کا پی پی آئی محض 90 ہے۔

اس کا موازنہ اگر آج کل مارکیٹ میں دستیاب سمارٹ فونز میں استعمال ہونے والی سکرین سے کیا جائے تو کسیبھی 1080p ڈسپلے والی سکرین 400PPI پر مشتمل ہوتی ہے جب کہ 4K ڈسپلے کا پی پی آئی 800 سے زیادہ ہو سکتا ہے۔

پیرووسکائٹ کیا ہے؟

انیسویں صدی میں دریافت ہونے والے پیرووسکائٹ مادے میں کیلشیم، ٹائٹینیم اور آکسیجن کو ایک کرسٹل ڈھانچے میں ترتیب دیا جاتا ہے۔

بعد ازاں دریافت ہوا کہ اسی ساخت کے دوسری قسم کے پیرووسکائٹس بنائے جا سکتے ہیں جن میں مختلف عناصر یا مالیکیول ہوتے ہیں۔

پیرووسکائٹس کی صلاحیتیں اس میں شامل کیے جانے والے مواد پر منحصر ہوتی ہے۔

ڈاکٹر براگا کے خیال میں ’کیمیائی ساخت میں تھوڑی سی تبدیلی لا کر آپ مکمل نظر آنے والے سپیکٹرم کا احاطہ کر سکتے ہیں۔‘

ان کے مطابق پیرووسکائٹس بنانا نسبتاً آسان اور سستا عمل ہے مگر یہ بھی مشکلات سے خالی نہیں کیونکہ پی ای ایل ای ڈیز بہت غیر مستحکم ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ باآسانی نمی یا آکسیجن کی وجہ سے خراب ہو جاتے ہیں۔

ڈاکٹر لوریتا مسکریلا کا تعلق وی یو ایمسٹرڈیم (VU Amsterdam) یونیورسٹی سے ہے جہاں وہ نئی قسم کے پی ای ایل ای ڈی پر کام کر رہی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر پی ای ایل ای ڈی کچھ گھنٹوں یا دنوں کے لیے پڑی رہے تو اس سے خارج ہونے والی روشنی کا رنگ بتدریج کم ہو جاتا ہے یا ویسا نہیں رہتا جیسا آپ چاہتے ہیں۔

اور اس سے پیرووسکائٹس کا مقصد ہی ختم ہو جاتا ہے۔ اس کی مانگ کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان ڈیوائسز کو سرخ، سبز یا نیلے رنگ کی ایک بہت ہی مخصوص اور انتہائی خالص شکل کے اخراج کے لیے ٹیون کیا جا سکتا ہے جو مکمل رنگین ڈیجیٹل ڈسپلے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔

پروفیسر گاؤ کہتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ان کی روشنی میں کمی کو روکنے کے لیے اس کو گوند میں محفوظ کیا جا سکتا ہے۔

تاہم محققین اب بھی اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں کہ یہ ٹیکنالوجی طویل عرصے تک خراب نہ ہو۔

ڈاکٹر مسکریلا کے مطابق روایتی ایل ای ڈیز 50 ہزار گھنٹوں تک چلتی ہے جب کہ اس کے مقابلے میں پی ای ایل ای ڈی کی زندگی چند سو یا ہزار گھنٹوں پر محیط ہوتی ہے۔

ان کے خیال میں ایسا کوئی تجارتی پروڈکٹ جس میں پی ای ایل ای ڈی استعمال ہوئی ہو اس میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔

لیکن روشنی خارج کرنے والی پیرووسکائٹ کی ایک اور قسم ہے جو شاید آپ کو مارکیٹ میں اس سے پہلے ہی دکھ جائے۔

یہ کوئی ایل ای ڈی نہیں ہے بلکہ ایک فلٹر یا فلم جیسا مواد ہے جو روشنی کو جذب کرنے کے بعد کسی خاص رنگ کی شکل میں دوبارہ خارج کرتا ہے۔

آج کل مارکیٹ میں موجود کچھ ٹی وی میں ایک رنگین فلٹر لگا ہوتا ہے جو سکرین کے ہر پکسل میں استعمال ہونے والا سرخ، سبز اور نیلا رنگ فراہم کرتا ہے۔

ایل ای ڈی سکرین ٹی وی
Getty Images

آپ ان رنگوں کو مختلف سطحوں پر ملا کر مکمل تصویر دکھانے کے لیے درکار رنگوں کی حد حاصل کرتے ہیں۔

سرخ، سبز اور نیلے فلٹرز کو ایل ای ڈی بیک لائٹ سے روشن کیا جاتا ہے۔ لیکن آج کل استعمال ہونے والے فلٹرز درحقیقت اس روشنی کو کافی حد روک دیتے ہیں۔

اس کے برعکس فوٹو لیومینیسسینٹ پیرووسکائٹس تقریباً تمام روشنی کو باہر آنے دیتاہے اور اس کی وجہ سے سکرین پر دکھنے والے رنگوں کی چمک اور کارکردگی میں بڑا اضافہ ہوگا۔

برطانوی کمپنی ہیلیو (Helio) اس ٹیکنالوجی پر کام کر رہی ہے۔ ان کی ویب سائٹ پر شائع ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح سرخ یا سبز رنگ کی پیرووسکائٹ فلم نیلی روشنی کو سرخ یا سبز میں تبدیل کر کے خارج کر سکتی ہے۔

پروفیسر گاؤ اور ان کے ساتھی جس ٹیکنالوجی پر کام کر رہے ہیں وہ اس سے قطعی مختلف ہے۔

ان کا مقصد ایسی سکرین بنانا ہے جو پیرووسکائٹ سے بنی ایل ای ڈی کی مدد سے روشنی خارج کرتی ہے۔

انھیں الیکٹرو لیومینیسسینٹ پیرووسکائٹ کہا جاتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ کام کرنا آسان نہیں کیونکہ یہ نہ صرف غیر مستحکم ہے بالکہ الیکٹرک فیلڈ کے تعلق میں آنے سے بھی اس میں خرابی پیدا ہوسکتی ہے۔

لیکن یہ پیررووسکائٹ بغیر کسی رنگ کے فلٹر کی ضرورت کےسمارٹ فون، ٹیبلٹ یا ٹی وی سکرین میں سرخ، سبز اور نیلے رنگ کے پکسلز کو روشن کرنے کے لیےزیادہ کارآمد آپشن ثابت ہو سکتے ہیں۔

https://twitter.com/NaturePortfolio/status/1790025521784381707

اس ٹیکنالوجی کے استعمال سے ان آلات کی قیمت میں کمی لانے کے ساتھ ساتھ ان کی توانائی کی کھپت میں بھی کمی لائی جا سکے گی۔

فی الحال کوئی اس بارے میں یقین سے نہیں بتا سکتا کہ مستقبل کا پی ای ایل ای ڈی ڈسپلے آج کے او ایل ای ڈی (OLED) سکرین کے مقابلے میں کتنی کم توانائی استعمال کرے گا۔

ڈاکٹر مسکریلا کے مطابق لیبارٹری میں کیے گئے تجربات سے پتہ چلتا ہے کہ پی ای ایل ای ڈی ابھی سے ہی او ایل ای ڈی (OLEDs) کے ساتھ مسابقتی ہیں اور امید ہے کہ ایک دن کارکردگی کے لحاظ سے ان سے کہیں بہتر بن سکتی ہے۔

کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر سر رچرڈ فرینڈ ہیلیو کے شریک بانیوں میں سے ایک ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ پی ای ایل ای ڈی سے وابستہ چیلنجوں میں سے ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ اس سے روشنی کا اخراج صحیح سمت میں ہو جو کہ کسی بھی ڈسپلے کے لیے اہم ہے۔

’آپ کو روشنی کو سامنے کی طرف خارج کرنے کی ضرورت ہوتی ہے بجائے اس کے کہ وہ کنارے پر پھیل جائے۔‘

اس چیلنج کو حل کرنے کے لیے محققین بہت سی مختلف تکنیکوں کے ساتھ تجربہ کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر مسکریلا اور ان کے ساتھیوں نے پی ای ایل ای ڈیز کی سطح پر انتہائی چھوٹے چھوٹے ابھار امپرنٹ کرنے کی کوشش کی ہے جس سے روشنی کے اخراج کو بہتر بنانے میں مدد ملی ہے۔

تاہم پروفیسر گاؤ جو کہ ماضی میں پروفیسر سر فرینڈ کے ساتھ تحقیقی مقالہ شائع کر چکے ہیں ان کے لیے پی ای ایل ای ڈی سکرین کا مقصد محض روشنی کے اخراج سے کہیں زیادہ ہے۔

ان کو امید ہے کہ ایک دن انگلیوں کے نشانات کی توثیق سے لے کر دل کی دھڑکن کو سینس کرنے اور روشنی کا پتہ لگانے تک سب کچھ سنگل سلیب کا استعمال کرتے ہوئے کیا جا سکتا ہے جس کے درمین میں پیرووسکائٹ موجود ہوگی۔

پرفیسر گاؤ اس بارے میں بات کرتے ہوئے کافی پرجوش پو جاتے ہیں۔ ’یہ واقعی بہت منفرد ہے،‘ وہ کہتے ہیں۔ ’یہ سب کچھ دیگر ایل ای ڈی ٹیکنالوجیز کے ساتھ کرنا ممکن نہیں ہے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.