گرمی سے بچنے کے لیے درخت لگائیں لیکن کہاں اور کیسے؟

جب بھی ہم اپنی مصروف زندگی سے وقت نکال کر درخت لگانے کا سوچتے ہیں تو ہمیں کئی سوالات کا سامنا ہوتا ہے۔ ان میں سے کچھ ایسے سوالات جو سب سے پہلے ذہن میں آتے ہیں کہ کون سا درخت لگایا جائے اور کہاں لگایا جائے؟
درخت
Getty Images

پاکستان میں جیسے ہی گرمی کی شدت عروج پر پہنچتی ہے تو اکثر لوگ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں تاکہ گرمی کی شدت میں کمی ہو۔

واضح رہے کہ 2021 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اب صرف پانچ فیصد جنگلات باقی رہ گئے ہیں۔ ایسے میں جب عوام اپنی مصروف زندگی سے وقت نکال کر درخت لگانے کا سوچتے ہیں تو انھیں کئی سوالات کا سامنا ہوتا ہے۔ ان میں سے کچھ ایسے سوالات جو سب سے پہلے ذہن میں آتے ہیں کہ کون سا درخت لگایا جائے، کہاں لگایا جائے؟ پرورش کیسے کی جائے وغیرہ وغیرہ۔

کیونکہ کہیں درخت لگانے کی جگہ نہیں ہوتی تو کہیں پودا زیادہ دن تک زندہ نہیں رہتا، کہیں درخت بڑے ہو کر بجلی کی لٹکتی تاروں میں الجھ جاتے ہیں یا ان کی جڑیں زمین کے نیچے گزرتی سیوریج یا دیگر سروس لائنوں کو جکڑ کر انھیں نقصان پہنچاتی ہیں۔

لوگوں کے ایسے ہی سوالات کو سامنے رکھتے ہوئے بی بی سی اردو نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ انفرادی طور پر درخت لگانے کے لیے کن چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے اور کیا واقعی شجرکاری گرمی کی شدت کا توڑ ہے؟

درخت
Getty Images

شہروں میں درخت لگاتے وقت کن چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے؟

پاکستان کے معروف ہارٹی کلچر ایکسپرٹ توفیق پاشا نے بیبی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’پہلی بات، ہم درخت نہیں، پودا لگاتے ہیں۔ نرسری میں اکثر بیجوں یا قلموں سے پودا اگایا جاتا ہے اور جب وہ ایک یا دو سال کا ہو جاتا ہے تو اسے فروخت کیا جاتا ہے۔‘

’ہم وہ پودا لے کر آتے ہیں۔ لیکن صرف پودے لگانے سے گرمی کم نہیں ہوتی۔ ہمیں اس بات کا خیال رکھنا ہوتا ہے کہ یہ ایک سایہ دار درخت بن جائے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’شہروں میں ایسی جگہ درخت لگانا چاہیے جہاں حکام سے اجازت لینے کا مسئلہ نہ ہو۔ سب سے آسان یہی ہے کہ آپ اپنے گھر میں یا گھر کے ارد گرد درخت لگائیں جس کے لیے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں۔‘

توفیق پاشا نے بتایا ’اگر آپ سکولوں اور ہسپتالوں یا پارکس وغیرہ میں پودا لگانا چاہتے ہیں تو ہمیشہ انتظامیہ سے پوچھ کر لگائیں اور اس کی دیکھ بھال کی ذمہ داری لیں۔‘

انھوں نے کہا کہ علاقے کی جغرافیائی صورتحال کو مدنظر رکھ کر درخت لگائیں۔ ’درختوں میں مختلف سائز ہوتے ہیں۔ سڑک کے کنارے یا گلیوں میں پیپل کا درخت نہ لگائیں کیونکہ وہ پھیل جاتا ہے اور بہت بڑا ہو جاتا ہے۔ آخر میں وہ بیچارہ درخت کاٹ دیا جاتا ہے۔ آپ واپس زیرو پر آ جاتے ہیں بلکہ مائنس میں چلے جاتے ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اگر آپ کے پاس جگہ تنگ ہے تو آپ ایسے درخت لگائیں جو قد میں بڑھتے ہیں جیسے اشوک کا درخت ہے۔ یہ اوپر کی جانب بڑھتا ہے۔ اس کے علاوہ اپنی چھتوں پر سبزیاں اگائیں اور پودے رکھیں۔ اس سے بھی بہت فرق پڑے گا۔‘

منیزہ سید ثاقب ایک 45 سالہ ہاؤس وائف ہیں اور کراچی کے ایک ایسے علاقے میں رہائش پذیر ہیں جہاں تنگ گلیاں، ایک دوسرے سے جڑی ہوئی عمارتیں ہیں۔

انھوں نے شہری علاقوں میں شجرکاری کرنے سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ شجرکاری کے لیے ہمیں مقامی درختوں کا انتخاب کرنا چاہیے۔

’مقامی درخت اس علاقے کے ماحول کے عادی ہوتے ہیں۔ جیسے کہ نیم کا درخت کراچی کی آب و ہوا کے لیے مناسب ہے لیکن اسلام آباد میں اس کی آبیاری مشکل ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ مقامی درخت لگانے کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ اس سے الرجی کا خطرہ نہیں ہوتا اور باہر سے آئی کوئی دوسری قسمکا درخت مقامی درختوں کو نقصان بھی نہیں دیتا۔

منیزہ کو شہری علاقوں میں شجر کاری کرنے کا خیال سوشل میڈیا پر ایک رپورٹ دیکھ کر آیا تھا جس کے بعد انھوں نے ارادہ کیا کہ ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے خود ہی کچھ کرنا ہوگا۔

اس بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لیے انھوں نے توفیق پاشا سمیتدیگر ماہرین کی شجر کاری سے متعلق تربیتی ورکشاپس میں حصہ لیا اور انفرادی طور پر کام شروع کیا۔

منیزہ نے اس جانب پہلا قدم بڑھاتے ہوئے ’گرو گرین پی کے‘ نامی ایک فیس بُک گروپ بنایا جس میں لوگ باغبانی کے بارے میں ایک دوسرے سے بات کر کے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔

اب اس گروپ کے ارکان کی کل تعداد ایک لاکھ 30 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔

منیزہ درختوں کے انتخاب اور انسانی صحت پر ان کے اثرات کے متعلق بات کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’ہر درخت جس میں پھول ہوتا ہے، اس میں پولن موجود ہوگا۔ کچھ درختوں میں پولن زیادہ ہوتا ہے کچھ میں کم۔ ملبری سے پولن زیادہ پھیلتا ہے کیونکہ اس کا پھول پھٹ جاتا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’سنبل، سکھ چین، یہ درخت زیادہ پولن نہیں بناتے۔ اور ایک جگہ کبھی بھی ایک ہی قسم کے درخت نہیں لگانے چاہیے۔‘

درخت
Getty Images
پودے لگانے کا صحیح وقت 15 فروری سے 15 مارچ اور ساون کے مہینوں میں ہوتا ہے یعنی جولائی اور اگست

کس شہر میں کونسا درخت لگانا بہتر ہے؟

توفیق پاشا کہتے ہیں کہ کراچی، لاہور، فیصل آباد، ملتان، سکھر، حیدرآباد جیسے شہروں میں لگنم، کارڈیا، چمپا، کچنار، املتاس، جکاراندا جیسے درخت زیادہ مناسب ہیں۔

’نیم کا درخت لگانے سے گریز کریں کیونکہ یہ چوڑآئی میں پھیلتا ہے۔ یہ درخت پارکوں یا سڑکوں کے کنارے بہتر رہتا ہے۔‘

توفیق پاشا نے بتایا کہ اسلام آباد میں پائین اور پھلوں کے درخت لگائے جا سکتے ہیں۔ کوئٹہ میں میپل، میگنولیہ اور پائن کا درخت لگایا جا سکتا ہے۔ تاہم میگنولیہ درخت اسلام آباد اور لاہور میں بھی لگایا جا سکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ جب درخت لگائیں تو اس بات کا خیال رکھیں کہ ان کی جڑیں زیادہ گہرائی میں نہ جائیں۔

منیزہ اس بارے میں کہتی ہیں کہ شہروں میں درخت لگاتے ہوئے ایسی جگہ کا انتخاب کیا جائے جہاں سیوریج، اور دیگر سروس لائینوں کا گزر نہ ہو۔

’سڑکوں کے کنارےاکثر حکومت نے کچّی جگہ چھوڑی ہوتی ہے۔گھروں کے ارد گرد بھی ایسی جگہ ہوتی ہے۔ ہم اکثر حکام سے پوچھتے ہیں کہ ہمیں اس جگہ نشان لگا کر دیں جہاں سے گیس وغیرہ کی لائینیں نہ گزر رہی ہوں۔‘

البتہ توفیق پاشا اور منیزہ دونوں ماہرین کا کہنا تھا کہ بہتر یہی ہے کہ آپ اپنے گھر میں درخت لگائیں تاکہ اس کی دیکھ بھال میں آپ کو آسانی ہو اور پودے کو پنپنے کا موقع ملے۔

چونکہ گنجان آباد علاقوں میں پودے لگانے کی جگہ نہیں ہوتی، منیزہ نے تجویز دی کہ ’ایسی جگہوں پر بیلیں لگائی جا سکتی ہیں جیسے بوگن ویلا، المنڈا، کلسٹر وائین، بلیڈنگ ہارٹ، سینڈپیپر وائین، کورل وائین، ہنی سکل، موچی بیل اور چمیلی وغیرہ۔‘

انھوں نے بتایا کہ ایک عام بیل کو صرف ایک فٹ کی جگہ چاہیے۔ چونکہ ان بیلوں کی جڑیں زمین میں زیادہ گہری نہیں جاتیں تو گیس اور گٹر کی لائینوں کو ان سے خطرہ نہیں ہوتا۔

’بوگن ویلا اور المنڈا وغیرہ کی بیلیں گھروں اور عمارتوں کے ساتھ بالائی منزل تک چڑھ جاتی ہیں اور وہ وہی کام کرتی ہیں جو درخت کرتے ہیں۔ دیواروں کو دھوپ کی گرمائش سے بچاتی ہیں۔‘

توفیق پاشا کہتے ہیں کہ کم آمدن کے گھروں میں لوگ پھلوں کے کریٹ میں مٹّی بھر کر کریلے یا توری جیسی سبزیوں کی بیلیں چڑھا سکتے ہیں جس سے نا صرف ان کے کمروں کی دیواریں دھوپ کی تپش سے بچ جائیں گی بلکہ ان کو کھانے کے لیے بھی کچھ مل جائے گا۔

ایک سوال کے جواب میں توفیق پاشا نے کہا کہ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جہاں پلاننگ کی سخت کمی ہے۔

’اس لیے بہتر یہی ہے کہ آپ اپنے محلّے کے گورنمنٹ سکول، ہسپتال، پارکس یا مساجد میں پودا لگائیں اور اس کی دیکھ بھال کی زمہ داری خود لیں۔‘

اپنے تجربے کی بنا پر بات کرتے ہوئے منیزہ نے کہا کہ بیج بونا غیر مناسب ہے کیونکہ اس کی بہت دیکھ بھال کرنی ہوتی ہے۔ چھوٹے سے چھوٹا چھ انچ کا پودا یا 12 فٹ سے 15 فٹ تک کا درخت لگا سکتے ہیں۔

انھوں نے کہا ’آپ جتنا بڑا درخت لگائیں گے وہ اتنی جلدی بڑا ہوگا اور چھاؤں دے گا۔‘ ان کے تجربہ میں کم سے کم چار فٹ کا پودا لگانا چاہیے تاکہ اس کی دیکھ بھال میں آسانی ہو۔

'پودے کا کم از کم تین سال خیال رکھنا ہوتا ہے کیونکہ چار فٹ کے پودے کو درخت بننے میں کم از کم تین سے پانچ سال لگتے ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

درخت
Getty Images
منیزہ نے خبردار کیا کہ ’لوگوں کو لگتا ہے ان کے گھر میں مٹّی ٹھیک ہے لیکن عموماً ایسا نہیں ہوتا اس لیے بہتر ہے کہ تازہ مٹّی خرید لی جائے‘

درخت لگانے پر خرچہ کتنا آئے گا؟

منیزہ نے بتایا کہ ہر شہر میں حکومت کی جانب سے پودوں کے لیے مختلف نرسریاں ہوتی ہیں جہاں سے مقامی پودے اور درخت بہت مناسب داموں میں ملتے ہیں۔

’اپنے علاقے کی فارسٹری کا پتہ کریں اور سو یا دو سو روپے میں وہاں سے پودا خرید لیں۔ اگر آپ نزدیک کی کسی نرسری سے لیتے ہیں تو بھی 200 سے ہزار روپے تک میں آپ کو اچھا پودا مل جائے گا۔‘

منیزہ کہتی ہیں کہ آپ 300 روپے کا پودا لے لیں۔ کھاد اور تازہ مٹّی لیں، کراچی میں کھاد اور مٹّی کے مرکب کی بوری 200 روپے کی آتی ہے۔

توفیق پاشا نے بتایا کہ صرف کراچی میں کوئی 45 اقسام کے درخت با آسانی دستیاب ہیں۔

منیزہ نے خبردار کیا کہ لوگوں کو لگتا ہے ان کے گھر میں مٹّی ٹھیک ہے لیکن عموماً ایسا نہیں ہوتا اس لیے بہتر ہے کہ تازہ مٹّی خرید لی جائے۔

منیزہ نے بتایا کہ ’ماہانہ کوئی خرچہ نہیں ہوتا۔ آپ اسے روزانہ پانی دیں۔ جب سبزیاں وغیرہ دھوتے ہیں تو اس کا پانی ذخیرہ کر کے پودے میں ڈال دیں۔ اتنا پانی ڈالیں کے جڑوں تک پہنچ جائے اور مٹّی نم ہو جائے۔‘

’مہینے میں دو مرتبہ کھاد ڈالنی ہے۔ اس کا بھی خرچہ بچایا جا سکتا ہے۔ کچن میں سبزیوں اور پھلوں کے چھلکوں کو کھاد کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘

plant
Getty Images
’بوگن ویلا اور المنڈا وغیرہ کی بیلیں گھروں اور عمارتوں کے ساتھ بالائی منزل تک چڑھ جاتی ہیں اور وہ وہی کام کرتی ہیں جو درخت کرتے ہیں‘

درخت کی دیکھ بھال میں کن چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے؟

توفیق پاشا نے بتایا کہ پودے لگانے کا خیال لوگوں کو زیادہ تر اپریل، مئی اور جون کے مہینوں میں آتا ہے جب گرمی عروج پر ہوتی ہے جبکہ پودے لگانے کا صحیح وقت 15 فروری سے 15 مارچ اور ساون کے مہینوں میں ہوتا ہے یعنی جولائی اور اگست۔

انھوں نے کہا کہ ’شروع کے 15 دن روزانہ پانی ڈالیں، پھر ہفتے میں چار دفعہ، پھر تین، پھر دو۔ آہستہ آہستہ پانی ڈالنے کی ضرورت کم ہوتی جاتی ہے۔‘

ہیٹ ویو کے دوران زمین کے گرم ہونے کی وجہ سے درخت کی جڑیں بھی گرم ہوجاتی ہیں۔ اس سے نمٹنے کے لیے زمین پر 'ملچنگ' کرتے ہیں۔

منیزہ نے بتایا کہ ’ملچنگ کا سب سے سستا طریقہ ہوتا ہے کہ سوکھے پتے ڈال دیے جائیں۔ اس کے علاوہ پھل فروش پھل پیک کرنے کے لیے پیٹیوں میں 'پرالی' استعمال کرتے ہیں۔ وہ لے کر زمین پر اس کی تہہ لگا دیں۔ اس سے زمین سخت سے سخت گرمی میں ٹھنڈی رہتی ہے اور پانی خشک نہیں ہوتا۔‘

’سردی میں پودے کو سٹریس سے بچانے کا بھی یہی طریقہ ہے کیونکہ زمین کا درجہ حرارت تقریباً ایک جیسا رہتا ہے۔‘

'دوسرا آپ نے کیڑے پر نظر رکھنی ہے۔ اکثر لوگوں کو کیڑوں کا تب علم ہوتا ہے جب درخت مرنے والا ہوتا ہے۔ اکثر وہ اس حالت میں ہوتا ہے کہ اسے بچایا نہیں جا سکتا۔ جب آپ درخت کو پانی دیتے ہیں تو ان تین چار منٹ میں درخت پر نظر دوڑا لیا کریں۔‘

plant
Getty Images
’چار فٹ کے پودے کو درخت بننے میں کم از کم تین سے پانچ سال لگتے ہیں‘

کیا درخت لگانے سے درجہ حرارت واقعی کم ہوتا ہے؟

توفیق پاشا نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ درخت لگانے سے زمین کے درجہ حرارت میں واضح کمی آتی ہے۔

’درخت چھاؤں دیتے ہیں اور ان کی چھاؤں کی وجہ سے زمین پر دھوپ نہیں پڑتی جس سے تپش کم ہو جاتی ہے۔‘

’دوسرا یہ کہ جب ہوا درخت سے گزرتی ہے تو اس کے پتّے ماحول کو ٹھنڈا کر دیتے ہیں۔‘

’درختوں میں ٹرانس پریشن کا عمل ہوتا ہے جس میں درخت اپنے اندر موجود پانی کا ہوا میں اخراج کر کے ماحول میں نمی پیدا کرتے ہیں اور ہوا کے گزر سے ماحول نسبتاً بہتر ہو جاتا ہے۔ اس سے بارش کے امکانات بھی بنتے ہیں اور بارش کے پانی سے زمین ٹھنڈی ہوجاتی ہے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.