جعلی چینی پولیس کے چکمے میں آ کر زندگی بھر کی جمع پونجی لٹانے والی خاتون: ’مجھے یقین ہو گیا میں بہت بڑی مصیبت میں ہوں‘

دھوکے باز لوگوں کو دھمکی دیتے ہیں کہ اگر انھوں نے ضمانت کی رقم ادا نہیں کی تو انھیں چین کے حوالے کر دیا جائے گا
A woman in a blue coat standing in front of a tree in a park looking at the camera.
BBC

دنیا بھر میں موجود چینی باشندوں کو ایک نئے طرز کی جعل سازی کا سامنا ہے جس میں مجرم پولیس کا روپ دھار کر انھیں دھوکہ دے رہے ہیں۔

ایک چینی نژاد برطانوی خاتون نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے اپنی زندگی بھر کی کمائی ان دھوکے بازوں کو دے دی تھی جو پولیس کی وردی میں پولیس سٹیشن سے مشابہت رکھنے والی جگہوں سے انھیں ویڈیو کالز کرتے تھے۔

ہیلن ینگ کو اب بھی اس دن کے بارے میں ڈراؤنے خواب آتے ہیں جب انھیں اس بات کا یقین دلایا گیا تھا کہ ان کا نام چین کے انتہائی مطلوب ملزمان کی فہرست میں شامل ہے۔

چینی پولیس کا روپ دھارے جعل ساز لندن میں مقیم اکاؤنٹنٹ ہیلن ینگ کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو گئے کہ ان کا نام چین میں بڑے پیمانے کے فراڈ کے ایک کیس میں شامل ہے۔

ہیلن کے سامنے من گھڑت شواہد کا ایک پہاڑ پیش کیا گیا جس سے یہ ثابت ہوتا تھا کہ وہ ایک ایسے جرم میں ملوث ہیں جس کے بارے میں وہ کچھ بھی نہیں جانتی تھیں۔

اس کے بعد جب جعلی پولیس افسران نے انھیں چین واپس بلا کر جیل بھیجنے کی دھمکی دی تو ہیلن نے برطانیہ میں رہنے کی کوشش میں انھیں اپنی زندگی بھر کی کمائی 29 ہزار پاؤنڈ (جو ایک کروڑ روپے سے زیادہ رقم بنتی ہے) ’ضمانت کی رقم‘ کے طور پر بھیج دیے۔

ہیلن کہتی ہیں کہ وہ اب بھی خود کو بیوقوف محسوس کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ فراڈ اتنا قابلِ یقین تھا کہ وہ جان ہی نہیں پائیں کہ ان کے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ سچ نہیں۔

سننے میں ہیلن کی کہانی غیر معمولی لگ سکتی ہے لیکن وہ اکیلی نہیں جن کے ساتھ ایسا دھوکہ ہوا۔

ایسے متعدد کیسز سامنے آنے کے بعد دنیا بھر میں موجود چینی سفارت خانوں کے علاوہ ایف بی آئی نے بھی لوگوں کو انتباہ جاری کیے ہیں۔

ایسے ہی ایک کیس میں لاس اینجیلس میں مقیم ایک خاتون نے دھوکے بازوں کی جانب سے انھیں چین واپس لے جانے کی دھمکی کے بعد، مبینہ طور پر 30 لاکھ ڈالر ان کے حوالے کر دیے تھے۔

ایف بی آئی
BBC
دنیا بھر میں موجود چینی سفارت خانوں کے علاوہ ایف بی آئی نے بھی لوگوں کو ایسے فراڈ کے بارے میں انتباہ جاری کیے ہیں

عام طور پر ایسے فراڈ کا آغاز ایک بے ضرر فون کال سے ہوتا ہے۔

ہیلن کے کیس میں انھیں ایک شخص کا فون آیا جو چینی کسٹم کا اہلکار ہونے کا دعویٰ کر رہا تھا۔ اس نے ہیلن کو بتایا کہ ان کے نام پر بھیجے گئے ایک غیر قانونی پارسل کو روکا گیا ہے حالانکہ ہیلن نے کچھ نہیں بھیجا تھا۔

انھیں کہا گیا کہ اگر ان کو لگتا ہے کہ کسی نے ان کی شناخت چرا کر یہ کام کیا ہے تو انھیں پولیس رپورٹ کروانی ہو گی۔ اگرچہ ہیلن کو شک تو ہوا لیکن انھوں نے فون نہیں رکھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’مجھ جیسے شہری، جو چین میں پلے بڑھے ہیں، انھیں بچپن سے فرمانبرداری سکھائی جاتی ہے۔ لہذا جب پارٹی یا میرے والدین مجھ سے کچھ کرنے کو کہتے ہیں تو ایسا کم ہی ہوتا کہ میں اس سے انکار کر دوں۔‘

ہیلن کی کال پھر ایک ایسے شخص کو منتقل کی گئی جس نے اپنی شناخت پولیس اہلکار ’آفیسر فینگ‘ کے طور پر کروائی۔

جب ہیلن نے ثبوت مانگا کہ کیا وہ واقعی پولیس افسر ہیں تو انھوں نے ہیلن کو ویڈیو کال پر بات کرنے کا مشورہ دیا۔

جب انھوں نے ویڈیو کال پر رابطہ کیا تو ان کو وردی میں ملبوس ایک شخص نظر آیا، جس کا چہرہ پولیس آئی ڈی پر موجود تصویر سے ملتا تھا۔

اس کے بعد ’آفیسر فینگ‘ نے اپنے فون سے انھیں اپنے آس پاس کا منظر دکھایا جو بظاہر ایک باقاعدہ پولیس سٹیشن لگ رہا تھا جہاں وردی میں ملبوس کئی پولیس افسران کام کرتے دکھائی دے رہے تھے اور ایک ڈیسک پر پولیس کا بڑا سا لوگو لگا ہوا تھا۔

ہیلن کہتی ہیں کہ اس وقت ان کے تمام شکوک و شبہات دور ہو گئے۔ ’میں نے کہا کہ میں معافی چاہتی ہوں لیکن آج کل اتنے مجرم ہو گئے ہیں تو محتاط رہنا پڑتا ہے۔‘

جب وہ بات کر رہے تھے تو اس ہی دوران ہیلن کو پس منظر میں سپیکر پرایک پیغام سنائی دیا جس میں ’آفیسر فینگ‘ کو ہیلن کے بارے میں فون کال ریسیو کرنے کو کہا جا رہا تھا۔

’آفیسر فینگ‘ انھیں وہیں روک کر کال سننے چلے گئے۔ جب ’آفیسر فینگ‘ واپس آئے تو انھیں مبینہ طور پر ہیلن کے نام پر بھیجے جانے والے غیر قانونی پارسل میں کوئی دلچسپی نہیں رہی تھی۔

انھوں نے ہیلن کو بتایا کہ انھیں اطلاع ملی ہے کہ ہیلن پر ایک بڑے مالی فراڈ میں ملوث ہونے کا شبہ ہے۔

ماسک پہنے ہوئے چینی پولیس افسر
BBC

’میں نے کہا کہ یہ بکواس ہے اور صرف ثبوت کی اہمیت ہوتی ہے۔‘

ہیلن کو بظاہر بینک سٹیٹمنٹ نظر آنے والا ایک دستاویز دکھایا گیا جس میں ان کے نام پر ایک خطیر رقم منتقل کی گئی تھی۔

’آفیسر فینگ‘ نے ان سے کہا کہ اگر وہ بے قصور ہیں تو انھیں اصلی مجرموں کو پکڑنے میں پولیس کی مدد کرنی چاہیے۔

انھوں نے ہیلن سے ایک معاہدے پر دستخط کرنے کو کہا گیا جس میں ان سے اس بارے میں کسی سے بات نہ کرنے کا وعدہ لیا گیا تھا۔ انھیں خبردار کیا گیا کہ اگر انھوں نے ایسا کیا تو انھیں مزید چھ ماہ قید ہو سکتی ہے۔

’انھوں نے کہا کہ اگر آپ نے کسی کو بتایا کہ چینی پولیس نے آپ کا انٹرویو کیا ہے تو آپ کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔‘

دھوکے بازوں نے ہیلن کو ایک ایپ ڈاؤن لوڈ کرنے پر بھی مجبور کیا تاکہ وہ ہر وقت ہیلن کی باتیں سن سکیں۔

اگلے چند روز ہیلن نے معمول کے مطابق اپنے کام پر جانے کی کوشش کی۔انھوں نے اپنا وقت بیان لکھنے میں گزارا جو انھیں جمع کروانے حکم دیا گیا تھا۔ انھیں اس بیان میں اپنی زندگی کے ہر پہلو کی تفصیل لکھنے کو کہا گیا تھا۔

پھر آفیسر فینگ نے انھیں کال کر کے مطلع کیا کہ کئی مشتبہ افراد اب حراست میں ہیں۔ انھوں نے ہیلن کو ملزمان کے تحریری بیانات دکھائے جن میں کئی افراد نے ان پر الزام لگایا تھا۔

ہیلن کو ایک ویڈیو بھی بھیجی گئی جس میں ایک مرد قیدی کو پولیس کے سامنے اعتراف جرم کرتے دیکھا سکتا تھا۔ اس شخص نے ویڈیو میں بتایا کہ ہیلن اس کی باس ہیں۔

ویڈیو کو غور سے دیکھنے میں پتہ لگتا ہے کہ مشتبہ شخص نے ایک بڑا سا ماسک پہن رکھا ہے جس کی وجہ سے یہ بتانا ممکن نہیں کہ آیا جو آواز ویڈیو میں سنی جا رہی ہے وہ اسی کی ہے یا نہیں۔ اس ویڈیو میں کوئی بھی ایسا جعلی ساؤنڈ ٹریک شامل کرنا بہت آسان ہے جس میں ہیلن یا کسی اور کے نام کا ذکر ہو۔

لیکن ہیلن پر اس کا گہرا اثر پڑا۔ انھیں یقین تھا کہ وہ واقعی پولیس کے ساتھ بات کر رہی ہیں۔ ’جب میں نے اپنا نام سنا تو مجھے الٹیاں ہونے لگیں، مجھے یقین ہو گیا کہ میں بہت بڑی مصیبت میں ہوں۔‘

ہیلن ایک برطانوی شہری ہیں لیکن جب انھیں آفیسر فینگ نے بتایا کہ انھیں چین کے حوالے کر دیا جائے گا انھوں نے ان پر مکمل یقین کر لیا۔

’انھوں نے مجھے بتایا کہ آپ کے پاس 24 گھنٹے ہیں، آپ اپنا بیگ پیک کر لیں۔ پولیس آپ کو ایئرپورٹ لے جانے کے لیے آ رہی ہے۔‘

ہیلن کو بتایا گیا کہ اگر وہ ضمانت جمع کروا دیں تو ان کی حوالگی کا معاملہ رک سکتا ہے۔ انھیں 29 ہزار پاؤنڈ منتقل کرنے کے لیے کہا گیا۔

ہیلن کہتی ہیں ’مجھے بہت برا لگا کیونکہ میں نے اپنی بیٹی سے وعدہ کیا تھا کہ میں اسے اس کے پہلے فلیٹ کے لیے پیسے دوں گی۔‘

چند روز بعد ہی جعلی پولیس لوٹ آئی۔ انھوں نے ہیلن کو مزید ڈھائی لاکھ پاؤنڈ جمع کروانے کو کہا۔

نقلی چینی پولیس کا تھانہ
BBC
ہیلن کو ایک ویڈیو بھی بھیجی گئی جس میں ایک مرد قیدی اپنے اعترافی بیان میں ہیلن کو نامزد کرتے سنا جا سکتا تھا

ہیلن کہتی ہیں کہ وہ اپنی زندگی کے لیے لڑ رہی تھیں۔ ’اگر میں چین واپس جاتی تو شاید کبھی واپس نہ آ پاتی۔‘

جب ہیلن نے ایک دوست سے رقم ادھار لینے کی کوشش کی تو انھوں نے ان کی بیٹی کو اس بارے میں آگاہ کردیا۔ پھر ہیلن نے اپنی بیٹی کو کھل کر سب بتا دیا۔

لیکن اپنی بیٹی سے بات کرنے سے پہلے انھوں نے اپنا فون کچن کی ایک دراز میں رکھا اور بیٹی کو بیڈ روم میں لے جا کر سر پر کمبل ڈال لیا تاکہ ان کی بات نہ سنی جا سکے۔

ہیلن کی بیٹی نے تحمل سے اپنی ماں کی بات سنی اور انھیں وضاحت کی کہ ان کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ ایک فراڈ تھا۔

ہیلن کے بینک نے ان کی رقم واپس کر دی لیکن اس کا انجام کہیں برا ہو سکتا تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں دو ہفتوں تک بمشکل سو پائی تھی۔ جب کوئی آپ کے فون کی نگرانی کر رہا ہو تو آپ کیسے سو سکتے ہیں؟‘

نیند کی کمی کی وجہ سے ان کی گاڑی کا دو بار حادثہ بھی ہوا۔ دوسرے مرتبہ گاڑی مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے کسی کو نہیں مارا، لیکن ایسا ہو سکتا تھا۔ اس قسم کی دھوکے بازیاں لوگوں کی جان بھی لے سکتی ہے۔‘

ایسے فراڈ کے شکار دیگر افراد کو اس سے بھی زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

جب بیرونِ ملک مقیم چند چینی طلباء جعلی پولیس کے مطالبات پورے نہیں کر سکے تو انھیں اپنے خاندانوں سے تاوان طلب کرنے کے لیے خود کے اغوا کا ڈرامہ رچانے پر مجبور کیا گیا۔

جو ڈوئیہی نیو ساؤتھ ویلز پولیس کے ڈیٹیکٹیوو سپرنٹنڈنٹ ہیں۔ آسٹریلیا میں کئی نام نہاد ورچوئل یا سائبر اغوا کے کیسز سامنے آنے کے بعد انھوں نے اس بارے میں خبردار کرنے کے لیے ایک تشہیری مہم کا آغاز کیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’متاثرین کو ان کی اپنی ایسی ویڈیو بنانے پر مجبور کیا جاتا ہے جس میں ایسا لگے جیسے انھیں اغوا کر لیا گیا ہے۔ رسیوں سے باندھ کر ان کے جسم پر ٹماٹر کی چٹنی لگا کر ایسا دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے جیسے ان کا خون بہہ رہا ہے اور وہ اپنے پیاروں کو مدد کے لیے پکار رہے ہیں۔‘

A woman with her face blurred lying on the floor with her hands behind her back and a rope around her ankles
New South Wales Police
آسٹریلیا میں پولیس نے ورچوئل اغوا سے خبرادار کیا ہے

اس کے بعد ان طالب علموں کو خود کو دوسروں سے الگ تھلگ رہنے کا حکم دیا جاتا ہے جب کہ دوسری جانب دھوکہ بار ان کی تصاویر کو تاوان کی غرض سے چین میں ان کے گھر والوں کو بھیجتے ہیں۔ متاثرہ افراد کو دوسروں کو دھوکہ دینے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

’دھوکہ دہی کرنے والے اپنے شکار کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ وہ چینی حکومت کے لیے کام کر رہے ہیں۔ وہ انھیں دستاویزات بھیجتے ہیں اور ان سے بطور چینی پولیس افسر حلف بھی لیتے ہیں۔‘

ڈوئیہی بتاتے ہیں کہ اس کے بعد متاثرہ شخص جو پہلے ہی مجرموں کو رقم دے چکا ہے، اسے آسٹریلیا میں دوسرے چینی طلبا کی نگرانی یا انھیں ڈرانے کے لیے بھیجا جاتا ہے۔

A screenshot of uniformed male and female police officers with Chinese text and emojis alongside it
BBC

ماہرین کے خیال میں ان میں سے اکثر فراڈ کے پیچھے چینی منظم جرائم کے گروپ ہوتے ہیں۔ یہ جرائم پیشہ گروہ میانمار، کمبوڈیا اور لاؤس جیسے ممالک سے کام کر رہے ہوتے ہیں۔

چین کے سرکاری میڈیا کے مطابق پچھلے سال کے دوران کئی ہزار مشتبہ افراد چین واپس جا چکے ہیں۔

ہم نے جاپان میں ایک ایسے طالب علم سے بات کی جنھیں اندازہ ہو گیا تھا کہ مجرم انھیں نشانہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور انھوں نے دھوکے بازوں کےساتھ ہونے والی گفتگو ریکارڈ کر لی تھی۔

اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انھوں نے وہ ریکارڈنگ بی بی سی کے ساتھ شیئر کی۔

اس ریکارڈنگ میں فراڈ کرنے والوں کو طالب علم سے کہتے سنا جا سکتا ہے کہ اگر انھوں نے اس کال کے بارے میں کسی کو بھی بتایا تو ’تفتیش‘ خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

جب انھوں نے رقم دینے سے انکار کر دیا تو دھوکے بازوں نے ان کا پیچھا چھوڑ دیا۔ وہ جانتے ہیں کہ وہ خوش قسمتی سے اس فراڈ سے بچ نکلے۔

’میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میرے ساتھ ایسا ہو گا۔ جب بھی آپ کو کسی انجان نمبر سے کال آئے تو آپ محتاط رہیں۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.