اجیت ڈوول کی پوتن سے ملاقات اور سفارتکاری پر بحث: ’دورۂ یوکرین کے بعد روس کو وضاحتیں‘

انڈیا کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول کی گذشتہ ہفتے ماسکو میں روسی صدر ولادیمیر پوتن سے ملاقات اور اس کے بعد جاری کی جانے والی تصاویر و ویڈیوز تاحال سوشل میڈیا پر زیرِ بحث ہیں۔

انڈیا کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول کی گذشتہ ہفتے ماسکو میں روسی صدر ولادیمیر پوتن سے ملاقات اور اس کے بعد جاری کی جانے والی تصاویر و ویڈیوز تاحال سوشل میڈیا پر زیرِ بحث ہیں۔

انڈین وزیر اعظم مودی کے دورۂ یوکرین کے بعد ڈوول کی روس آمد کو قیام امن کی کوششوں کا حصہ قرار دیا جا رہا تھا تاہم انڈیا کے اپوزیشن رہنما اسے حکمراں جماعت پر تنقید کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

12 ستمبر کو صدر پوتن اور اجیت ڈوول کے درمیان ملاقات کی تصاویر میں ایک جانب ڈوول اور دوسری جانب صدر پوتن کو دیکھا جاسکتا ہے۔

اس ملاقات سے متعلق جاری کی گئی ایک ویڈیو میں اجیت ڈوول کو یہ کہتے سنا جاسکتا ہے کہ ’وزیر اعظم مودی نے اس سے قبل خود صدر پوتن کو اپنے یوکرین دورے کے بارے میں فون پر بتایا تھا اور پھر انھوں نے انھیں (اجیت ڈوول کو) بذات خود اس بابت بریف کرنے کے لیے بھیجا ہے کہ دونوں رہنماؤں (نریندر مودی اور صدر زیلینسکی) کے درمیان بات ہوئی اور وہ وہاں اس لیے تھے کیونکہ وہ انڈیا کے وزیر اعظم تھے۔‘

روسی نیوز ایجنسی 'سپوتنک' کے سوشل میڈیا ہینڈل سے اس ملاقات کی ویڈیو جاری کرتے ہوئے لکھا گیا کہ ’ڈوول نے پی ایم مودی کی یوکرین کے صدر زیلنسکی سے ملاقات کے بارے میں پوتن کو آگاہ کیا۔‘

سوشل میڈیا پر صارفین یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ یہ ویڈیو جاری کرنے کی ضرورت کیوں پڑی۔ جبکہ کچھ صارفین کے لیے یہ بات چیت ایسی تھی جیسے کسی ’سکول کے ہیڈ ماسٹر اور طالبعلم کے درمیان ہو رہی ہو۔‘

ڈوول اور پوتن کے درمیان کیا بات چیت ہوئی؟

روسی میڈیا کی طرف سے جاری کردہ ویڈیو میں ڈوول کہتے ہیں کہ ’جیسا کہ وزیر اعظم مودی نے فون پر بات چیت میں آپ کو بتایا، وہ آپ کو اپنے یوکرین کے دورے اور زیلنسکی سے ملاقات کے بارے میں بتانا چاہتے ہیں۔ پی ایم مودی چاہتے تھے کہ میں یہاں خاص طور پر آؤں اور آپ کو اس بات چیت کے بارے میں بتاؤں۔‘

ڈوول نے مزید کہا: ’بات چیت بند دروازوں کے پیچھے ہوئی۔ صرف دونوں لیڈر تھے۔ اس کے ساتھ دو لوگ تھے۔ میں بھی وزیراعظم کے ساتھ تھا۔ میں بھی اس گفتگو کا عینی شاہد تھا۔‘

نیوز پلیٹفارم آر ٹی انڈیا کے مطابق ولادیمیر پوتن نے 22 اکتوبر کو کازان میں برکس سربراہی اجلاس کے موقع پر وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ علیحدہ دو طرفہ ملاقات کی تجویز پیش کی۔

انڈیا میں روس کے سفارت خانے کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ اس سے قبل بات چیت میں انڈیا اور روس کے درمیان کامیاب شراکت داری پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

پوتن نے دوطرفہ تعلقات میں سلامتی سے متعلق امور کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ پوتن نے اس شعبے میں بات چیت کے لیے انڈیا کا شکریہ ادا کیا۔

یوکرین سے واپسی کے بعد پی ایم مودی اور پوتن نے فون پر بات کی۔

تب پی ایم مودی نے پوتن کو اپنے یوکرین کے دورے کے بارے میں بھی بتایا تھا۔ لیکن روسی صدر کے ترجمان سے ڈوول اور پوتن کے درمیان ہونے والی ملاقات پر بھی سوالات پوچھے گئے۔

ڈوول سے ملاقات کے بعد منعقدہ پریس کانفرنس میں پوتن کے ترجمان دمتری پیسکوف سے صحافیوں نے سوالات پوچھے۔

ترجمان سے پوچھا گیا کہ کیا ڈوول نے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کو بھی کوئی پیغام دیا؟ اس پر پوتن کے ترجمان نے کہا کہ ایسا کوئی پیغام نہیں دیا گیا ہے۔

روسی خبر رساں ایجنسی تاس کے مطابق پیسکوف نے کہا کہ ڈوول نے یوکرین میں جاری جنگ کے حل کے حوالے سے انڈیا کے موقف سے آگاہ کیا۔

پیسکوف نے بتایا: ’ڈوول نے یوکرین میں تنازع ختم کرنے کے لیے مودی کے وژن کی وضاحت کی۔ تاہم، ہم یہاں واضح امن منصوبے کی بات نہیں کر رہے ہیں۔‘

پی ایم مودی 23 اگست کو یوکرین گئے تھے۔ سفارتی تعلقات کے قیام کے بعد کسی انڈین وزیر اعظم کا یوکرین کا یہ پہلا دورہ تھا۔

اس دورے کے دوران پی ایم مودی نے امن کے ذریعے حل تلاش کرنے کی بات کی تھی۔

اس ملاقات میں زیلنسکی نے دلی میں امن کانفرنس کے انعقاد کی بات کہی تھی لیکن شرط یہ تھی کہ انڈیا اس سمت میں ہونے والی پہلی میٹنگ کے بیان پر دستخط کرے۔

انڈیا روس اور یوکرین کے درمیان توازن کیسے قائم رکھ رہا ہے؟

بین الاقوامی سیاست کے تجزیہ کار ڈاکٹر قمر چیمہ نے اس معاملے پر تبصرہ کیا ہے کہ ’سفارتکاری کے تین درجے ہوتے ہیں۔ ایک تو مودی خود ہیں۔ جب مودی سفر کرتے ہیں تو وہی سفارت کاری کا مرکز ہوتے ہیں، دوسرے وزیر خارجہ جے شنکر ہیں اور تیسرے اجیت ڈوول ہیں۔‘

اجیت ڈوول کی روس میں ملاقات کو کئی لحاظ سے اہم سمجھا جا رہا ہے۔

روس-یوکرین بحران میں یورپ کے کئی ممالک کی جانب سے انڈیا کے ساتھ امن معاہدے کے مطالبات میں شدت آ گئی ہے۔

انگریزی اخبار دی ہندو کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انڈیا کے پاس روس اور یوکرین کے درمیان امن قائم کرنے کے لیے کوئی یقینی امن تجویز نہیں ہے۔ لیکن براہ راست مذاکرات نہ ہونے کی وجہ سے انڈیا پیغام رساں کا کردار ادا کرنے اور تنازع کم کرنے کے لیے تیار ہے۔

پی ایم مودی اور صدر زیلنسکی اس ماہ کے آخر میں نیویارک میں ہوں گے۔ حکام کا کہنا ہے کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات ہو سکتی ہے۔

روس-یوکرین کے بحران کو ختم کرنے کے لیے انڈیا کے پاس بہت سی وجوہات ہیں۔ انڈیا روس کا پرانا اتحادی رہا ہے۔

یوکرین پر جنگ شروع ہونے کے بعد مغربی ممالک نے روس پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ لیکن اس پابندی کی پرواہ کیے بغیر انڈیا نے روس کے ساتھ تجارتی تعلقات جاری رکھے۔ انڈیا نے جنگ کے دوران روس سے ریکارڈ سطح پر تیل خریدا۔

جولائی کے مہینے میں جب پی ایم مودی روس گئے تو انھوں نے پوتن کو گلے لگایا۔ زیلنسکی سمیت کئی مغربی ممالک نے اس تصویر پر اعتراض کیا تھا۔

تاہم جب پی ایم مودی یوکرین کے دورے پر گئے تو انھوں نے زیلنسکی کو بھی گلے لگایا اور انھیں زیلینسکی کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے دیکھا گيا۔ بہت سے ماہرین نے اسے توازن برقرار رکھنے کی انڈین پالیسی کے طور پر دیکھا۔

تاہم جب ایک صحافی نے اس بارے میں سوال کیا تو وزیر خارجہ جے شنکر نے کہا تھا کہ ’دنیا کے جس حصے میں ہم رہتے ہیں، لوگ جب ملتے ہیں تو ایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں۔ ہو سکتا ہے یہ آپ کی ثقافت کا حصہ نہ ہو لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ ہماری ثقافت کا حصہ ہے۔ آج میں نے دیکھا کہ وزیراعظم نے صدر زیلنسکی کو بھی گلے لگایا۔'

تاہم تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن کے انڈو پیسیفک تجزیہ کار ڈیرک جے گراسمین نے زیلنسکی کو گلے لگاتے ہوئے پی ایم مودی کی تصویر شیئر کی اور لکھا: 'یہ بہت بری بات ہے کہ مودی سب کو گلے لگاتے ہیں اور اس لیے اس کا کوئی مطلب نہیں ہے۔'

جب بھی اقوام متحدہ سمیت عالمی فورمز پر یوکرین کے معاملے پر روس کے خلاف کوئی قرارداد پیش کی گئی یا بات ہوئی تو انڈیا نے اس سے دوری برقرار رکھی۔

لیکن اس کے ساتھ انڈیا یوکرین کو انسانی امداد بھی بھیج رہا ہے۔

انڈین وزارت خارجہ کے اعداد و شمار کے مطابق انڈیا اور یوکرین کے درمیان مالی سال 2021-22 میں 3.3 ارب ڈالر کی تجارت ہوئی تھی۔

جبکہ روس اور انڈیا کے درمیان 50 ارب ڈالر سے زیادہ کی تجارت ہوئی تھی۔ دونوں ممالک کے درمیان آنے والے وقت میں تجارت 100 ارب ڈالر تک پہنچنے کی امید ہے۔

اجیت ڈوول کی سفارتکاری توجہ کا مرکز

اجیت ڈوول کی ویڈیو اور تصویر کو بہت سے لوگوں نے اعتراض کیا تاہم بعض کی رائے میں یہ انڈیا کی سفارتکاری کا حصہ تھا۔

دہلی میں حکمراں جماعت عام آدمی پارٹی نے اپنے ترجمان سنجے سنگھ آزاد کا بیان شیئر کیا ہے اور لکھا: ’کل ایک انتہائی شرمناک ویڈیو منظر عام پر آئی، جس میں ملک کے سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول روسی صدر پوتن کو وزیر اعظم نریندر مودی کے یوکرین کے دورے کے حوالے سے وضاحت دے رہے ہیں۔‘

’یہ بہت شرمناک ہے۔ اس کی وجہ سے ملک کے 144 کروڑ عوام کا سر شرم سے جھک گیا۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ ’پاپا‘ نے جنگ رکوا دی، اور اب جب ’پاپا‘ یوکرین گئے تو روس کو وضاحتیں دی جا رہی ہیں۔‘

ڈیفائنٹ دیوی نامی ایک صارف کے مطابق یہ ’ایسا ہے جیسے نوجوان ہیڈ ماسٹر کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے کہ کلاس چھوڑنا تعلیمی مقاصد کے لیے تھا۔‘

کئی صارفین سفارتکاری کی ان کوششوں پر اپنی آرا کا اظہار کیا ہے۔ جیسے فلم ساز ونود کپری نے اسے ’ڈری ہوئی تصویر‘ اور ’کمزور سفارتکاری‘ کہا تو اشوک کمار تیواری نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’یہ شخص وہ کام کر رہا ہے جو کانگریس کی چار نسلوں نے 70 سال میں نہیں کیا۔‘

راجیہ سبھا کی رکن پارلیمان پرینکا چترویدی نے لکھا کہ ’انڈیا میں کسے یہ شاندار خیال آیا ہے کہ قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول کی صدر پوتن کو یوکرین دورے کی وضاحت پیش کرتی ہوئی ویڈیو شیئر کریں؟‘

سنجیو گری نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’کیا انڈیا کے وزیر اعظم پوتن کے ملازم ہیں کہ پی ایم مودی نے این ایس اے اجیت ڈوول کو اپنے یوکرین کے دورے پر وضاحت دینے کے لیے بھیجا؟

’ذرا غور کریں کہ کس طرح این ایس اے وضاحت دے رہا ہے اور پوتن باس کی طرح سن رہے ہیں۔ انڈیا کی بین الاقوامی سطح پر اس سے زیادہ کبھی شرمندگی نہیں ہوئی۔‘

انڈیا کی تاریخ میں ڈوول پانچویں قومی سلامتی کے مشیر ہیں۔ سنہ 1998 میں امریکہ کی طرز پر اٹل بہاری واجپائی کے دور میں یہ عہدہ قائم کیا گیا تھا۔

سنہ 1968 بیج کے کیرالہ کیڈر کے اجیت ڈوول نے سنہ 1972 میں تھلاسری میں ہونے والے فسادات پر بھی قابو پانے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور ایک ہفتہ کے اندر ہی صورتحال کو معمول پر لانے میں مدد کی تھی۔

یہ پہلا موقع نہیں تھا جب ڈوول کو اپنے روایتی کردار سے کچھ اضافی کام کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔

جب کشمیر میں آرٹیکل 370 کو ختم کیا گیا تو لاک ڈاؤن کے آغاز کے دوران ڈوول پورے پندرہ روز تک کشمیر میں رہے۔

اسی دوران ان کی ایک ویڈیو وائرل ہو گئی جہاں وہ کشمیر کے ایک انتہائی تناؤ والے علاقے شوپیاں میں مقامی لوگوں کے ساتھ بریانی کھاتے نظر آئے۔

انھوں نے امریکہ اور چین میں بھی مودی کے لیے سفارتکاری کے فرائض کامیابی کے ساتھ انجام دیے لیکن پہلی بار ان پر اس کھلے طور پر تنقید نظر آ رہی ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.