’بچہ اپنے پاس رکھا تو جہنم میں جاؤں گی‘: مسیحیوں کا وہ خفیہ فرقہ جو ماؤں کو بچوں سے رشتہ ترک کرنے پر راغب کرتا ہے

امریکہ میں ایک خفیہ مسیحی فرقے سے ماضی میںتعلق رکھنے والی خواتین نے انکشاف کیا ہے کہانھیںمجبور کیا گیا کہ کہ وہ اپنے بچوں سے دستبردار ہو کر انھیں چرچ کے حوالے کر دیں۔ ان سابق اراکین نے بی بی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 1950 سے 1990 کی دہائی کے درمیانسیکڑوں بچوں کو زبردستیگود لیے جانے کے واقعات پیش آئے۔
(l-r) میلنی ولیمز، ڈاکٹر ویلی بالڈون اور ڈیب اڈاجو - کئی دہائیوں پہلے یہاں تصویر
BBC
دائیں سے بائیں طرفمیلنی ولیمز، ڈاکٹر ویلی بالڈون اور ڈیب اڈاجوکئی دہائیوں پہلے کیتصاویر

انتباہ: اس کہانی میں کچھ تفصیلات بعض افراد کے لیے پریشان کن ہو سکتی ہیں۔

امریکہ میں ایک خفیہ مسیحی فرقے سے ماضی میں تعلق رکھنے والی خواتین نے انکشاف کیا ہے کہ انھیں مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے بچوں سے دستبردار ہو کر انھیں چرچ کے حوالے کر دیں۔

ان سابق اراکین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 1950 سے 1990 کی دہائی کے درمیانسینکڑوں بچوں کو زبردستی گود لیے جانے کے واقعات پیش آئے۔

چرچ کے اندر گود لیے جانے والے کچھ بچوں نے الزام عائد کیا ہے کہ انھیں گود لینے والے خاندانوں کی جانب سےبدسلوکی اور برے رویوں کا سامنا کرنا پڑا۔

یہ الزامات بی بی سی کی گذشتہ سال کی تحقیق کے بعد سامنے آئے ہیں جس میں کئی دہائیوں تک بچوں کے ساتھ ہونے والے جنسی استحصال کے الزامات کی چھان بین کی گئی تھی۔

اس چرچ کے دنیا بھر میں تقریباً ایک لاکھسے زیادہ ممبرز ہیں جنھیں اکثر ’دی ٹروتھ‘ یا ’ٹو بائی ٹوز‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

اس معاملے کی چھان بین ایف بی آئی نے بھی شروع کر دی ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے چار خواتین کا کہنا تھا کہ اس وقت وہ غیر شادی شدہ تھیں اور انھیں اپنے بچوں کو گود دینے پر مجبور کیا گیا۔

ان میں سے تین خواتین کو ڈر تھا کہ اگر انھوں نے انکار کیا تو انھیں چرچ سے نکال دیا جائے گا اور جہنم میں جانے کی سزا سنا دی جائے گی۔

ایک خاتون نے انکشاف کیا کہ 1988 میں جب وہ 17 سال کی تھیں تو ان کے ساتھ ریپ ہوا اور بعد میں انھیں چرچ کے ایک شادی شدہ جوڑے کو اپنا بچہ دینے پر مجبور کیا گیا۔

انھوں نے کہا کہ ’جہنم میں جانے کا خوف اتنا شدید تھا کہ میں نے اپنا بچہ اس جوڑے کو دینے کا فیصلہ کر لیا۔‘

ایک اور خاتون نے کہا کہ انھیں اپنی بیٹی کو دیکھنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی اور بچی کو ہمیشہ کے لیے ان سے جدا کر دیا گیا۔

بی بی سی نے ایسے چھ افراد سے بھی بات کی جنھیں 1960 سے 1980 کے درمیان کے عرصے میں بچے کے طور پر گود دیا گیا۔

ان میں سے ایک خاتون نے بتایا کہ جب انھیں پہلی بار چرچ میں ایک خاندان نے گود لیا تو ان کو جذباتی طور پر بدسلوکی کا نشانہ بنایا گیا جبکہ دوسری بار گود لینے والوں نے ان کا جنسی استحصال کیا۔

ڈاکٹر والی بالڈون اپنی بیوی کے ساتھ
BBC
ڈاکٹر والی بالڈون اپنی بیوی کے ساتھ

’اگر میں نے اپنا بچہ اپنے پاس رکھا تو میں جہنم میں جاؤں گی‘

گود لیے جانے والے بچے امریکہ کے مختلف علاقوں میں پیدا ہوئے تھے جنھیں چرچ میں ’بالڈون بیبیز‘ کہا جاتا تھا کیونکہ انھیں گود لینے کے عمل کی نگرانی ڈاکٹر ولی بالڈون نے 2004 میں اپنی موت سے قبل کی تھی۔

ڈاکٹر ولی بالڈون کے ساتھ کام کرنے والے ایک سابقہ پادری کا کہنا ہے کہ کچھ خواتین حمل کے دوران اوریگن میںواقع ان کے گھر پر ٹھہری تھیں۔

بالڈون بیبیز کی درست تعداد کا اندازہ لگانا آسان نہیںہے۔ بی بی سی نے ڈاکٹر ولی بالڈون کے گود لیے گئے بیٹے گیری بالڈون سے بات کی تو انھوں نے بتایا کہ اس حوالے سےاصل ریکارڈز اب دستیاب نہیں ہیں، تاہم ان کا دعویٰ ہے کہ یہ تعداد 200 سے کم ہے۔

گیری بالڈون کا کہنا تھا کہ ان کے والد کے جانچ کے نظام میں غیر دانستہ غلطیاں ہوئیں تاہم ان کی نیت اچھی تھی۔ بعض دیگر لوگوں نے بھی ڈاکٹر بالڈون کو اچھے الفاظ میں یاد کیا۔

کیونکہ دی ٹروتھ کا کوئی سرکاری رہنما نہیں ہے، بی بی سی نے چرچ کے چھ موجودہ سینئر عہدیداروں سے رابطہ کیا جنھیں ’اوورسیئرز‘ کہا جاتا ہے۔

ان سب سے ہمیں صرف ایک جواب ملا کہ جتنی گود لینے کی کہانیاں ان کے علم میں ہیں، وہ قانونی طریقوں کے تحت ہوئیں اور انھوں نے کچھ خوبصورت کہانیاں بھی سن رکھی ہیں۔

ایک خاتون جنھیں گود لیا گیا تھا وہ پرانی باتیں یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ انھوں نے ڈاکٹر بالڈون کے البم میں ان سینکڑوں بچوں کی تصاویر دیکھی ہیں جنھیں دا ٹروتھ کے تحت دیگر لوگوں کو دیا گیا تھا۔

ایسے ہی ایک اور شخص کہتے ہیں کہ انھوں نے گود دیے گئے سینکڑوں بچوں اور ماؤں سے رابطے رکھے ہوئے ہیں۔

یہ چرچ 1897 میں سکاٹ لینڈ میں قائم کیا گیا تھا جسے پادری چلایا کرتے تھے اور انھیں ’ورکرز‘ کہا جاتا تھا۔

جن ماؤں سے بی بی سی کی گفتگو ہوئی ان کا کہنا ہے کہ ورکرز اور دا ٹروتھ بطور ادارہ ان تمام تکالیف کا ذمہ دار ہے جو انھیں بچوں کی دوری کے سبب برداشت کرنا پڑی ہے۔

62 سالہ میلانی ولیمز نے جنوری 1981 میں اپنا بچہ چرچ کے حوالے کر دیا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ ’کسی مقام پر جا کر یہ چرچ گمراہی کے راستے پر چلا گیا اور ایک خوفناک فرقے کی شکل اختیار کر گیا، مجھے ایسا فیصلہ لینے پر مجبور کیا گیا تھا۔‘

میلانی 18 برس کی عمر میں اپنے سکول کے ایک ساتھی کی ’محبت میں گرفتار‘ ہونے کے بعد حاملہ ہو گئی تھیں۔

یہ جوڑا نہ صرف غیرشادی شدہ تھا بلکہ میلانی کے بچے کے والد چرچ کے رُکن بھی نہیں تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ چرچ کے مقامی ورکرز کی نظر میں میلانی ایک ’سنگین گناہ‘ کی مرتکب ہو گئی تھیں۔

ورکرز اور ان کے خاندان نے فیصلہ کیا کہ میلانی صرف ایک ہی صورت میں چرچ کے اجلاسوں میں شرکت کر سکتی ہیں کہ وہ اپنا بچہ اس فرقے سے تعلق رکھنے والے کسی اور خاندان کو گود دے دیں۔

میلانی کہتی ہیں کہ اس وقت وہ سوچ رہی تھیں کہ: ’اگر میں یہ بچہ اپنے پاس رکھتی ہوں تو میں جہنم میں جاؤں گی۔ اگر میں یہ بچہ پاس رکھتی ہوں تو میں اپنے گھر بھی نہیں جا سکتی۔‘

میلانی نے اوکلاہوما کے ایک ہپستال میں اپنے بچے کو جنم دیا جہاں انھیں خاموشی سے ایک کمرے میں رکھا گیا تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ جب ڈیلیوری کے دوران وہ رو رہی تھیں تو انھیں یاد ہے کہ ایک ڈاکٹر ان پر چیخ رہی تھیں۔

اس سے پہلے کہ وہ اپنے بچے کی آواز سُن پاتیں اسے وہاں سے دور کر دیا گیا تھا۔ انھیں یہ تک نہیں معلوم تھا کہ ان کے بطن سے جنم لینی والی اولاد لڑکی ہے یا لڑکا۔

انھیں یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ ان کا بچہ زندہ بھی ہے یا نہیں۔ جب انھیں معلوم ہوا کہ ان کا بچہ زندہ ہے تو انھوں نے نرس کو بتایا کہ وہ اپنے بچے کو گود میں لینا چاہتی ہیں۔

انھیں جواب ملا کہ: ’تم اپنے بچہ گود میں بھی نہیں لے سکتیں۔‘

برسوں بعد میلانی اپنی بیٹی کو ڈھونڈنے میں کامیاب تو ہو گئیں لیکن پھر بھی وہ اس سے ملنا نہیں چاہتی تھیں۔

میلانی، ڈیب اور شارلین کی تصاویر
BBC
میلانی، ڈیب اور شارلین نے بی بی سی سے گفتگو کے دوران اپنی کہانیاں بیان کی ہیں

ڈیب اڈاڈجو بھی ان خواتین میں سے ایک تھیں جو اپنے بچے کو کسی اور کو گود دینے کا فیصلہ نہیں کر پا رہی تھیں لیکن ان پر اس وقت بہت دباؤ تھا اور وہ ورکرز کو انکار نہیں کر سکتی تھیں۔

ورکرز کو انکار کرنے کا مطلب چرچ میں یہ تھا کہ نہ صرف آپ اس فرقے سے نکالی جائیں گی بلکہ جہنم میں بھی جائیں گی۔

تاہم انھیں اپنے بچی کو سینے سے لگانے کا موقع ضرور ملا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں آج بھی اسے اپنے سینے سے لگا محسوس کر سکتی ہوں۔

’جو آخری لمحات ہم نے ساتھ گزارے اس میں میں اسے پیار کرتی رہی اور بار بار اس سے معذرت کرتی رہی۔ مجھے اس کو چھوڑنا پڑا کیونکہ اس کے علاوہ میرے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا۔‘

بعد میں ڈیب کی اپنی بیٹی سے ملاقات ضرور ہوئی لیکن اب ان دونوں کا آپس میں کوئی رابطہ نہیں ہے۔

ڈیب اڈاڈجو
Deb Adadjo
ڈیب اڈاڈجو کی 1980 کی دہائی میں لی گئی ایک تصویر

63 سالہ شارلین ایچر کہتی ہیں کہ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی بیٹی کے بارے میں آج بھی سوچتی ہیں جسے انھوں نے اپنے والدین کے دباؤ میں سنہ 1982 میں چرچ کے حوالے کر دیا تھا۔

شارلین ہر برس اکیلے اپنی بیٹی کی سالگرہ مناتی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’جب اس کا جنم دن آتا تھا تو میں ایک برتھ ڈے کارڈ لاتی تھی اور دو، تین مرتبہ میں کیک بھی لائی تھی۔‘

’میں اس بارے میں ڈائری بھی لکھتی تھی، سوچتی تھی میری بیٹی کہاں ہو گی، کیسی ہو گی اور کم عمری میں کن حالات سے گزر رہی ہو گی؟‘

پھر 2004 میں شارلین کی بیٹی نے ایک ای میل کے ذریعے خود ان سے رابطہ کیا اور وہ دونوں آج بھی ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں۔

’بالآخر جب ہم دونوں ملے تو ایک دوسرے کے سینے سے لگے رہے۔ ہم اب دو، تین گھنٹے فون پر بات کرتے ہیں، وہ ایک خوبصورت لڑکی ہے۔‘

بچوں کا استحصال

بی بی سی کو انٹرویو دینے والوں کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کو بچے گود دیے جاتے تھے ان کی جانچ پڑتال پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی تھی اور اسی سبب بچوں کو استحصالی صورتحال کا سامنا بھی کرنا پڑتا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ بچوں کو گود دینے کے لیے ڈاکٹر بالڈون چرچ کے ورکرز کا سہارا لیتے تھے اور یہ ورکرز اپنے ہی فرقے سے تعلق رکھنے والے والدین کی سفارش کیا کرتے تھے۔

جن چھ ’بالڈون بیبیز‘ سے بی بی سی نے بات کی ان میں سے دو بچوں کو جنسی، جسمانی اور جذباتی استحصال کا سامنا کرنا پڑا ہے جبکہ ایک اور بچی کا کہنا ہے کہ ان کو گود لینے والے باپ نے انھیں جذباتی استحصال کا نشانہ بنایا۔

ایک خاتون کا کہنا ہے کہ انھیں سوشل سروسز نے پہلے خاندان سے اس لیے الگ کیا کیونکہ وہاں ان پر جسمانی تشدد ہوتا تھا اور انھیں ایک چرچ کے سائے میں زندگی گزارنی پڑ رہی تھی جہاں ایک ’بزرگ‘ اور ان کی اہلیہ ان کی تربیت پر مامور تھے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ صرف 15 برس کی تھیں جب کچھ ہی ہفتوں بعد انھیں ’بزرگ‘ اور ان کی اہلیہ نے جنسی تشدد کا نشانہ بنانا شروع کیا تھا۔

دو برس قبل چرچ میں بچوں پر کیے جانے والے جنسی تشدد کی اطلاعات سامنے آنا شروع ہو گئی تھیں، اس کے بعد ’بالڈون بیبیز‘ سمیت اس چرچ کے موجودہ اور سابق اراکین نے فیس بُک گروپس کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطے کرنا شروع کیا۔

ڈیب کہتی ہیں کہ ’مجھے معلوم ہے کہ باقی مائیں کیا محسوس کرتی ہوں گی اور میرے دل میں ان کے لیے ہمدردی ہے۔ جب میں ان کی کہانیاں پڑھتی ہوں تو رو پڑتی ہوں۔ میں اپنے لیے جتنا رو سکتی تھی رو چکی۔‘

میلانی کہتی ہیں کہ ’ایسا لگتا ہے جیسے میرا قبیلہ مجھے مل گیا ہو۔ میں اب اکیلی نہیں ہوں۔‘

’ہماری مائیں ہمیں سینے سے لگانے سے ڈرتی تھیں، والد کو ہماری وجہ سے شرم آتی تھی اور چرچ کے لیے ہم اس وقت ہی قابلِ قبول تھے جب ہم اپنے بچوں کو ان کے حوالے کرتے تھے۔‘

’اب اتنے برس گزر جانے کے بعد ہم سب بہتر ہو ہی جائیں گے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.