سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ایک شخص کو موت کی وصیت نامے کا مسودہ تیار کرنا ہوگا، دو گواہوں کی موجودگی میں اس پر دستخط کرنا ہوں گے، اور نوٹری یا گزٹڈ افسر سے اس کی تصدیق کروانی ہوگی۔ اس کے بعد موت کی وصیت کی ایک کاپی ریاستی حکومت کی طرف سے مقرر کردہ نگران کو پیش کی جانی چاہیے۔
انتباہ: یہ مضمون میں کچھ پریشان کن تفصیلات شامل ہیں۔
سنہ 2010 میں انڈین ریاست کیرالہ سے تعلق رکھنے والے سرجن ڈاکٹر آئی پی یادیو کو اپنی زندگی کے مشکل ترین فیصلوں میں سے ایک کا سامنا کرنا پڑا۔
انھیں کینسر کے مرض میں مبتلا اپنے والد کو زندہ رکھنے یا اُن کی جانب سے زبانی طور پر کی گئی اُس ہدایت، کہ اُن کا تمام تر علاج بند کر کے ان کی تکالیف کو ختم کر دی جائیں، میں سے کسی ایک کا فیصلہ کرنا تھا۔
'ایک بیٹے کے طور پر میں نے محسوس کیا کہ یہ میرا فرض ہے کہ میں اپنے والد کی سانسیں بحال رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کروں۔ مگر میری اس کوشش نے انھیں ناخوش کیا ہو گا اور وہ ہسپتال کے انتہائی نگہداشت یونٹ میں تنہائی کے عالم میں وفات پا گئے۔ سی پی آر (سانسیں بحال کرنے کا عمل) کے ذریعے اُن کی سانس بحال کرنے کی آخری کوشش کے دوران اُن کی پسلیاں ٹوٹ گئیں۔ یہ ایک ہولناک موت تھی۔'
ڈاکٹر یادو کہتے ہیں کہ اس تجربے نے اُن پر گہرا اثر ڈالا اور انھیں پیشگی طبی ہدایات، جسے موت کی وصیت بھی کہتے ہیں، کی اہمیت کا احساس ہوا۔
موت کی وصیت ایک قانونی دستاویز ہے جو کسی ایسی بیماری یا طبی پیچیدگی کی صورت میں کی جاتی ہے جس میں صحتیابی کی کوئی امید نہ ہو۔ یعنی ایک ایسی بیماری جس میں مبتلا مریض خود سے اپنے متعلق فیصلے کرنے سے قاصر ہو جائے۔ ہر 18 سال سے زیادہ عمر کا شخص اپنے حوالے سے یہ وصیت کر سکتا ہے کہ اگر وہ مستقبل میں کسی سنگین اور ناقابل علاج بیماری میں مبتلا ہو جائے تو اس کے ساتھ کیا کیا جائے۔
مثال کے طور پر وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ناقابل علاج بیماری میں مبتلا ہونے کے بعد وہ لائف سپورٹ مشینوں (وہ مشینیں جن کی مدد سے سانسیں بحال رکھی جاتی ہیں) پر نہیں رہنا چاہتے ہیں۔
سنہ 2018 میں انڈیا کی سپریم کورٹ نے شہریوں کو اجازت دی تھی کہ وہ اپنی موت کی وصیت تیار کر سکتے ہیں اور اس طرح غیر فعال یوتھنیسیا کا انتخاب کر سکتے ہیں، جس میں کوئی شخص علاج کو روک کر اپنے لیے باوقار موت چُن سکتا ہے۔
تاہم سپریم کورٹ سے قانونی منظوری کے باوجود انڈیا میں موت کی وصیت کا تصور حقیقت میں شروع نہیں ہوا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے اس کی بنیادی وجہ انڈین ثقافت ہے جس میں موت کے بارے میں نہ تو بات کی جاتی اور نہ ہی اس کے بارے میں سوچا جاتا ہے۔ موت کو اکثر ایک ممنوع موضوع سمجھا جاتا ہے اور اس کا کسی بھی انداز میں ذکر کرنا بدشگونی کا باعث سمجھا جاتا ہے۔
لیکن اب اس رویے کو تبدیل کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ نومبر میں ڈاکٹر یادو اور ان کی ٹیم نے کیرالہ کے کولم ضلع کے گورنمنٹ میڈیکل کالج میں انڈیا کا پہلا پروگرام شروع کیا تھا جس کا مقصد لوگوں کو موت کی وصیت کے بارے میں آگاہی دینا ہے۔
موت کی وصیت تیار کرنے کے لیے خاندان کے ارکان کو موت کے بارے میں کھلی اور ایماندارانہ بات چیت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگرچہ اس ضمن میں کچھ مزاحمت بھی ہے مگر انڈیا میں کارکن اور ادارے شعور اجاگر کرنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں اور اس میں دلچسپی بڑھ رہی ہے۔
کیرالہ ایسی بات چیت میں سب سے آگے ہے۔ اس وقت یہاں ملک کے دیگر حصوں کی نسبت طبی سہولیات بہتر ہیں۔
مارچ میں کیرالہ ریاست کے شہر تھریسور کی 'پین اینڈ پیلی ایٹو کیئر سوسائٹی' سے منسلک تقریباً 30 افراد نے اپنی موت کی وصیت پر دستخط کیے تھے۔
سوسائٹی کے بانی ڈاکٹر ای دیواکرن کا کہنا ہے کہ اس اقدام کا مقصد اس خیال کو لوگوں میں زیادہ مقبول بنانا ہے۔
ڈاکٹر یادو کہتے ہیں کہ 'زیادہ تر لوگوں نے اس اصطلاح کے بارے میں کبھی نہیں سُنا ہے لہذا ان کے پاس بہت سے سوالات ہیں، جیسا کہ کیا اس طرح کی ہدایت کا مستقبل میں غلط استعمال کیا جا سکتا ہے یا کیا وہ بعد میں اپنی موت کی وصیت میں تبدیلی کر سکتے ہیں۔'
انھوں نے مزید کہا کہ زیادہ تر سوالات ان افراد کی طرف سے آتے ہیں جو 50 اور 60 سال کے پیٹے میں ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ 'اس وقت تعلیم یافتہ اور اپر مڈل کلاس اس سہولت کا فائدہ اٹھا رہی ہے۔ لیکن نچلی سطح پر بیداری کی مہم کے ساتھ ساتھ ہم توقع کر رہے ہیں کہ تعداد میں اضافہ ہو گا۔'
سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ایک شخص کو موت کی وصیت نامے کا مسودہ تیار کرنا ہوتا ہے اور دو گواہوں کی موجودگی میں اس پر دستخط کرنا ہوتے ہیں اور نوٹری یا گزٹڈ افسر سے اس کی تصدیق کروانی ہوتی ہے۔ اس کے بعد موت کی وصیت کی ایک کاپی ریاستی حکومت کی طرف سے مقرر کردہ نگران کو پیش کی جانی چاہیے۔
اگرچہ یہ رہنما خطوط موجود ہیں لیکن کئی ریاستی حکومتوں نے ابھی تک ان کو نافذ کرنے کے لیے طریقہِ کار قائم نہیں کیا ہے۔
ممبئی شہر سے تعلق رکھنے والے گائناکالوجسٹ ڈاکٹر نکھل داتر کو اس بات کا احساس اُس وقت ہوا جب انھوں نے دو سال پہلے اپنی موت کی وصیت کی تھی کیونکہ ان کے پاس کوئی ایسا فرد نہیں تھا جس کے پاس وہ اپنی موت کی وصیت جمع کروا سکیں۔
لہٰذا وہ عدالت گئے اور اس کے نتیجے میں مہاراشٹر حکومت نے ریاست کے مقامی اداروں میں تقریبا 400 عہدیداروں کو موت کی وصیتوں کے محافظ کے طور پر خدمات انجام دینے کے لیے مقرر کیا۔
جون میں گوا ریاست نے موت کی وصیت کے بارے میں سپریم کورٹ کے احکامات کو نافذ کیا اور ہائیکورٹ کے ایک جج ریاست کے پہلے شخص بن گئے جنھوں نے اسے رجسٹر کیا۔
سنچر کو ریاست کرناٹک نے ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسران کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو ایک اہم میڈیکل بورڈ میں خدمات انجام دینے کے لیے نامزد کریں جو موت کی وصیت کی تصدیق کرنے کے لیے ضروری ہے۔ (موت کی وصیت پر عمل درآمد سے پہلے دو میڈیکل بورڈز کو اس بات کی تصدیق کرنی ہوتی ہے کہ ایک مریض موت کی وصیت کے نفاذ کے لیے ضروری معیار پر پورا اُترتا ہے۔)
نکھل داتر موت کی وصیتوں کے لیے ایک مرکزی ڈیجیٹل ذخیرے کی بھی وکالت کر رہے ہیں جو ملک بھر میں قابل رسائی ہو۔
انھوں نے اپنی موت کی وصیت کو بھی ٹیمپلیٹ کے طور پر اپنی ویب سائٹ پر مفت میں دستیاب کر رکھا ہے۔
وہ سمجھتے ہیں کہ موت کی وصیت خاندانوں اور ڈاکٹروں دونوں کے لیے مسائل سے بچنے میں مدد کرتی ہے، خاص طور پر ایسی صورتحال میں جب کوئی مریض سکتے کی سی حالت میں ہوتا ہے اور اس کی صحت یابی بھی ممکن نہیں ہوتی۔
انھوں نے کہا کہ 'اکثر گھر والے نہیں چاہتے کہ انھیں لاعلاج مرض میں مبتلا ایسے شخص کے ہسپتال میں علاج کے اخراجات برداشت کرنا پڑیں۔ چونکہ وہ گھر پر مریض کی دیکھ بھال نہیں کر سکتے ہیں لہذا ایسے مریضوں کو ہسپتال میں رکھا جاتا ہے۔ ڈاکٹر طبی اخلاقیات کے پابند ہیں اس لیے وہ علاج کو روک نہیں سکتے ہیں، لہذا مریض تڑپتا رہتا ہے اور اپنی خواہشات کا اظہار بھی نہیں کر سکتا۔'
نکھل داتر کہتے ہیں موت کی وصیت صرف غیر فعال یوتھنیسیا کا انتخاب کرنے کے بارے میں نہیں ہے۔
ڈاکٹر یادو نے ایک ایسا واقعہ یاد کیا جس میں ایک شخص چاہتا تھا کہ اس کی موت کی وصیت میں یہ واضح کیا جائے کہ اگر کبھی ضرورت پڑے تو انھیں لائف سپورٹ پر رکھا جانا چاہیے۔
'انھوں نے وضاحت کی کہ ان کا اکلوتا بچہ بیرون ملک رہ رہا ہے اور وہ اس وقت تک مرنا نہیں چاہتے جب تک کہ ان کا بیٹا ان سے نہیں مل جاتا۔'
یادو کہتے ہیں 'آپ کو یہ منتخب کرنے کی آزادی ہے کہ آپ کس طرح مرنا چاہتے ہیں۔ یہ ہمارے پاس دستیاب سب سے بڑے حقوق میں سے ایک ہے، تو کیوں نہ اس کا استعمال کیا جائے؟'
طبی سہولیات کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ملک میں اس حوالے سے بات چیت آہستہ آہستہ بڑھ رہی ہے، جس سے موت کی وصیت کی خواہش کو تقویت مل رہی ہے۔
دہلی کے آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کی ڈاکٹر سشما بھٹناگر کہتی ہیں کہ ہسپتال مریضوں کو موت کی وصیت کے بارے میں تعلیم دینے کے لیے ایک شعبہ شروع کر رہا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ 'مثالی طور پر ڈاکٹروں کو مریضوں کے ساتھ موت کی وصیت پر تبادلہ خیال کرنا چاہیے، لیکن بات چیت کا خلا موجود ہے۔'
انھوں نے مزید کہا کہ اس بات چیت کے لیے ڈاکٹروں کو تربیت دینے سے اس بات کو یقینی بنانے میں مدد مل سکتی ہے کہ کوئی شخص باعزت طریقے سے مرے۔
یادو کہتے ہیں کہ 'ہماری پوری زندگی میں، ہمارے انتخاب ہمارے پیاروں کی خواہشات یا معاشرے کے خیالات کے مطابق ہوتے ہیں۔ مگر کم از کم موت میں ہمیں ایسے فیصلے کرنے چاہیں جو ہمارے مفاد میں ہوں اور مکمل طور پر ہمارے اپنے ہوں۔'