اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستانی فضائیہ کے ایک ریٹائرڈ ایئر مارشل کو حبس بےجا میں رکھنے سے متعلق درخواست جرمانے کے ساتھ خارج کی ہے۔ ریٹائرڈ ایئر مارشل جواد سعید کی اہلیہ کی درخواست پر عدالت کو بتایا گیا کہ حساس دستاویزات شیئر کرنے کے الزام پر ان کا کورٹ مارشل کیا گیا تھا اور انھیں 14 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
پاکستان ایئر فورس کے حکام نے اسلام آباد ہائیکورٹ کو بتایا ہے کہ بغاوت اور جاسوسی کے الزام میں سزا پانے والے ایئرمارشل ریٹائرڈ جواد سعیدکے خلاف تحقیقات ابھی بھی جاری ہیں اور ان پر ’آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ کی معلومات‘ شئیر کرنے کا الزام ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج خادم حسین سومرو کی عدالت میں ایئرمارشل ریٹائرڈ جواد سعید کی اہلیہ شازیہ جواد کی جانب سے دائر کی جانے والی درخواست کی سماعت کے دوران جج ایڈووکیٹ جنرل ایئر کموڈور نفیس چیمہ عدالت میں پیش ہوئے اور انھوں نے عدالت کو بتایا کہ مجرم ایئر مارشل ریٹائرڈ جواد سعید نے آپریشن سوئفٹ کی معلومات کسی غیر ملکی سے شیئر کی تھیں جس کی تحقیقات کی جارہی ہیں۔
واضح رہے آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ 27 فروری 2019 کو کیا گیا اور یہ پلوامہ حملے کے بعد ہوا تھا۔ اس کا مقصد 26 فروری 2019 کو انڈین ایئر فورس کے پاکستانی علاقے بالا کوٹ پر کیے گئے حملے کا جواب دینا تھا۔ ایئرمارشل ریٹائرڈ جواد سعید اس آپریشن کو لیڈ کر رہے تھے۔
درخواست گزار کے وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جب ایک معاملے میں ان کی موکلہ کے شوہر کو جاسوسی اور بغاوت کے الزامات میں سزا سنا دی گئی ہے تو پھر ان کے خلاف تحقیقات دوبارہ کیسے شروع کی جاسکتی ہیں؟
انھوں نے کہا کہ 'آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ کامیاب ہوا اور جواد سعید اس آپریشن کے دو سال کے بعد ریٹائرڈ ہو گئے۔ انھوں نے کہا کہ اپنی سروس کے دوران انھوں نے اس آپریشن کی تفصیلات کسی سے شیئر نہیں کیں تو کیسے اپنی ریٹائرمنٹ کے تین سال کے بعد انھیں گرفتار کرکے اس معاملے کی تحقیقات کی جارہی ہیں؟'
بغاوت کے الزامات میں سزا سنا دی گئی ہے تو پھر ان کے خلاف تحقیقات کیسے دوبارہ شروع کی جاسکتی ہیں؟
درخواست گزار کے وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے کا کہنا تھا کہ ’سیکرٹ ایکٹ میں ترمیم کے بعد ایک خصوصی عدالت قائم کی گئی ہے جبکہ فوجی عدالت اس جرم کے تحت درج ہونے والے مقدمے کی سماعت نہیں کرسکتی۔‘
ایئرمارشل ریٹائر جواد سعید کے خلاف بغاوت کا مقدمہ چلانے سے متعلق دلائل دیتے ہوئے انھوں نے ریٹائرڈ میجر جنرل حسن عسکری کے بیٹے کے مقدمے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس مقدمے میں مقامی مجسٹریٹ نے حسن عسکری کے بیٹے کو فوج کی تحویل میں دیا تھا۔
ریٹائرڈ میجر جنرل کے بیٹے نے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف فوج کی اعلی کمان کو خط لکھا تھا۔
کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے مذید دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 9 مئی کے واقعات میں جن 103 ملزمان کو فوج کے حوالے کیا گیا تھا ان کی حوالگی کا فیصلہ بھی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے کیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ 'ایئرمارشل ریٹائرڈ جواد سعید کے معاملے میں ایسا نہیں کیا گیا۔'
عدالتی استفسار پر جج ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ مجرم کے خلاف ہونے والا ٹرائل چونکہ ایک حساس معاملہ تھا اس لیے انھیں کوئی سویلین وکیل نہیں دیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ چونکہ یہ حساس معاملہ تھا اس لیے مجرم کے کورٹ مارشل کے بعد انھیں جیل میں نہیں بھیجا گیا بلکہ ایئرچیف کے حکم کے مطابق ایک میس کو سب جیل قرار دیا گیا ہے جہاں پر جیگ برانچ کے اہلکار کے بقول وی آئی پیز سہولیات فراہم کی گئیں ہیں جن پر روزانہ دو سے تین لاکھ روپے خرچہ آتا ہے۔
درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ ایئرفورس ایکٹ سنہ 1953 میں بھی ایئرچیف کے پاس کسی بھی عمارت کو سب جیل قرار دینے کا اختیار نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ اگر ملک میں کوئی وبا پھیلی ہو یا کسی مجرم کو کسی ملک بھیجنا ہو تو پھر کسی عمارت کو سب جیل قرار دے کر اسے وہاں رکھا جاسکتا ہے لیکن یہ اختیار بھی وفاقی حکومت کے پاس ہے۔
سماعت کے دوران جج ایڈووکیٹ جنرل کی جانب سے ایئر مارشل ریٹائرڈ جواد سعید کے خلاف ہونے والے کورٹ مارشل کی کارروائی کے بارے میں بند لفافے میں کچھ دستاویز عدالت میں پیش کی گئیں، جسٹس خادم حسین سومرو نے اس بند لفافے کو کھول کر عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنانے کا حکم دیا۔
عدالت نے درخواست گزار کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ ایئرفوس کے حکام نے تسلیم کیا ہے کہ ایئرمارشل ریٹائرڈ جواد سیعد کا کورٹ مارشل ہوچکا ہے اور وہ ان کی تحویل میں ہیں اس لیےاب یہ حبس بےجا کا معاملہ نہیں رہا۔
انھوں نے درخواست گزار کے وکیل سے کہا کہ اگر وہ چاہیں تو وہ کورٹ مارشل کی کارروائی کو عدالت میں چیلنج کرسکتے ہیں جس کے بعد درخواست گزار نے حبس بےجا سے متعلق اپنی درخواست واپس لے لی۔
سماعت کے دوران جج ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت سے استدعا کہ چونکہ یہ حساس معاملہ ہے اس لیے میڈیا پر اس کی کوریج پر پابندی لگائی جائے اور اس کے ساتھ ساتھ درخواست گزار کے وکیل کو بھی پابند کیا جائے کہ وہ میڈیا پر اس بارے میں کوئی بیان نہ دے تاہم عدالت نے کہا کہ چونکہ اس درخواست پر عدالتی کارروائی اوپن ہوئی ہے اس لیے وہ ایسا کوئی آرڈر پاس نہیں کریں گے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستانی فضائیہ کے ایک ریٹائرڈ ایئر مارشل کو حبس بےجا میں رکھنے سے متعلق درخواست جرمانے کے ساتھ خارج کی ہے’جواد سعید ریٹائرمنٹ کے بعد ایک سویلین ہیں، ان پر ایئر فورس ایکٹ کا اطلاق نہیں ہوتا‘
درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ ’جواد سعید ایک ریٹائرڈ پرسن ہیں جنھیں غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہمیں تو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ ریٹائرڈ ایئر مارشل جواد سعید پر کون سا الزام ہے اور کب ان کا کورٹ مارشل ہوا۔‘
عبدالوحید ایڈوکیٹ کا کہنا تھا کہ اگر کوئی کورٹ مارشل ہوا ہے اور اس کے نتیجے میں ہونے والی سزا سے متعلق اگر جواد سعید کی فیملی کو بتایا گیا ہے تو کم از کم اس کا کوئی ریکارڈ ہی دیکھا دیں۔
انھوں نے کہا کہ 'میری موکلہ کے شوہر پر کیا الزامات ہیں، اس کے بارے میں ان کی فیصلی کو بھی معلومات حاصل نہیں ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ کیسے بغیر وکیل کو رسائی دیے انھیں سزا بھی دے دی گئی۔'
انھوں نے کہا کہ جواد سعید 18 مارچ 2021 کو اپنے عہدے سے ریٹائر ہوئے اور انھیں یکم جنوری 2024 کو 'گھر سے اٹھا لیا گیا۔'
انھوں نے کہا کہ جواد سعید ریٹائرمنٹ کے بعد ایک سویلین ہیں اور ان پر پاکستان ایئر فورس ایکٹ 1953 کا اطلاق نہیں ہوتا۔
عبدالوحید ایڈووکیٹ نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ اس درخواست میں بنائے گئے فریق کو حکم دیں کہ وہ ریکارڈ دکھا دیں تو وہ درخواست واپس لے لیں گے۔ اس پر عدالت نے درخواست گزار کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ 'اب یہ پٹیشن واپس نہیں ہوگی کیونکہ عدالت کو بتایا گیا ہے کہ ان کی موکلہ کے شوہر کے خلاف چارجز عائد ہوئے ہیں۔'
یوں عدالت نے اس درخواست کو 15 ہزار روپے جرمانے کے ساتھ خارج کیا۔
درخواست گزار کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ انھیں جواد سعید کے کورٹ مارشل کا ریکارڈ فراہم کیا جائے۔ عدالت اس ضمن میں کوئی حکم جاری کرتی اس سے پہلے ہی وزارت دفاع کے نمائندے نے عدالت کو بتایا کہ ایئر چیف نے ریکارڈ فراہم کرنے کی اجازت نہیں دی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ 'جب ایئرمارشل ریٹائرڈ جواد سعید کا کورٹ مارشل بھی ہو چکا ہے اور انھیں سزا بھی سنائی جا چکی ہے تو انھیں ابھی تک جیل بھیجنے کی بجائے اپنی تحویل میں کیوں رکھا گیا ہے؟' وزارت دفاع کے نمائندے اس ضمن میں عدالت کو مطمئن نہ کر سکے۔
درخواست گزار کے وکیل عبدالوحید کا کہنا ہے کہ وہ ریٹائرڈ ایئر مارشل جواد سعید کے کورٹ مارشل اور ان کو قانونی تقاضے پورے کیے بغیر دی گئی سزا کے فیصلے کو چیلنج کریں گے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پہلے تو انھیں معلوم ہی نہیں تھا کہ ریٹائرڈ ایئر مارشل جواد سعید کو کس جرم میں حراست میں رکھا ہے تاہم اب عدالت کو اس ضمن میں آگاہ کر دیا گیا ہے جس کے بعد عبدالوحید ایڈووکیٹ کے بقول ان کے لیے لیگل ریمیڈی حاصل کرنے کے بہت سے راستے کھل گئے ہیں۔
ریٹائرڈ ایئر مارشل جواد سعید کون ہیں اور ان کا خاندان کیا چاہتا ہے؟
جولائی 2018 میں اس وقت پاکستانی فضائیہ میں وائس ایئر مارشل جواد سعید کو ایئر مارشل کے عہدے پر ترقی دی گئیتھی اور وہ مارچ 2021 کے دوران اس عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے۔
تھری سٹار ایئر مارشل کے عہدے کو لیفٹیننٹ جرنل کے برابر تصور کیا جاتا ہے۔
انھوں نے نومبر 1986 میں پاکستان ایئر فورس کی جی ڈی پی برانچ میں کمیشن حاصل کیا۔ سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی کے مطابق اپنے کیریئر کے دوران انھوں نے فائٹر سکواڈرن، فائٹر ونگ، آپریشنل ایئر بیس اور ریجنل ایئر کمانڈ کی کمان کی۔
مقامی ذرائع ابلاغ کی خبروں کے مطابق ریٹائرمنٹ سے قبل ان کا نام مارچ 2021 کو فضائیہ کے سب سے سینیئر افسران کی اس سمری میں شامل تھا جو اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کو ایئر چیف کی تعیناتی کے لیے بھیجی گئی تھی۔
وہ ایئر ہیڈکوارٹرز اسلام آباد میں اسسٹنٹ چیف آف ایئر سٹاف (آپریشنز) اور ڈپٹی چیف آف ایئر سٹاف (آپریشنز) بھی تعینات رہے ہیں۔
وہ کمبیٹ کمانڈر سکول، ایئر وار کالج اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔
ریٹائرڈ ایئر مارشل جواد سعید کو ماضی میں سرکاری اعزازات ستارۂ امتیاز اور تمغۂ امتیاز سے بھی نوازا گیا تھا۔
تاہم ان کی اہلیہ نے عدالت میں درخواست دائر کی جس میں کہا گیا کہ ان کے شوہر کے خلاف کوئی بھی کیس درج نہیں ہے اور ان کی حراست 'غیر قانونی' ہے۔
اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ 'جبری تحویل بنیادی آئینی حقوق کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے انٹرنیشل چارٹر برائے انسانی حقوق کے بھی خلاف ہے۔'
اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی جانے والی اس درخواست میں کہا گیا کہ جواد سعید کو 'عدالت میں پیش کیا جائے اور اگر ان پر کوئی الزام ہے تو قانون کے مطابق عدالتی کارروائی کی ہدایت کی جائے۔'
اس درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جواد سعید نے سروس کے دوران اہم آپریشنل اور سٹاف اسئنمنٹس کیں مگر اب اہل خانہ کو بتایا گیا کہ وہ پاکستان ایئر فورس کی تحویل میں ہیں۔
ان کا دعویٰ ہے کہ ان کی اپنے شوہر سے ملاقات کروائی گئی تھی اور یقین دہائی کروائی گئی تھی کہ انھیں جلد رہا کر دیا جائے گا مگر ایسا نہ ہوسکا۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر کی پنشن بھی بند کر دی گئی ہے۔