گلیشیئر کے شگاف میں لاپتا ہونے والے نوجوان کی باقیات 65 سال بعد بازیافت: ’خوشی ہے کہ بالآخر میرا بھائی مل گیا‘

ڈیوڈ کہتے ہیں کہ ’میری والدہ (اس حادثے سے) کبھی سنبھل نہیں سکیں۔ وہ اس کی تصویریں نہیں دیکھ سکتیں تھیں اور اس کا ذکر بھی نہیں کر سکتیں تھیں۔‘

سنہ 1959 میں انٹارکٹک یعنی قطب جنوبی میں پیش آنے والے ایک ہولناک حادثے میں ہلاک ہونے والے برطانوی شہری کی باقیات ایک پگھلتے ہوئے گلیشیئر سے ملی ہیں۔

یہ باقیات انٹارکٹک جانے والے پولش مہم جوؤں کو ملی ہیں۔ برطانوی شہری کی باقیات کے ساتھ کلائی پر پہننے والی ایک گھڑی، ایک ریڈیو اور ایک پائپ بھی ملے ہیں۔

ان باقیات کی باقاعدہ شناخت ڈینس ’ٹنگ‘ بیل نامی شخص کے طور پر ہو گئی ہے۔ ڈینس 25 سال کی عمر میں اُس وقت ایک برفانی دراڑ یا شگاف میں گر گئے تھے جب وہ اُس ادارے کے لیے کام کر رہے تھے جو بعد میں ’برٹش انٹارکٹک سروے‘ کہلایا۔

ڈینس کے 86 سالہ بھائی ڈیوڈ بیل نے بی بی سی نیوز کو بتایا: ’میں نے تو بھائی کو ڈھونڈنے کی امید بہت پہلے چھوڑ دی تھی۔ اس کی باقیات کا ملنا حیرت انگیز اور ناقابل یقین ہے۔‘

برٹش انٹارکٹک سروے کی ڈائریکٹر پروفیسر ڈیم جین فرانسس نے کہا کہ ’ڈینس اُن بہت سے بہادر کارکنوں میں سے ایک تھے جنھوں نے انتہائی سخت حالات میں انٹارکٹکا میں ابتدائی سائنسی تحقیق میں اپنا حصہ ڈالا۔‘

انھوں نے مزید کہا: ’اگرچہ وہ 1959 میں کھو گئے تھے، لیکن اُن کی یادیں اُن کے ساتھیوں اور قطبی تحقیق کے ورثے میں زندہ رہیں۔‘

ڈینس کے بھایی ڈیوڈ کے مطابق یہ جولائی 1959 کی بات ہے جب لندن میں واقع ان کے گھر پر دستک ہوئی۔

وہاں ایک لڑکا موجود تھا جو ٹیلی گرام لایا تھا۔ لڑکے نے ڈیوڈ کو بتایا کہ ’مجھے افسوس ہے کہ آپ کے لیے بُری خبر ہے۔‘

ڈیوڈ اپنے بھائی کو پیش آنے والے حادثے سے متعلق اپنے والدین کو بتانے کے لیے گھر کی بالائی منزل پر گئے۔

انھوں نے یاد کرتے ہوئے کہا: ’وہ ایک ہولناک لمحہ تھا۔‘

اپنی بیوی کے ساتھ آسٹریلیا میں اپنے گھر سے گفتگو کرتے ہوئے ڈیوڈ مسکراتے ہیں اور 1940 کی دہائی میں انگلینڈ میں گزارے اپنے بچپن کی یادیں بیان کرتے ہیں۔

یہ ایک چھوٹے بھائی کی یادیں ہیں اور اس میں وہ اپنے پُرکشش اور مہم جو بڑے بھائی کی تعریف کر رہے ہیں۔

انھوں نے بتایا: ’ڈینس شاندار ساتھی تھا۔ وہ بہت مزاحیہ تھا۔ جہاں بھی ہوتا، محفل کی جان بن جاتا۔‘

وہ ہنستے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’میں اب بھی نہیں بھول سکا کہ ایک شام ہم تینوں، میں، میری والدہ اور والد سنیما سے واپس آئے تو دیکھا کہ اُس نے میز پر اخبار بچھا کر اس پر موٹربائیک کا انجن کھول کر رکھ دیا تھا، پورا انجن میز پر پھیلا ہوا تھا۔‘

’مجھے اس کا لباس پہننے کا انداز یاد ہے، وہ اکثر ڈفل کوٹ پہنتا تھا۔ وہ ایک عام سا شخص تھا جو زندگی سے لطف اندوز ہوتا تھا۔‘

ڈینس کے 86 سالہ بھائی ڈیوڈ بیل کے مطابق وہ خوش ہیں کہ بلآخر اُن کا بھائی مل گیا ہے
BBC
ڈینس کے 86 سالہ بھائی ڈیوڈ بیل کے مطابق وہ خوش ہیں کہ بلآخر اُن کا بھائی مل گیا ہے

ڈینس بیل کا عرفی نام ’ٹنگ‘ تھا اور وہ سنہ 1934 میں پیدا ہوئے۔ رائل ایئر فورس میں رہے اور ماہرِ موسمیات کی تربیت حاصل کی، پھر فاک لینڈ آئی لینڈز ڈپنڈینسیز سروے میں شامل ہو کر انٹارکٹکا کے لیے روانہ ہوئے۔

ڈیوڈ کہتے ہیں کہ ’وہ سکاٹ کی ڈائریوں کے شوقین تھے۔‘ واضح رہے کہ کیپٹن رابرٹ سکاٹ جنوبی قطب تک پہنچنے والے اولین افراد میں سے تھے اور سنہ 1912 میں ایک مہم کے دوران اُن کی موت ہو گئی تھی۔

ڈینس سنہ 1958 میں انٹارکٹکا کے لیے روانہ ہوئے۔ انھیں کنگ جارج آئی لینڈ پر ’ایڈمرلٹی بے‘ کے ایک چھوٹے برطانوی اڈے پر دو سال کے لیے تعینات کیا گیا تھا۔ اس جگہ تقریباً 12 افراد تعینات تھے۔یہ جگہ انٹارکٹک جزیرہ نما کے شمالی ساحل سے تقریباً 120 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

برٹش انٹارکٹک سروے کے ریکارڈ بہت مفصل ہیں اور اس کے آرکیالوجسٹ ایوین ہاپکنز نے ڈینس کے کام اور جزیرے پر اُن کی زندگی کی رپورٹیں نکال کر پڑھیں۔

وہ رپورٹ پڑھتے ہیں: ’وہ خوش مزاج اور محنتی تھا۔‘

ڈینس کا کام فضا میں موسمیاتی غبارے چھوڑنا اور ہر تین گھنٹے بعد برطانیہ کو ریڈیو پر رپورٹ دینا تھا اور اس کام کے لیے انھیں برفانی سردی میں جنریٹر چلانا پڑتا تھا۔

انھیں کیمپ کا سب سے اچھا باورچی کہا جاتا تھا اور سردیوں میں، جب یہاں کوئی امدادی رسد نہیں پہنچ سکتی تھی تو وہ خوراک کے ذخیرے کا انچارج ہوتا تھا۔

ان دنوں گھر سے رابطہ کرنا آج کے مقابلے میں کہیں زیادہ محدود تھا۔ ڈیوڈ کو یاد ہے کہ وہ اپنے والدین اور بہن ویلیری کے ساتھ بی بی سی سٹوڈیو میں کرسمس کا پیغام ریکارڈ کر کے بھائی کو بھیجتے تھے۔

ڈینس کو خاص طور پر وہاں کے ہسکی کتوں سے محبت تھی جو برفانی گاڑیاں کھینچنے کے لیے استعمال ہوتے تھے، اور انھوں نے دو بار ان کے بچے پالے تھے۔

وہ کنگ جارج آئی لینڈ کے سروے میں بھی شریک رہے تاکہ اس نامعلوم علاقے کا پہلا نقشہ تیار کیا جا سکے۔

حادثہ ایک سروے کے دوران پیش آیا اور وہ ان کی 25ویں سالگرہ کے چند ہفتے بعد پیش آيا۔

26 جولائی 1959 کو انٹارکٹک کی سخت ترین سردیوں میں، ڈینس اور جیف سٹوکس نامی ایک ساتھی سروے کے لیے اڈے سے نکلے۔

برٹش انٹارکٹک سروے کے ریکارڈ میں درج ہے کہ برف کی تہہ دبیز تھی اور کتے تھکنے لگے تھے۔ ڈینس بغیر سکیز کے آگے بڑھے تاکہ کتوں کی ہمت بندھائیں، لیکن اچانک وہ ایک شگاف میں گر گئے اور ان کے پیچھے صرف ایک سوراخ رہ گیا۔

بیانات کے مطابق، جیف سٹوکس نے انھیں بہت آوازیں دیں جس پر ڈینس نے شگاف سے انھیں جواب دیا۔ ایک رسی نیچے پھینکی گئی جسے اس نے پکڑ لیا۔کتے رسی کھینچ کر اسے سوراخ کے کنارے تک لے آئے۔

لیکن شاید زاویے کی وجہ سے اس نے رسی کو بیلٹ سے باندھ لیا تھا۔ جیسے ہی وہ شگاف کے کنارے تک پہنچا، بیلٹ ٹوٹ گئی اور وہ دوبارہ گر گیا۔ اس کے دوست نے پھر پکارا، لیکن اس بار ڈینس کا کوئی جواب نہ آیا۔

ڈیوڈ کہتے ہیں: ’یہ کہانی میں کبھی نہیں بھلا پاؤں گا۔‘

حادثے کے بارے میں کیمپ کی رپورٹ مختصر اور رسمی تھی: ’ہم نے جیف سے سنا۔۔۔ کہ کل ٹنگ ایک شگاف میں گر کر ہلاک ہو گیا۔ اگر برف نے اجازت دی تو ہم کل واپس آنے کی امید کرتے ہیں۔‘

مسٹر ہاپکنز بتاتے ہیں کہ ایلن شارمن نامی ایک اور شخص چند ہفتے پہلے فوت ہو گیا تھا اور عملے کا حوصلہ بہت پست تھا۔

حادثے کے اگلے دن کی رپورٹ میں لکھا گیا کہ ’سلیج واپس آ گیا ہے۔ ہم نے افسوسناک تفصیلات سنیں۔ جیف کے ہاتھ شدید سردی سے جم کر بری طرح زخمی ہو گئے ہیں۔ ہم اسے واپس لانے کے لیے مزید خطرہ مول نہیں لے رہے۔‘

رپورٹیں دوبارہ پڑھتے ہوئے ہاپکنز کو پتا چلا کہ برفانی موسم کے شروع میں ایلن شارمن کا تابوت ڈینس نے خود بنایا تھا۔

ڈیوڈ کہتے ہیں کہ ’میری والدہ (اس حادثے سے) کبھی سنبھل نہیں سکیں۔ وہ اس کی تصویریں نہیں دیکھ سکتیں تھیں اور اس کا ذکر بھی نہیں کر سکتیں تھیں۔‘

انھیں یاد ہے کہ ڈینس کے اڈے کے دو ساتھی خاندان سے ملنے آئے تھے اور بطور یادگار ایک بھیڑ کی کھال لائے تھے۔

ڈیوڈ بتاتے ہیں کہ ’لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔ نہ کوئی تقریب ہوئی، نہ کچھ اور۔ بس ڈینس چلا گیا۔‘

تقریباً 15 سال پہلے ڈیوڈ سے راڈ ریز جونز نے رابطہ کیا، جو برٹش انٹارکٹک مونیومنٹ ٹرسٹ کے سربراہ ہیں۔

ٹرسٹ کے مطابق سنہ 1944 سے اب تک برطانوی انٹارکٹک علاقے میں سائنسی مشن پر کام کرتے ہوئے 29 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

راڈ ایک سمندری مہم جوئی کا انتظام کر رہے تھے تاکہ ان میں سے کچھ 29 افراد کے لواحقین اس شاندار اور دور دراز مقام کو دیکھ سکیں جہاں ان کے عزیزوں نے زندگی گزاری اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

ڈیوڈ اس مہم میں شامل ہوئے۔ اس مہم کا نام ’ساؤتھ 2015‘ تھا۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’کپتان مقررہ مقامات پر رُک کر چار پانچ بار سائرن بجاتا تھا۔‘

سمندری برف اتنی موٹی تھی کہ ڈیوڈ اپنے بھائی کے کنگ جارج آئی لینڈ والے جھونپڑے تک نہ پہنچ سکے۔

وہ کہتے ہیں: ’لیکن یہ بہت ہی جذباتی لمحہ تھا۔ جیسے سر سے بوجھ اُتر گیا ہو۔‘ وہ کہتے ہیں کہ اس لمحے نے انھیں سکون کا احساس دلایا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اور میں نے سوچا بس اب سب یہیں ختم ہوا۔‘

لیکن رواں سال 29 جنوری کو ہینرک آرتسووسکی پولش انٹارکٹک سٹیشن کے سائنس دانوں کی ایک ٹیم کو اپنے قریب ہی کچھ ملا۔

ڈینس مل گیا تھا۔

کچھ ہڈیاں ڈھیلی برف اور چٹانوں میں پائی گئیں جو ایکالوجی گلیشیئر کے دامن میں جمع ہو گئی تھیں۔ باقی گلیشیئر کی سطح پر ملیں۔

سائنسدان بتاتے ہیں کہ نئی برفباری متوقع تھی، اس لیے انھوں نے ایک جی پی ایس نشان لگا دیا تاکہ ان کا ’قطبی ساتھی‘ دوبارہ نہ کھو جائے۔

لوج یونیورسٹی کے پیوتر کیٹل، پولینا بوروؤکا اور آرتور گنٹر، پولش اکیڈمی آف سائنسز کے داریوش پُچکو، اور محقق آرتور آڈامیک پر مشتمل ایک ٹیم نے چار بار وہاں کا دورہ کیا اور احتیاط سے باقیات نکالیں۔

پولش ٹیم کے مطابق یہ جگہ خطرناک اور غیر مستحکم ہے۔ ان کے مطابق وہاں کے شگاف جالی کی طرح کٹے ہوئے ہیں اور بعض ڈھلوانیں 45 درجے تک کھڑی ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی انٹارکٹکا کے کئی گلیشیئرز کو تیزی سے بدل رہی ہے، جن میں ایکالوجی گلیشیئر بھی شامل ہے، جو تیزی سے پگھل رہا ہے۔

ٹیم نے بتایا: ’جہاں ڈینس ملا، وہ جگہ وہ نہیں جہاں وہ لاپتا ہوا تھا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’کششِ ثقل کے اثر سے گلیشیئر اپنی برف کے ڈھیر کو حرکت دیتا ہے، اور اس کے ساتھ ڈینس نے بھی اپنا آخری سفر طے کیا۔‘

بیمبو کے سکی پولز کے ٹکڑے، تیل کے چراغ کی باقیات، کاسمیٹکس کے شیشے کے ڈبے، اور فوجی خیموں کے ٹکڑے بھی جمع کیے گئے۔

پولش ٹیم نے بتایا ہے: ’ہر ممکن کوشش کی گئی کہ ڈینس واپس گھر آ سکے۔‘

راڈ ریز جونز نے مزید کہا کہ ’یہ موقع ہے کہ ہم ان افراد کی قربانیوں کا دوبارہ جائزہ لیں اور یہ بھی کہ ہم نے کئی دہائیوں میں انٹارکٹکا میں جو سائنسی کام کیا، اسے اجاگر کریں۔‘

ڈیوڈ اب بھی اس خبر سے مغلوب ہیں اور بار بار پولش سائنسدانوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے بس افسوس ہے کہ میرے والدین یہ دن دیکھنے کے لیے زندہ نہ رہے۔‘

جلد ہی ڈیوڈ انگلینڈ جائیں گے، جہاں وہ اور ان کی بہن ویلیری بالآخر ڈینس کی تدفین کر سکیں گے۔

انھوں نے کہا: ’یہ شاندار ہے؛ میں اپنے بھائی سے ملنے جا رہا ہوں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں خوش نہیں ہونا چاہیے، لیکن ہم خوش ہیں۔ وہ مل گیا ہے، وہ اب اپنے گھر آ گیا ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US