پیسیفک رنگ آف فائر 40,000 مربع کلومیٹر کے کل رقبے پر محیط ہے اور یہ دنیا میں سب سے زیادہ آتش فشاں کا گھر بھی ہے۔ سیارے کے زیادہ تر سپر آتش فشاں وہاں پائے جاتے ہیں۔
رنگ آف فائر بحرالکاہل کے ارد گرد ٹیکٹونک پلیٹس کی حدود کا ایک علاقہ ہے، جہاں زلزلے اور آتش فشاں عام ہیں پیسیفک یعنی بحرالکاہل کے ساتھ ساتھ پھیلا ’رنگ آف فائر‘ زمین کو پھر سے ہلا رہا ہے۔
بدھ کو روس کے جزیرہ نما کامچٹکا کے مشرقی ساحل سے تقریباً 130 کلومیٹر دور 8.8 شدت کا ایک طاقتور زلزلہ آیا، جس سے علاقے میں سونامی کی وارننگ جاری کر دی گئی۔
روس، جاپان، امریکہ، ایکواڈور، پیرو، کولمبیا اور چلی کے کچھ حصوں کے لیے انخلا کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔
کامچٹکا پیسیفک رنگ آف فائر کا حصہ ہے۔
پیسیفک رنگ آف فائر 40 ہزار مربع کلومیٹر کے کل رقبے پر محیط ہے اور یہاں دنیا کے سب سے بڑے آتش فشاں پائے جاتے ہیں۔
سیارے کے سب سے بڑے آتش فشاں پیسیفک رنگ آف فائر میں پائے جاتے ہیں اس علاقے کے مغرب میں کئی لاطینی امریکی ممالک ہیں: ارجنٹائن، بولیویا، کینیڈا، کولمبیا، چلی، کوسٹا ریکا، ایکواڈور، ریاستہائے متحدہ، ایل سلواڈور، گوئٹے مالا، ہونڈوراس، میکسیکو، نکاراگوا اور پاناما۔
اس کے بعد یہ الاسکا اور کامچٹکا جزیرہ نما کے درمیان شمالی بحر الکاہل میں الیوٹین جزائر پر مڑتا ہے۔
اور پھر اس میں روس، جاپان، تائیوان، فلپائن، انڈونیشیا، ملائیشیا، مشرقی تیمور، برونائی، سنگاپور، پاپوا نیو گنی، سولومن جزائر، ٹونگا، ساموا، تووالو اور نیوزی لینڈ کے ساحل اور جزائر شامل ہیں۔
علاقائی ہنگامی صورتحال کے وزیر سرگئی لیبیڈیف کے مطابق بدھ کے زلزلے سے سونامی پیدا ہوا جس کی لہریں کامچٹکا کے ساحل سے تین سے چار میٹر بلند تھیں۔
روسی سرکاری میڈیا کی ابتدائی معلومات کے مطابق کئی لوگ زخمی ہوئے ہیں تاہم کوئی بھی شدید زخمی نہیں ہوا۔
زلزلے سے پیدا ہونے والی سونامی کی لہریں جو 18 کلومیٹر کی گہرائی میں پیدا ہوئی تھیں جزیرے ہوائی اور امریکہ کے مغربی ساحل تک بھی پہنچ گئیں۔
نیشنل سونامی وارننگ سینٹر کے مطابق شمالی کیلیفورنیا کے کریسنٹ سٹی میں 1.09 میٹر کی لہریں ریکارڈ کی گئیں۔
امریکہ کے جیولوجیکل سروے کے اعداد و شمار کے مطابق یہ ریکارڈ پر چھٹا سب سے زیادہ طاقتور زلزلہ ہے۔
زلزلوں کی ماہر سیسمولوجسٹ لوسی جونز نے نوٹ کیا کہ زلزلے کے امریکہ میں کہیں بھی تباہ کن ہونے کی توقع نہیں ہے، لیکن یہ حیران کن ہے کہ یہ اس علاقے میں دوبارہ زلزلے کی شدید سرگرمی کے ساتھ واقع ہو رہا ہے۔
سیارے کے 90 فیصد زلزلے یہاں آتے ہیں
پیروین جیو فزیکل انسٹی ٹیوٹ (آئی جی پی) کے ایگزیکٹو صدر ہرنینڈو تاویرس نے بی بی سی منڈو کے ساتھ پچھلے انٹرویو میں وضاحت کی کہ ’دنیا کے تمام زلزلوں میں سے نوے فیصد اور 80 فیصد بڑے زلزلے پیسیفک رنگ آف فائر میں آتے ہیں۔‘
تاویرسکہتے ہیں کہ بحرالکاہل کی تہہ کئی ٹیکٹونک پلیٹوں پر ٹکی ہوئی ہے اور ’حقیقت یہ ہے کہ ان کے کنورجنس اور رگڑ کی وجہ سے زلزلے کی سرگرمی رنگ آف فائر کے ساتھ شدید ہوتی ہے، جس کی وجہ سے تناؤ پیدا ہوتا اور جاری ہوتا ہے۔‘
رنگ آف فائر میں سرگرمی ٹیکٹونکس پلیٹس کی وجہ سے ہے۔ زمین کی پرت کی تہوں میں حرکت اور تصادم زلزلوں کو جنم دیتے ہیں۔
وہ آتش فشاں پھٹنے کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔
روس کا شہر 8.8 شدت کے زلزلے سے آنے والے سونامی کے بعد سیلاب کی زد میں آ گیا جو روس کے جزیرہ نما کامچٹکا کے مشرقی ساحل سے تقریباً 130 کلومیٹر دور رنگ آف فائر کے مرکز میں واقع ہےآتش فشاں کی طرح ’زیادہ گیس کی مقدار‘
بی بی سی منڈو کے ساتھ پچھلے انٹرویو میں میکسیکو کے نیشنل سینٹر فار ڈیزاسٹر پریوینشن کے ڈائریکٹر ہیوگو ڈیلگاڈو نے وضاحت کی تھی کہ زلزلہ آتش فشاں پر ایسا اثر کرتا ہے جیسے منرل واٹر کی بوتل کو ہلانا۔
وہ کہتے ہیں ’مکینیکل حرکت کی وجہ سے بوتل کی سطح پر گیس جمع ہو سکتی ہے۔ اس سے دباؤ بڑھتا ہے اور پانی پھوٹ پڑتا ہے۔ ایسا ہی کچھ آتش فشاں میں ہوتا ہے، جس میں گیس کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔‘
ماہر کے مطابق صرف نو شدت سے زیادہ طاقتور زلزلے ہی قریبی آتش فشاں پر خاصا اثر ڈال سکتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس قسم کا زلزلہ ایسے آتش فشاں کو بھی دوبارہ متحرک کر سکتا ہے جو صدیوں سے غیر فعال ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’ان بڑی شدت کے زلزلوں سے آنے والی لہروں کا اثر اتنا مضبوط ہے کہ وہ نہ صرف آتش فشاں کے پھٹنے کی وجہ بن سکتے ہیں بلکہ آتش فشاں کو غیر فعال بھی کر سکتے ہیں۔‘