پاکستان ڈیری ایسوسی ایشن نے انڈسٹری کی بہتری کے لیے وزیر اعظم کو تجاویز پیش کر دیں

image
پاکستان ڈیری ایسوسی ایشن کے ایک وفد نے وزیر اعظم، شاہد خاقان عباسی سے 05دسمبر، 2017کوایوان وزیر اعظم میں ملاقات کی۔ اس موقع پر وفد کے اراکین نے اپنا قیمتی وقت دینے اور انڈسٹری کو درپیش چیلنجوں کے بارے میں ایسوسی ایشن کا موقف سننے پر وزیر اعظم کا شکریہ ادا کیا ۔ وفد کے اراکین نے وزیراعظم سے پرزور استدعا کی کہ وہ انڈسٹری کی بہتری کے لیے کلیدی اقدامات کریں جو ملک کے شہریوں کو انتہائی ضروری غذائیت فراہم کر رہی ہے۔وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی، سکندر بوسن بھی اس ملاقات میں موجود تھے۔

ُپاکستان ڈیری ایسوسی ایشن کا وفد پی ڈی اے اور نیسلے پاکستان لمٹیڈ کے چیئرمین سید یاور علی، اینگرو فوڈز لمٹیڈ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر علی احمد خان، فوجی فوڈز کے چیف آپریٹنگ آفیسر عامر خواص، ڈیری لینڈ پرائیویٹ لمٹیڈ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر سلیمان صادق منوں، شکرگنج فوڈ پروڈکٹس پرائیویٹ لمٹیڈ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر انجم محمد سلیم، ٹیٹراپاک پاکستان لمٹیڈ کے منیجنگ ڈائریکٹرجارج مونتیرو، حلیب فوڈز لمٹیڈ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر محمد میموش خواجہ اور دیگر افرادشامل تھے۔پاکستان ڈیری ایسوسی ایشن کے وفد نے انڈسٹری کو درپیش درج ذیل مسائل کی جانب وزیر اعظم کی توجہ مبذول کرائی اور انڈسٹری کی ترقی اور سیکٹر کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کی تجاویز پیش کیں:

ٖفوڈ اسٹینڈرڈز میں ہم آہنگی:اٹھارویں ترمیم کی منظور ی اور صوبوں کو اختیارات کی منتقلی کے بعد تعلیم، ماحول، صحت اور خوراک کے معیارات سمیت متعدد معاملات صوبوں کا اختیار بن گئے ہیں۔

صوبائی فوڈ اتھارٹیز بنائی گئی ہیں اور انہوں نے آزادانہ طور پر اسٹینڈرڈزبنانا شروع کر دئیے ہیں جو نہ صرف یہ کہ وفاقی ادارے، یعنی پاکستان اسٹینڈرڈز کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کے بنائے ہوئے اسٹینڈرڈز سے بہت مختلف ہیں بلکہ بین الاقوامی اسٹینڈرڈز سے بھی مختلف ہیں جس سے بین الصوبائی تجارت ، ڈیری کی برآمدات اور متعدد ریگولیٹری قوانین کی پیچیدہ تعمیل میں سنگین مسائل پیدا ہو رہے ہیں جواس سیکٹر میں سرمایہ کاری اور ترقی کے لیے غیر حوصلہ افزا ہیں۔
تجویزبرائے ٖفوڈ اسٹینڈرڈز میں ہم آہنگی: قومی/وفاقی سطح پر قوانین ہم آہنگ بنائے جائیں جبکہ اس کی مانیٹرنگ اور عمل درآمد ، عالمی مشقوں کے مطابق، صوبائی ادارے کریں۔

ٹیکسوں سے متعلق قوانین: پاکستان دنیا میں دودھ پیدا کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔ تاہم، صرف 5فیصد دودھ پروسیس اور پیک کیا جاتا ہے جبکہ باقی 95فیصد دودھ نہ پروسیس کیا جاتا ہے اور نہ اس کے لیے کوئی ریگولیشنز اور ٹیکس ہیں۔

سنہ2016ء میں زیرو ٹیکس ریٹنگ کو ختم کرکے exemption کا قانون منظور کیا گیا تھا جس پر عمل ہونا باقی ہے۔ اس کے نتیجہ میں اخراجات میں اضافہ ہو ا اور اس طرح کھلے دودھ اور پروسیس کیے ہوئے دودھ کی قیمتوں کے درمیان فرق بڑھ گیا ۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انڈسٹری تیزی سے تنزلی کا شکار ہوگئی اور غیر پروسیس کیے ہوئے دودھ کو باضابطہ دستاویزی پروسیس دودھ میں تبدیل کرنے کا عمل پلٹ گیا۔

منافع اور حجم میں کمی کا سیکٹرمیں کی گئی سرمایہ کاری پر بہت اثر ہوا اور ساتھ ہی مِلک فارمنگ کمیونٹیز اور کولڈ چین انفراسٹرکچر کی ترقی پر بھی اثر ہوا۔

تجویزبرائے ٹیکسوں سے متعلق قوانین: زیرو ریٹنگ ٹیکس کے قانون کو بحال کیا جائے اور دودھ نیز دودھ سے تعلق رکھنے والی پروڈکٹس کو سیلز ٹیکس ایکٹ، 1990ء کے ساتھ شیڈول میں ڈالا جائے۔

سوکھے دودھ کے پوڈر پر ریگولیٹری ڈیوٹی: پروسیس کیے ہوئے دودھ کی صنعت 30فیصد پوڈر کے دودھ پر مشتمل ہے جو موسم گرما میں جب دودھ کی پیداوار ، فارم کی سطح پرچارے کی کمی اور دودھ بنانے کے دورانیے میں کمی کی وجہ سے 60-70فیصد تک کم ہوجاتی ہے۔ یہ اس کمی کو پورا کرتا ہے۔ بغیر بالائی والے دودھ کی درآمد کی دوسری وجہ دودھ کے معیاری پاؤڈر کی عدم دستیابی ہے جو شیرخوار بچوں اور اسی طرح کے دیگرافراد کے لیے درکار ہوتا ہے۔

اس وقت ریگولیٹری ڈیوٹی 25فیصد ہے جو 22فیصد کسٹمز ایکسائز ڈیوٹی کے علاوہ ہے اور اس نے منافع پر بہت اثر ڈالا ہے کیوں کہ صارف کے لئے اس کی منتقلی کا مطلب کھلے دودھ اور پروسیس کیے ہوئے دودھ کی قیمتوں میں فرق کو مزید بڑھانا ہے جس کے نتیجہ میں اس کی فروخت میں مزید کمی آئی ہے۔
تجویزبرائے سوکھے دودھ کے پوڈر پر ریگولیٹری ڈیوٹی: ڈیری پروسیسرز پر سے ریگولیٹری ڈیوٹی اور ایکسائز ڈیوٹی کو ختم کیا جائے۔

کم از کم پاسچرائزیشن کا قانون: ترقی پذیر ممالک سمیت دنیا بھر میں دودھ کو غذا کا اہم ذریعہ قرار دیا جاتا ہے اور حکومتیں صارفین کے مفادات کے تحفظ کی غرض سے قوانین میں اضافہ کرتی رہتی ہیں ۔اس کے لیے انہوں نے پاسچرائزیشن کا قانون بھی بنایا ہے تاکہ دودھ کے معیار کو محفوظ بنایا جا سکے۔

ملک کے شہریوں کومعیاری دودھ کی دستیابی متاثر ہو گی اور بچوں میں ناکافی غذائیت کی شرح میں غیر معمولی اضافہ ہو جائے گا۔

کم از کم پاسچرائزیشن کا قانون ڈیری انڈسٹری کو ایسی پروڈکٹس تیار کرنے میں مدد دے گا جو برآمدات کے قوانین پر پورا اترتی ہوں اور اس طرح برآمدات میں بھی اضافہ ہوگا۔

تجویز برائے کم از کم پاسچرائزیشن کا قانون:وفاقی دائرہ اختیار کے تحت کم از کم پاسچرائزیشن کا قانون متعارف کرایا جائے جنہیں صوبائی سطح پر اپنایا اور نافذ کیا جائے۔ترکی، مصر، انڈونیشیا اور ویتنام کے بزنس ماڈل اس حوالے سے ہماری رہنمائی کررہے ہیں۔

اس موقع پر وفد کے اراکین نے اپنا قیمتی وقت دینے اور ایسوسی ایشن کا موقف سننے پر وزیر اعظم کا شکریہ ادا کیا اور انہیں یقین دلایا کہ وہ انڈسٹری کے قانون ساز کے اراکین کے طور پر تمام وفاقی قوانین کی پاسداری کریں گے۔وزیر اعظم نے انڈسٹری کے تحفظ اور فروغ دینے کیلئے کارروائی کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔


About the Author:

مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.