سابق آرمی چیف کا ٹیکس ریکارڈ لیک ہونے کا معاملہ: عدالت نے صحافی شاہد اسلم کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا

اسلام آباد کی مقامی عدالت نے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے خاندان کے اثاثوں سے متعلق معلومات لیک کرنے کے الزام میں گرفتار صحافی شاہد اسلم کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا ہے۔

اسلام آباد کی مقامی عدالت نے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے خاندان کے اثاثوں سے متعلق معلومات لیک کرنے کے الزام میں گرفتار صحافی شاہد اسلم کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا ہے جبکہ اس مقدمے کے پراسیکیوٹر نے ملزم کے  چار روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا اس بنیاد پر کی کہ ابھی تک ملزم نے تفتیشی افسر کو ملزم کے زیر استعمال لیپ ٹاپ کا پاسورڈ نہیں دیا۔

صحافی شاہد اسلم کو سنیچر کو دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے حوالے کیا گیا تھا۔

پیر کے روز جب شاہد اسلم کو اسلام آباد کی مقامی عدالت کے جج عمر شبیر کی عدالت میں پیش کیا گیا تو اس مقدمے کے پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی کا کہنا تھا کہ دو روزہ جسمانی ریمانڈ کے دوران  ملزم نے پاسورڈ نہیں دیا اور ملزم کے جوابات بھی غیر تسلی بخش ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ملزم شاہد اسلم سے پوچھا کہ پاسورڈ دینے میں تعاون کریں لیکن انھوں نے نہیں کیا۔

اس مقدمے کے تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ ملزم کے زیر استعمال لیپ ٹاپ اور موبائل کو ڈی کوڈ کرنے کے لیے انھیں فرنزک لیب بھیجوا دیا گیا ہے اور فرنزک ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ ایک دو روز میں اس کا پاسورڈ دے دیں گے۔

خیال رہے کہ فیکٹ فوکس کے صحافی احمد نورانی کی رپورٹ میں جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کے اہلِخانہ کے اثاثوں میں مبینہ اضافے کی معلومات پر تفصیلی تحقیقاتی رپورٹ شائع کی گئی تھی۔ آئی ایس پی آر نے بعدازاں فیکٹ فوکس میں شائع ہونے والے اعداد وشمار کی تردید کی تھی۔

فیکٹ فوکس ویب سائٹ کے مدیر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس الزام کی تردید کی تھی کہ شاہد اسلم اس ویب سائٹ پر جنرل باجوہ اور ان کے اہلخانہ کے اثاثوں سے متعلق شائع ہونے والی خبر سے کسی بھی طرح سے منسلک تھے۔ ویب سائٹ کی ادارتی ٹیم کا کہنا ہے کہ شاہد اسلم نے کبھی بھی اس خبرپر فیکٹ فوکس کے لیے کام نہیں کیا۔

bajwa
Getty Images

تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ ملزم شاہد اسلم تسلیم کرتے ہیں کہ ایف بی آر سے مختلف آفیشلز کا ڈیٹا لیتے رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ملزم کے موبائل ڈیٹا سے اس مقدمے میں گرفتار دیگر ملزمان کے ساتھ کنفرم کرنا ہے۔

تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ دو دن میں ملزم نے بتایا کہ وہ ماضی میں بھی  ایف بی آر سے ڈیٹا لیتے رہے ہیں تاہم انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ شخصیات کون تھیں جن کا ڈیٹا لیتے رہے ہیں۔

 ملزم کے وکیل  میاں علی اشفاق نے  تفتیشی افسر کی طرف سے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ محض مفروضوں پر ان کے موکل کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔

انھوں نے کہا کہ شاہد اسلم کے خلاف زبانی کلامی ثبوت دیا گیا ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں۔ 

ملزم کے وکیل کا کہنا تھا کہ سابق آرمی چیف عدالت میں تو موجود نہیں اور ان کا بیان بھی نہیں۔ 

انھوں نے سوال کیا کہ کیا سابق آرمی چیف خود عدالت میں پیش ہو کر شاہد اسلم کے حوالے سے بیان دے سکتے ہیں؟ 

میاں علی اشفاق نے کہا کہ سابق آرمی چیف کو قانون کے اوپر رکھا جا رہا ہے۔

ملزم کے وکیل میاں علی اشفاق کا کہنا تھا کہ صحافی ہونے کی وجہ سے ان کے موکل کا ایف بی آر کے ملازمین کے ساتھ تعلق ہو سکتا ہے۔

 انھوں نے کہا کہ شاہد اسلم پر الزام ہے کہ ایف بی آر کے ملازمین کو رشوت دی۔ 

میاں علی اشفاق کا کہنا تھا کہ ایسا ہوتا رہا تو مفروضوں پر مبنی صحافیوں کے خلاف مستقبل میں کارروائی کی جائے گی۔ 

انھوں نے کہا کہ ایف آئی اے کے مطابق مفروضوں پر مبنی ایف بی آر سے ڈیٹا تو کئی سالوں پہلے نکالا گیا ہے۔

میاں علی اشفاق کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے بتائے کہ ڈیٹا لیک کی تاریخ کیا ہے اور ملازمین کو کس بینک اکاؤنٹ سے پیسے بھیجے۔

انھوں نے کہا کہ اگر ایک لمحے کے لیے فرض کرلیں کہ ان کے موکل نے ایف بی آر کے ملازمین کو رشوت دی تو استغاثہ کو وہ دن، وقت، مقام، کہاں رشوت دی گئی، یہ سب ثابت کرنا ہوگا۔

ملزم کے وکیل نے کہا کہ سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید نے کبھی نہیں کہا کہ وہ اس وقوعہ کے متاثرہ فریق ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ملزم شاہد اسلم کے کیس میں متاثرہ فریق تو کبھی سامنے آیا ہی نہیں اور قانون اس کی مدد نہیں کرسکتا جو اپنے حق کے لیے سویا رہتا ہے۔

باجوہ
Getty Images

میاں علی اشفاق نے کہا کہ اس طرح کا مقدمہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسی کا بھی ہوا تھا جہاں پر ایف بی آر سے ان کے خاندان کا موبائل ڈیٹا پبلک کیا گیا تھا لیکن اس میں جسٹس قاضی فائز عیسی کا کنڈکٹ دیکھ لیں۔ 

انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے جج کی فیملی کا ڈیٹا لیک ہونے کا معاملہ کسی نے نہیں سنا۔ 

ملزم کے وکیل کا کہنا تھا کہ کیا اس وقت ایف آئی اے، ایف بی آر قاضی فائز عیسیٰ کیس میں سو رہے تھے کہ کوئی پھرتی نہیں دیکھائی۔

میاں علی اشفاق نے کہا کہ ان کے موکل کے خلاف ایسے مقدمہ بنایا گیا جیسے وہ خود جنرل ریٹائرڈ باجوہ کی فیملی کے خلاف کوئی درخواست لے کر چیئرمین نیب کے پاس پہنچ گئے ہوں۔

انھوں نے کہا کہ جو الزامات جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ پر لگے ہیں اصل میں یہ نیشنل سیکورٹی کا مسئلہ ہے۔

شاہد اسلم کے وکیل نے کہا کہ اس کیس میں ہیرو کو ولن اور ولن کو ہیرو بنا دیا گیا ہے۔ 

ملزم کے وکیل نے کہا کہ ایجنسیوں نے ایف آئی اے کے ساتھ مل کر انکوائری کی اور مقدمہ درج کروا دیا اور ملزم شاہد اسلم تو مقدمے میں نامزد ہی نہیں ہیں، انھیں انصاف ملنا چاہیے۔

انھوں نے اپنے موکل کو اس مقدمے سے ڈسچارج کرنے کی استدعا کی ہے۔ 

عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا ہے۔

معاملہ شروع کہاں سے ہوا تھا؟

bajwa
Getty Images

گذشتہ برس نومبر میں تحقیقاتی جریدے فیکٹ فوکس کی جانب سے اس وقت کے حاضر سروس آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے خاندان کی اثاثوں میں مبینہ اضافے کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ شائع کی گئی تھی۔

اس تحریر میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے آرمی چیف کے عہدے پر تعینات ہونے کے بعد سے ان کی اہلیہ اور بہو کے اثاثوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا تھا۔

صحافی احمد نورانی کی اس تحریر کے شائع ہونے کے بعدوزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اس کا نوٹس لیتے ہوئے 24 گھنٹوں میں ذمہ داروں کا تعین کرنے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ ٹیکس ریکارڈ لیک ہونا ٹیکس قوانین کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔

اس کے بعد آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ ’آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کے خاندان کے اثاثوں سے متعلق سوشل میڈیا پر گمراہ کن اعداد و شمار شیئر کیے گئے۔‘

آئی ایس پی آر کے بیان میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ایک خاص گروپ نے نہایت چالاکی و بد دیانتی سےاثاثوں کو منسوب کیا ہے، یہ سراسر غلط تاثر دیا جا رہا ہے کہ یہ اثاثے آرمی چیف کے چھ سالہ دور میں ان کے سمدھی کی فیملی نے بنائے۔‘

اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ’جنرل باجوہ، ان کی اہلیہ اور خاندان کا ہر اثاثہ ایف بی آر میں باقاعدہ ڈکلیئرڈ ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.